معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
مخدوم کی بات پر اعتبار تو کرنا پڑے گا
کل کا تو کچھ پتا نہیں کہ عدالتِ عالیہ اور اگر ضرورت پڑی تو عدالتِ عظمیٰ سے عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں ہونے والی نااہلی کا کیا بنتا ہے لیکن فی الحال تو معاملہ بالکل وہی ہوا ہے جو ہمارے ایک مرحوم دوست سے ہمارے مذاق جیسا ہے۔ مرحوم نے بی اے کے امتحانات میں تین پرچے دیے اور اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر ان تینوں پرچوں میں فیل ہو گئے۔ ہم نے خبر پھیلا دی کہ انہوں نے تین پرچے دیے تھے اور چار میں فیل ہو گئے ہیں۔ اب اس معاملے پر باقی دوستوں کو شغل ہاتھ آ گیا۔ سب نے ہمارا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بندہ تین مضامین میں امتحان دے اور وہ چار مضامین میں فیل ہو جائے۔ جب معاملہ خاصا پھیل گیا تب ہم نے راز افشاکرتے ہوئے بتایا کہ بی اے میں کل چار مضامین تھے‘ ہمارے دوست نے ایک پرچہ چھوڑ دیا تھا اور بقیہ تین پرچے دیے تھے؛ تاہم جب رزلٹ آیا تو گزٹ میں یہی لکھا ہوا تھا کہ وہ چار مضامین میں فیل ہو گئے ہیں اور آگے مزید یہ لکھا ہوا تھا کہ Must appear in all subjectsیعنی چاروں مضامین میں دوبارہ امتحان دیں۔
خان صاحب ابھی چند روز قبل قومی اسمبلی کے چھ حلقوں سے کامیاب ہوئے تھے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کے فیصلے کے ساتھ ہی وہ سات سیٹوں سے فارغ ہو گئے۔ یعنی جیتے چھ سیٹوں پر تھے اورفارغ سات پر ہوئے۔ ساتویں سیٹ ان کی این اے 95 میانوالی والی تھی جہاں سے وہ 2018ء کے الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔ نہ میں قانون دان ہوں اور نہ ہی آئینی موشگافیوں سے زیادہ آگاہ ہوں‘ اب عدالت جانے اور عمران خان جانیں یعنی ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”جٹ جانے تے بجو جانے‘‘۔ اس پنجابی محاورے کی گہرائی میں جانے اور فریقین کی ذاتیات پر غور کرنے کے بجائے اسے صرف محاورہ سمجھیں اور لطف لیں کہ زیادہ گہرائی میں جانے سے مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔
ادھر ملتان میں شاہ جی سے بات ہوئی تو وہ اپنے اندازوں کی درستی پر بڑے شاداں تھے اور اپنے سیاسی شعور کی بلوغت پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ میں نے ان سے کوئی نئی تازی سنانے کو کہا تو فرمانے لگے کہ پچیس ہزار ایک سو چھیاسی ووٹوں سے شکست کے بعد اپنے شاہ محمود قریشی صاحب فرما رہے ہیں کہ وہ بے شک ہار گئے ہیں لیکن ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے صاحبزادے نے الیکشن 2018ء میں ستتر ہزارسے زائد ووٹ لیے تھے جبکہ ان کی صاحبزادی نے 2022 ء میں بیاسی ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں اس طرح اس حلقہ این اے 157 میں نہ صرف ان کے ووٹ بینک بلکہ ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان کی شکست کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ وہ اپنے حلقہ میں غیر مقبول ہوئے ہیں یا حلقہ کے لوگوں نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ان کی صاحبزادی نے ضمنی الیکشن میں جنرل الیکشن سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں جو کہ عموماً نہیں ہوتا۔ رہ گئی بات علی موسیٰ گیلانی کی کامیابی کی، تو ان کی کامیابی کی واحد وجہ یہ ہے کہ اسے اس بار مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کی دیگر ساری پارٹیوں کے ووٹ ملے ہیں۔ میں نے کہا: شاہ جی سچی بات تو یہ ہے کہ میں قبلہ شاہ محمود قریشی کے اس موقف سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ ان کی صاحبزادی مہر بانو قریشی نے اس ضمنی الیکشن میں ان کے صاحبزادے زین قریشی کے 2018ء کے جنرل الیکشن میں حاصل کردہ ووٹوں سے چار ہزار سات سو ستر ووٹ زیادہ لیے ہیں جو ان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی میں اضافے کی دلیل ہے جبکہ اس کے مقابلے میں علی موسیٰ گیلانی نے اس بار ایک لاکھ سات ہزار تین سو ستائیس ووٹ لیے ہیں حالانکہ اس بار ان کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار غفار ڈوگر بھی مددگار اور معاون تھے۔ 2018ء میں علی موسیٰ اور غفار ڈوگر نے مجموعی طور پر ایک لاکھ بتیس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے اس بار یہ ووٹ کم ہو کر ایک لاکھ سات ہزار پر آ گئے ہیں۔
شاہ جی ہنسنے لگ گئے اور کہنے لگے: بھولے بادشاہو! یہی شاہ محمود قریشی بھی کہہ رہے ہیں اور اس کا جواب یہ ہے کہ خود شاہ محمودقریشی 2018ء میں صوبائی حلقہ پی پی 217 ملتان سے 31716 ووٹ لے کر سلمان نعیم کے مقابلے پر ہار گئے تھے۔ تب سلمان نعیم نے 34294 ووٹ حاصل کیے تھے اورمسلم (ن) کے امیدوار نے وہاں سے 21618 ووٹ لیے تھے۔ اسی حلقہ پی پی 217 پر سترہ جولائی 2022 ء کو یعنی صرف تین ماہ قبل ضمنی الیکشن میں ان کے صاحبزادے نے سینتالیس ہزار ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی جبکہ سلمان نعیم کی پشت پر مسلم لیگ (ن) اور ساری پی ڈی ایم تھی مگر اس نے چالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ لیے حالانکہ سلمان نعیم اور مسلم لیگ (ن) کامجموعی ووٹ بینک تریپن ہزار سے زائد بنتا تھا تو اس حلقے میں مجموعی ووٹ لے کر مسلم لیگ کا امیدوار کیوں نہیں جیتا؟میں نے پوچھا: پھر کیا جواب دیا شاہ محمود قریشی صاحب نے؟ شاہ جی کہنے لگے: تمہارے پاس کیا جواب ہے اس کا؟ میں نے کہا: میرے پاس تو کوئی جواب نہیں۔شاہ جی کہنے لگے: قریشی صاحب کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر شاہ جی مزید شرپسندانہ انداز میں کہنے لگے کہ آپ کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے اور شاہ محمود صاحب کی صاحبزادی شہری پولنگ سٹیشنوں سے بھی ہار گئیں، بلکہ اور تو چھوڑیں وہ اپنے گھر کے پولنگ سٹیشن سے بھی ہار گئیں۔ اس حلقے سے ان کے صاحبزادے نے جیت کر پونے چار سال میں حلقے کے لوگوں کا ٹکے کا کام نہ کروایا جبکہ پنجاب اور مرکز میں انہی کی پارٹی کی حکومت تھی۔ اوپر سے ان کے اپنے ساتھیوں نے اندر خانے ان کے مخالف کا ساتھ دیا۔ میں نے پوچھا: مثلاً کون کون؟ شاہ جی کہنے لگے: اب تمہیں یہ کہنے کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ ان کے نام نہ لکھوں اس لیے میں تمہیں یہ کہہ بھی نہیں رہا۔ میری پکی خبر ہے کہ اس قومی حلقہ این اے 157 کے نیچے جو دو صوبائی حلقے ہیں اس کے دونوں ارکان صوبائی اسمبلی جو پی ٹی آئی سے ہیں‘ قریشی صاحب کی صاحبزادی کیلئے اس بار دلجمعی سے ووٹ مانگنے نہیں نکلے۔ پھر کہنے لگے: میں محض افواہوں پر تو یقین نہیں کرتا گو کہ افواہیں تو اور بھی بہت ہیں۔
میں نے پوچھا: شاہ جی! وہ کمشنر ملتان کی ٹرانسفر کی کیا کہانی ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: تمہیں اس کہانی کا خود سارا علم ہے اور اب تم کھچرے بن کر مجھ سے پوچھ رہے ہو۔ میں نے کہا: شاہ جی! وہ معاملہ ختم نہیں ہو گیا تھا؟ شاہ جی کہنے لگے: ایک طرف شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ ان کی حلقہ میں مقبولیت اور ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے‘ دوسری طرف ان کا کہنا ہے کہ ان کی صاحبزادی کی شکست میں کمشنر ملتان کا بہت عمل دخل ہے۔ انہوں نے خان صاحب سے کہہ کر حلقہ پی پی 217 میں ضمنی الیکشن سے پہلے بھی کمشنر ملتان کا ٹرانسفر کروایا تھا مگر الیکشن کی تاریخ اناؤنس ہونے کے بعد حلقہ میں سرکاری افسروں کی تبدیلی اور تقرری پر پابندی کے باعث اس پر عمل نہ ہو سکا اب دوبارہ عمران خان کو کہہ کر ان کی چھٹی کے دوران دوسری بار ٹرانسفر کروا دیا۔ قریشی صاحب کا اصرار تھا کہ کمشنر ملتان کی خدمات وفاق کو منتقل کر دی جائیں مگر پنجاب حکومت نے درمیانی راستہ نکالتے ہوئے انہیں وفاق میں بھیجنے کے بجائے سینئر مینجمنٹ کورس پر بھجوا دیا ہے۔ سنا ہے اس پر مخدوم صاحب بہت ناراض ہیں۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا کوئی پردیسی کمشنر کسی امیدوار کو الیکشن میں پچیس ہزار ووٹ ڈلوا سکتا ہے؟ میں نے کہا: ایسا پہلے کبھی سنا تو نہیں مگر کیا کوئی مخدوم جھوٹ بول سکتا ہے؟