معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
انڈیا کی سرحد کھول دیں
مسز بھاٹیا اچاریہ ممبئی میں سرجن تھیں‘ وہ ایک بار ٹرین کے ذریعے بنگلور سے ممبئی جا رہی تھیں‘ انھوں نے راستے میں دیکھا ٹرین کے ٹی ٹی نے تیرہ چودہ سال کی ایک لڑکی کو بازو سے پکڑ رکھا ہے۔
وہ اسے پولیس کے حوالے کرنا چاہتا ہے اور لڑکی رو رہی ہے‘ مسز اچاریہ نے ٹی ٹی کو روک کر ماجرہ پوچھا‘ ٹی ٹی نے بتایا یہ لڑکی ٹکٹ کے بغیر سیٹ کے نیچے چھپ کر سفر کر رہی تھی اور میں نے اسے پکڑ لیا‘ مسز بھاٹیا نے لڑکی کی طرف دیکھا‘ وہ شکل سے معصوم دکھائی دے رہی تھی۔
مسز بھاٹیا نے پرس کھولا‘ رقم نکالی‘ ٹی ٹی سے ٹکٹ کی قیمت اور جرمانہ پوچھا‘ رقم ادا کی‘ لڑکی کو ٹکٹ خرید کر دیا اور اپنے ساتھ سیٹ پر بٹھا لیا‘ لڑکی کا نام سودھا تھا‘ وہ بہت اچھی فیملی سے تعلق رکھتی تھی ‘ گھر والوں سے ناراض ہوئی اور ممبئی کی ٹرین پر چڑھ گئی ‘راستے میں ٹی ٹی کے قابو میں آگئی۔
ممبئی میں اس کا کوئی جاننے والا نہیں تھا‘ مسز بھاٹیا نے لڑکی کو ساتھ لیا‘ راستے سے کھانا کھلایا‘ ممبئی پہنچ کر اسے جوتے اور کپڑے خرید کر دیے‘ اپنے گھر میں رکھا اور پھراس کا خاندان تلاش کر کے اسے فیملی کے حوالے کر دیا۔
یہ ایک چھوٹی سی نیکی تھی‘ مسز بھاٹیا یہ نیکی بھول گئی‘ بیس سال گزر گئے‘ مسز بھاٹیا زندگی میں ترقی کرتے کرتے انٹرنیشنل سرجن بن گئی‘ وہ دنیا بھر میں لیکچر دینے لگی‘ وہ لیکچر کے سلسلے میں سان فرانسسکو امریکا گئی‘ رات کے وقت ڈنر کے لیے کسی ریستوران میں گئی۔
کھانے کے بعد بل مانگا تو ویٹر نے بتایا ’’آپ کا بل ادا ہو چکا ہے‘‘ مسز اچاریہ نے بل ادا کرنے والے کے بارے میں پوچھا ‘ ویٹر نے بتایا‘ آپ کا بل سائیڈ ٹیبل پر بیٹھی خاتون نے ادا کیا ہے‘ مسز اچاریہ مڑیں تو سامنے درمیانی عمر کا ایک جوڑا بیٹھا تھا‘ خاتون اٹھ کر مسز اچاریہ کے پاس آئی‘ جھک کر اس کے پاؤں چھوئے اور بتایا ’’میں سودھا ہوں‘ آپ نے 20 سال پہلے میرا ٹرین کا ٹکٹ ادا کیا تھا‘ آپ اگر اس دن نہ ہوتیں تو میں آج پتا نہیں کہاں ہوتی؟‘‘دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئیں اور دیر تک روتی رہیں۔
سودھا کی کہانی نے ٹرین کے سفر کے بعد ایک خوب صورت ٹرن لے لیا تھا‘ اس نے تعلیم حاصل کی‘ انجینئرنگ یونیورسٹی پہنچی‘ یونیورسٹی فیلو نارائن اس کی محبت میں گرفتار ہوا‘ دونوں کی شادی ہوگئی‘ دونوں نے بعدازاں ایک سافٹ ویئر کمپنی بنائی‘ کمپنی کام یاب ہو گئی‘وہ انڈیا کی سب سے بڑی سافٹ ویئرکمپنی بن گئی اور یہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی ہو گئے۔
اس سودھا کا پورا نام سودھا مورتی اور خاوند نارائن کا پورا نام نارائن مورتی ہے اور ان کی کمپنی کا نام انفوسس لمیٹڈ ہے اور ان دونوں کی بیٹی اکشتا مورتی اس وقت برطانیہ کے پہلے براؤن وزیراعظم رشی سوناک کی بیوی اور انگلینڈ کی فرسٹ لیڈی ہے اوراس اکشتا کا سفر کہاں سے شروع ہوا تھا؟
ریل کے 13 روپے کے ایک معمولی سے ٹکٹ اور مسز اچاریہ کی ایک چھوٹی سی مہربانی سے‘ مسزاچاریہ اگر اس دن اس لڑکی کا ٹکٹ نہ دیتی‘ یہ اسے اس کے والدین تک واپس نہ لاتی تو شاید دنیا میں انفوسس لمیٹڈ بھی نہ ہوتی اور شاید اکشتا بھی اس وقت فرسٹ لیڈی نہ ہوتی۔
آپ اب ایک اور کہانی بھی سنیے‘ گوجرانوالہ میں ایک ہندو فیملی رہتی تھی‘ یہ لوگ سوناک کہلاتے تھے‘ رام دیو سوناک 1935میں گوجرانوالہ سے نیروبی (کینیا) چلے گئے اور سرکاری دفتر میں کلرک بھرتی ہو گئے۔
ان کی شادی دہلی کی ایک لڑکی سہاگ سے ہوئی‘ ان دونوں کا بیٹا یش ویر سوناک اپنی بیگم اوشا کے ساتھ برطانیہ شفٹ ہو گیا‘ یش ویر ڈاکٹر تھا جب کہ اس کی بیگم اوشا فارماسسٹ تھی‘ ان کے ہاں 1980میں رشی سوناک پیدا ہوا‘ رشی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
آکسفورڈ پہنچا‘ امریکا میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا‘ وہاں اکشتا مورتی سے ملاقات ہوئی‘ رشی سیاست میں آیا اور ترقی کرتا چلا گیا اور یہ اس وقت برطانیہ کا پہلا انڈین نژاد‘ براؤن اور غیرعیسائی وزیراعظم ہے‘ یہ دوسری کہانی ہے۔
آپ اب تیسری کہانی بھی سنیے‘ رشی سوناک کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ اس کے والدین کینیا میں پیدا ہوئے اور رشی سوناک نے برطانیہ میں جنم لیا لیکن یہ جب وزیراعظم بنا تو پورے بھارت میں جشن منایا گیا‘ کیا بھارت میں یہ جشن ہونا چاہیے تھا؟ جی نہیں‘ یہ جشن گوجرانوالہ میں ہونا چاہیے تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ رشی سوناک کے دادا رام دیوسوناک چھ نسلوں تک گوجرانوالی تھے اور آج بھی گوجرانوالہ میں ان کا محلہ موجود ہے‘ آپ اب ٹھنڈے دل سے دوبارہ کیوں پر غور کیجیے! ہم خوشی کیوں نہیں منا رہے؟
ہم رشی سوناک کو یہ کیوں نہیں بتا رہے آپ کے آباؤاجداد کا تعلق انڈیا سے نہیں پاکستان سے تھا اور آپ کی روٹس بھارت نہیں گوجرانوالہ میں ہیں اور ہم آپ کو یہ روٹس تلاش کر دیتے ہیں‘ ایسے کیوں نہیں ہے؟
آپ ہماری بدقسمتی ملاحظہ کیجیے‘ ہم نے اس ملک کو مذہب اور نفرت میں دفن کر دیا ہے‘ ہم آج بھی خطے کے ہندوؤں‘ پارسیوں‘ عیسائیوں اور سکھوں کو اون کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ڈاکٹر عبدالسلام نے 1979 میں فزکس میں نوبل انعام حاصل کیا تھا‘ اٹلی نے ٹریسٹ شہر میں ان کے نام سے پورا سینٹر بنا دیا۔
یہ سینٹر اب تک سیکڑوں سائنس دان پیدا کر چکا ہے مگر ہم نے اس شخص کو قادیانی ہونے کی وجہ سے گالی بنا دیا اور آج بھی اس کی قبر کی تذلیل کرتے ہیں‘ ڈاکٹر صاحب کا خاندان آج بھی پاکستان نہیں آ سکتا‘ آئی کے گجرال جہلم کے رہنے والے تھے‘ وہ بھارت کے وزیراعظم بن گئے۔
وہ پوری زندگی جہلم شہر کو یاد کرتے رہے مگر ہم نے ان کو اون نہیں کیا اور کلدیپ نائر کا تعلق سیالکوٹ سے تھا‘ وہ پوری زندگی سیالکوٹ، سیالکوٹ کرتا مر گیا‘ موت کے بعد بھی اس کی راکھ پاکستان آئی اور راوی میں بہائی گئی مگر ہم نے اسے بھی اون نہیں کیا اور یہ صرف تین چار کہانیاں نہیں ہیں۔
ہمارے اردگرد ایسی سیکڑوں کہانیاں بکھری ہوئی ہیں جنھیں ہم نے مذہب‘ فرقے اور عصبیت کی صلیب پر لٹکا دیا‘ ہمارے ایک طرف برطانیہ ہے جس نے انڈین کے لیے اپنی وزارت عظمیٰ کا دروازہ کھول دیا‘ گوروں کا سربراہ براؤن کو بنا دیا اور 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں چھوٹا سا مندرکھول دیا جب کہ دوسری طرف ہم ہیں جو رشی سوناک کو گوجرانوالہ کا ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ ہم اس کا آبائی گھر تلاش کر کے‘ اس کی تزئین وآرائش کر کے اسے ’’سوناک ہاؤس‘‘ بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ کیا ہم اس نفرت کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں؟جی نہیں‘ یہ یاد رکھیں نفرت دنیا کا سب سے بھاری بوجھ ہوتی ہے۔
آپ اس بوجھ کے ساتھ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے لہٰذا ہم اگر انفرادی یا قومی سطح پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں نفرت کی گٹھڑی نیچے رکھنا ہو گی‘ یہ بھی یاد رکھیں فرد ترقی نہیں کرتے‘ ملک کرتے ہیں‘ ملک معاشی لحاظ سے آگے بڑھے گا تو فرد بھی بڑھیں گے‘ ملک نیچے جائے گا تو ہم بھی پیچھے کھسکیں گے اور ملکوں کی ترقی ہمیشہ خطے سے جڑی ہوتی ہے۔
یورپ نے ترقی کی تو اس کے آخری کونے میں بیٹھے بلغاریہ‘ رومانیہ اور یونان بھی آگے بڑھ گئے اور اگر افریقہ پیچھے رہ گیا تو ساؤتھ افریقہ بھی سونے اور ہیروں کی دنیا کی سب سے بڑی کانوں کے باوجود فرسٹ ورلڈ نہیں بن سکا‘ یہ بھی پیچھے رہ گیا۔
آرمی چیف جنرل باجوہ کو چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا تھا ’جنرل پراگریس فرسٹ ایشو لیٹر یعنی ترقی پہلے کریں اور تنازعے بعد میں حل کریں‘ صدرشی جن پنگ نے مثال دی‘ ہماری 2020 میں لداخ میں بھارت کے ساتھ فوجی جھڑپیں ہوئیں‘ ہمارے تعلقات اس کے بعد خراب ہو جانے چاہیے تھے جب کہ اس کے بعد ہماری انڈیا سے ایکسپورٹس تین گنا بڑھ گئیں اور آپ سرحدیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں۔
صدر شی جن پنگ کی بات غلط نہیں تھی‘ انڈیا نے5اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور ہم نے انڈیا سے تجارت بند کر دی‘ کیا ہم نے اس سے کشمیر حاصل کر لیا؟ اور یہ تجارت اگر مزید دو سو سال بند رہتی ہے تو کیا ہمیں کشمیر مل جائے گا؟ ہرگز نہیں‘ ہم دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔
ہم اب لڑ اور مر کر بھی کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کر سکیں گے‘ ہمارے پاس اس کا صرف ایک ہی آپشن ہے اور وہ ہے معیشت‘ ہمیں مضبوط ہونا ہوگا ورنہ ہم کشمیر تو دور پاکستان بھی کھو دیں گے چناں چہ میری درخواست ہے نفرت کا ٹوکرا نیچے رکھ دیں‘ بھارت کے ساتھ بیٹھیں‘ سرحدیں کھولیں تاکہ رشی سوناک کی کامیابی کا جشن گوجرانوالہ اور بنگلور دونوں شہروں میں منایا جا سکے۔
دونوں ملک قریب آ سکیں‘میری یہ بھی درخواست ہے آپ تعلقات کا آغاز کتابوں اور ادویات سے کریں‘ ہم نے 2020 میں کتابوںاور ادویات کے خام مال پر بھی پابندی لگا دی تھی‘ ہم نے علم اور صحت پر بھی سرحدیں بند کر دی تھیں اور اس کا نقصان ہمارے طالب علموں بالخصوص میڈیکل اسٹوڈنٹس اور مریضوں کو ہو رہا ہے‘ کیا یہ عقل مندی ہے؟
چناں چہ سرحدیں نہیں کھولتے تو بھی ادویات اور کتابوں کا راستہ کھول دیں تاکہ اس ملک میں کسی جگہ سے تو ہوا آئے‘ آپ یقین کریں اس گھٹن کے ساتھ وہ وقت بھی دور نہیں جب بریلوی بھی بارہ فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے گلے کاٹنا شروع کر دیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نفرت کی منڈی بن چکے ہیں‘ ہمیں کوئی اور نہ ملے تو ہم اپنے آپ ہی سے نفرت شروع کر دیتے ہیں۔