معاشی ترقی اور عوامی مفاد کیلیے ویتنامی ماڈل اپنانے کی ضرورت

اسلام آباد: تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا اور معیشت پر حکومتی اقتصادی اثر یا گرفت کو محدود کرنا ضروری ہے۔

ان دو باتوں کو اپناکر متعدد ترقی پذیر ممالک اپنی معیشتوں کو مضبوط بناچکے ہیں۔ ایک تازہ مثال ویتنام کی ہے۔ امریکا کے ساتھ ایک طویل جنگ نے ویتنامی معیشت کو تباہ کردیا تھا۔ 70 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی تھی اور مہنگائی کی شرح 700 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔

ویتنامی حکمرانوں کو اپنے عوام کو بھوک سے بچانے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا تھا۔ اس نے فوری طور پر اصلاحات کے لیے دو ایریاز کا انتخاب کیا۔ اس نے ریاستی ملکیتی کاروباروں کی ری اسٹرکچرنگ کے ذریعے معیشت پر حکومتی اثرورسوخ کو محدود کیا اور تجارتی رکاوٹوں میں بھی کمی کی۔

آئندہ دس برسوں میں مارکیٹ کے مطابق قانونی اصلاحت کیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام بڑی تجارتی اقوام کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ معیشت پر سے حکومتی گرفت کو ڈھیلا کرنا نسبتاً چیلنجنگ ثابت ہوا۔

پہلے مرحلے میں 1990ء کی دہائی میں سرکاری ملکیت میں چلنے والے کاروبار (SOEs) آزاد کردیے گئے اور انھیں ملازمین کی تقرری اور انھیں برخاست کرنے کے اختیار بھی دے دیے گئے۔ جو ادارے حکومت کی سپورٹ کے بغیر نہ چل پائے انھیں تحلیل یا ضم کردیا گیا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ویتنام کی معیشت بتدریج نمو پانے لگی۔

بالخصوص برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا اور یہ 1995ء میں 5 ارب ڈالر سے بڑھ کر اب 330 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ اسی مناسبت سے غربت میں کمی ہونے لگی اور اب اس کی شرح 5 فیصد سے نیچے چلی گئی ہے۔ ویتنام کی مثال ظاہر کرتی ہے کہ تجارتی رکاوٹیں اور معیشت پر حکومتی اثر کم کرنے کے انتہائی مثبت اقتصادی نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

پاکستان میں بھی ویتنام ماڈل اختیار کرنے کے مثبت اقتصادی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، مگر اس کے لیے مضبوط قوت ارادی درکار ہوگی اور ذاتی و طبقاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا۔