صدرعلوی کا نگران وزیراعظم کیلئے شہباز شریف کوخط

صدرعلوی کا نگران وزیراعظم کیلئے شہباز شریف کوخط،وفاقی دارالحکومت میں چہ مگوئیاں،علوی پرچم کشائی کی تقریب کو اپنے لئے مخصوص کرنا چاہتے ہیں،

وہ اپنی صدارت کے آخری ایام میں مرکزی تقریب کے مہمان خصوصی بننے کے خواہاں ہیں،نگران وزیراعظم نے یوم آزادی تک حلف نہ اٹھایا تو شہباز شریف ہی پرچم کشائی کریں گے،علوی نئے تنازع کو جنم دینا چاہتے ہیں یا اپنے لئے کسی نئے کردار کی تلاش میں ہیں.

صدرعارف علوی نے جمعہ کے روز وزیراعظم شہبازشریف کو نگراں وزیراعظم کے تقرر کی خاطر اچانک خط تحریر کرکے ملک میں جاری سیاسی ہلچل میں اپنے کردار کوداخل کرنے کی کوشش کی ہے آئینی ماہرین حیرت زدہ ہیں کہ نگران وزیراعظم کا تقرر تین مراحل میں انجام دیا جاسکتا ہے۔

پہلامرحلہ یہ کام انجام نہ دے سکے تو دوسرے کو آزمایا جاتاہے اورتیسرا فیصلہ کن مرحلہ اس وقت آتاہے جب پہلے دونوں ناکام ہو جائیں ۔

یہ طریق کارآئین میں سادہ لفظوں سے بیان کیاگیا ہے اوراس میں کسی طور پر بھی کوئی ابہام ناقابل تصور ہے۔

وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد تین دنوں میں صلاح مشورے سے متفق ہونے کی صورت میں نگران وزیراعظم کا نام طے کرسکتے ہیں اور جونہی ان میں مفاہمت طے پاجائے وزیراعظم، صدرمملکت کو اس نام کے ساتھ صدر کو ہدایت تحریر ی طورپر جاری کرتاہے کہ اسے نگران وزیراعظم مقرر کردیاجائے۔

یہ مرحلہ ختم ہونے میں دو دن باقی ہیں کہ صدر نے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو ایک ہی متن کے الگ الگ خط تحریر کردیئے ہیں اورپھرانہیں ذرائع ابلاغ کے لئے بھی جاری کردیا ہے صدر کے اس عمل کو قلمی دوستی سے تعبیر کیاگیا ہے جن سے وزیراعظم شہبازشریف سے ہفتوں سے کوئی ملاقات نہیں کی اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض احمد تو شاید دوسال سے بھی ان سے نہیں ملے صدر کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور اپنی جماعت کی حکومت کے برطرف ہونے کے بعد بھی اس کا دم بھرتے رہے ہیں ان کا خط وکتابت کرنا یوں ناقابل فہم ہے کہ آئین میں درج دفعات کے بارے یاد آوری کوئی معنی نہیں رکھتی۔

سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ دو روز بعد ملک کا یوم آزادی منایاجارہا ہے ۔ جس کی مرکزی تقریب پارلیمنٹ ہاؤ س کے بالمقابل یا موسم خراب ہو تو جناح کنونشن سنٹر میں قومی پرچم لراکر انجام دی جاتی ہے جس میں اعلیٰ سرکاری حکام، سفارتکار ،عمائدین ارو سرکردہ سیاسی رہنما شرکت کرتے ہیں پورے ملک میں اس تقریب کو بڑے اشتیاق سے دیکھاجاتاہے ۔

کہاجاتا ہے کہ صدر علوی کی خواہش ہے کہ وہ اپنی صدارت کے آخری ایام میں اس تقریب کو انجام دینے کے لئے یہ مؤقف اختیارکرکے راہ ہموار کرلیں کہ وزیراعظم کا تقرر تنازع کا شکار ہے پھرنگران وزیراعظم ہو تو وہ غیر منتخب ہوگا اس لئے میں وہ منتخب صدر ہیں اس بنا پر یہ استحقاق ان کا بنتا ہے کہ وہ پرچم لہرائیں۔

دوسری جانب سرکاری حلقوں کااستدلال ہے کہ اگر نگران وزیراعظم کے تقرر پر ابتدائی تین دنوں میں مفاہمت طے پاجائے اور موجودہ نگران وزیراعظم 14اگست تک حلف نہ اٹھاسکیں تو پرچم کشائی کی مرکزی تقریب میں وزیراعظم کے طورپر شہباز شریف ہی یہ رسم انجام دیں گے اس طرح وہ دوسری مرتبہ یہ اعزازحاصل کرسکیں گے۔

صدر کی طرف سے وزیراعظم کو نگران وزیراعظم کے تقرر کے لئے خط تحریر کرنے کی عارف علوی نے پہلی مرتبہ مثال قائم کی ہے جس کا وزیراعظم شہبازشریف نے جمعہ کی شام یہ کہہ کر مذاق اڑایا ہے کہ صدر کو اس معاملے میں کیا جلدی ہے کیا انہیں آئین کی متعلقہ دفعات سے واقفیت حاصل نہیں ہے۔ جمعہ کی شام وزیراعظم کے دفتر کے آڈیٹوریم میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو میں وہ یہ کہتے کہتے رُک گئے کہ صدر علوی کوآئین کی کتاب ارسال کردی جائے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پرچم کشائی کی تقریب میں طے شدہ روایت کے مطابق وزیراعظم کو مہمان خصوصی بننا ہے خواہ وہ نگران ہی کیوں نہ ہو۔

موجودہ انتظامیہ صدرعارف علوی کے لئے یہ گنجائش مشکل سے ہی پیدا کرسکے گی۔