مرشد، محمد بن سلمان کی گھڑی اور رانا ابرار

ان دنوں بدقسمتی سےپاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں محمد بن سلمان کی گھڑی کی دھوم مچی ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا موجب بن رہی ہے لیکن دوسری طرف عمران خان نیازی اب بھی بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میری گھڑی ، میری مرضی ۔ اس حوالے سے سب سے پہلے جس صحافی نے امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے عمران خان سرکار سے سوال پوچھنے کی ”گستاخی“ کی تھی ، ان کا نام رانا ابرار خالد ہے۔ انہوں نے سوال پوچھنے کی ہمت اس وقت کی تھی جب فوج، ایجنسیاں اور عمران خان ایک پیج پر تھے اور جب ملک میں چارسو مرشَد(مرشِد نہیں) کا جادو سرچڑھ کے بول رہا تھا۔ رانا صاحب کی اس صحافتی کاوش کے جواب میں پہلے انہیں کروڑوں روپے کا لفافہ دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی گئی جو انہوں نے ٹھکرا دی، پھر ان کو نوکری سے نکالا گیا اور وہ آج تک بے روزگار ہیں۔ عمران خان نیازی کے اس فرمان کہ میری گھڑی میری مرضی کے بعد انہوں نے عمران خان کے نام میرے کالم کے ذریعے ایک کھلا خط لکھا ہے جسے آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔

”جناب عمران خان صاحب! جس گھڑی کو آپ ذاتی بتا رہے ہیں وہ آپ کی ذاتی نہیں تھی کیونکہ ہیروں والی گھڑی سمیت 1.2 کروڑ ڈالر کی لگ بھگ مالیت کا ’’گراف‘‘ کا سیٹ سعودی ولیٔ عہد نے آپ کو نہیں بلکہ وزیراعظم کو گفٹ کیا تھا۔نہ صرف آپ نے امانت میں خیانت کی اوراخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئےسعودی ولیٔ عہد کا تحفہ سرِبازار بیچ ڈالا بلکہ قانون کی درج ذیل خلاف ورزیاں کیں:

1۔ قانون کے مطابق سعودی ولیٔ عہد کا تحفہ ملتے ہی وہاں تعینات پاکستانی سفیر کو ان تحائف کی بابت توشہ خانہ کے انچارج کو تحریری طور پر آگاہ کرنا چاہئے تھامگر آپ نے سفیر کو ٹرانسفر کی دھمکی دے کر رپورٹ بھجوانے سے منع کر دیا۔

2۔قانون کا تقاضا تھا کہ سعودی ولیٔ عہد سے ملنے والے تحائف آپ کابینہ ڈویژن یا پی ایم آفس کے Designated افسر کے سپرد کرتے جو پاکستان پہنچ کر مذکورہ تحائف (قواعد کے مطابق) توشہ خانہ میں جمع کراتامگر آپ اسے اپنے ذاتی luggage کے ساتھ سیدھے بنی گالا اپنے گھر لے گئے اور توشہ خانہ کے اسٹاف کو ان تحائف کی شکل تک دیکھنے نہیں دی ۔

3۔ رولز کے مطابق ہونا یہ چاہئے تھا کہ 2019 میں سعودی ولی عہد سے ملنے والے تحائف پہلے توشہ خانہ میں جمع ہوتے اور پھر آپ بطور Recipient مذکورہ تحائف کو Retain کرنے کی تحریری درخواست مع بیان حلفی انچارج توشہ خانہ کو بھجواتےمگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔

4۔تحائف Retain کرنے کیلئےآپ کی درخواست موصول ہونے کے بعد انچارج توشہ خانہ 15روز میں (رولز کے مطابق خط بھجواکر) ایف بی آر سے اور مارکیٹ سے اپریزر بلاتا جو مذکورہ تحائف کا ایگزامینیشن اور پرائس ایویلیوایشن کرکے مارکیٹ نرخوں کے مطابق قیمت کاتعین کرتے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا کیونکہ مذکورہ تحائف توشہ خانہ میں لائے ہی نہیں گئے اور آپ کی ہدایت پر بغیر اپریزل کے مذکورہ تحائف کی Retaining کی رسمی کارروائی پوری کی گئی۔

5۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ رولز کے مطابق توشہ خانہ کی پرائس ایویلیوایشن کمیٹی بنائی جاتی جو ایف بی آر اپریزر اور پرائیویٹ اپریزر کی تعین کردہ قیمتوں کا جائزہ لے کر سعودی ولیٔ عہد سے ملنے والے تحائف کی حتمی قیمت کی منظوری دیتی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

6۔ آپ کی حکومت نے دسمبر 2018 میں توشہ خانہ رولز آف پروسیجر آفس میمورنڈم میں ترمیم کرکے تحائف کی Retaining Fee مارکیٹ پرائس کے 20 فیصد سے بڑھا کر 50فیصد کردی تھی مگر 2019میں سعودی ولیٔ عہد سے ملنے والے ’’گراف کمپنی‘‘ کے ٹیلر میڈ ڈائمنڈسیٹ کی Retaing کے معاملے میں انچارج توشہ خانہ نے جعلی اپریزل کے ذریعے انڈر پرائسنگ کرکے جو قیمت متعین کی وہ 10کروڑ روپے تھی اس کے برعکس آپ کی طرف سے Retaining Fee محض دو کروڑ روپے ادا کی گئی۔ اس طرح آپ نے 20 فیصد ادائیگی کرکے اپنے ہی بنائے گئے رولز کی خلاف ورزی کی۔

7۔ آپ نے سعودی ولی عہد سے ملنے والے ’’گراف کمپنی‘‘کے (1.2 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ مالیت کے) ٹیلر میڈ ڈائمنڈسیٹ کی Retaning کیلئے جو 2 کروڑ روپے کی معمولی رقم ادا کی وہ آپ کےذاتی اکاؤنٹ یا آپ کے نام سے پے آرڈر کے ذریعے قومی خزانے میں جمع نہیں ہوئی بلکہ ان تحائف کو بیرون ملک بیچنے کا انتظام کرنے والے معاون خصوصی کی طرف سے مذکورہ رقم جمع کروائی گئی۔

8۔ آپ نے دوست ملک سے ملنے والا ’’گراف کمپنی‘‘ کا ٹیلر میڈ ڈائمنڈ سیٹ (جس میں ایک گھڑی، ایک انگوٹھی ،دو کف لنکس اور ایک قلم شامل تھا) اور غیرملکی دوروں میں ملنے والے دیگر تحائف اندرون وبیرون ملک کی مارکیٹوں میں بیدردی سے فروخت کردئیے۔ حالانکہ یہ تحائف آپ نے نیلامی میں نہیں خریدے تھے بلکہ توشہ خانہ سے Retain کئے تھے اور Retaining کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں غیرملکی دورے کے دوران ملنے والے تحائف کی Retaining کی اجازت Recipient کو اس لئے ملتی ہے کیونکہ وہ اپنی درخواست میں لکھتا ہے کہ ’’یہ تحفہ مجھے فلاں اہم شخصیت نے پیش کیا تھا جو میرے لئے یادگار ہے اور میں اسے بطور یادگار اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں،‘‘ اسی لئے ہر Recipient کو Retaining کیلئے ایک بیان حلفی بھی اپنی درخواست کے ساتھ لف کرنا پڑتا ہے۔

9۔ آپ نے سعودی ولیٔ عہد سے ملنے والا ’’گراف کمپنی‘‘کا ٹیلر میڈ ڈائمنڈ سیٹ دبئی فروخت کرنے کیلئے ایکسپورٹ NOC کے بغیر نجی جہاز پر بیرون ملک اسمگل کروایاجس کا شعبہ کسٹم کے ریکارڈ میں کوئی اندراج نہیں۔

10۔عمران خان کی اس حرکت کی پاداش میں پاکستان کو 3ارب ڈالر کیش ڈیپازٹ کی واپسی اور موخر ادائیگی پر تین ارب ڈالر تیل فراہمی کے معاہدے کی منسوخی کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔

کیا ان حقائق اور قانون کی خلاف ورزیوں کے بعد آپ کو یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ میری گھڑی، میری مرضی؟

خیراندیش…رانا ابرار خالد