معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
رمضان اور فہمِ قرآن
اﷲ رب العالمین نے تخلیق آدم سے لے کر آخری انسان تک کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے کہ انسان کو اس دنیا میں کس اسلوب پر اپنی حیات مستعار کی ساعتوں کو گزارنا ہے۔ یہ ماہ رمضان المبارک ہی تھا کہ جس کی مقدس ساعتوں میں اﷲ کا آخری پیغام ہدایت قرآن مجید آپ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا۔
قرآن کے بیان کا مفہوم: ’’ماہ رمضان وہ ہے‘ جس میں قرآن (اوّل اوّل) اتارا گیا جو لوگوں کا راہ نما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو ‘ چاہیے کہ پورے مہینہ کے روزے رکھے۔‘‘ (البقرہ ) گویا رمضان اور قرآن کا تعلق اس قدر گہرا اور پختہ ہوگیا کہ دونوں ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہوگئے۔
رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس کی تمام تر ساعتیں جو باعث برکت و رحمت اور مغفرت ہیں تو قرآن مجید پر کماحقہ عقیدہ و عمل کی بنیاد پر ہیں۔ چوں کہ رسالت محمدی ﷺ کی پہچان کا عنوان قرآن ہے۔ ابتداء ہی میں قرآن کی عظمت یوں آشکار کی گئی کہ یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ رب کا کلام ہے۔ اﷲ سے) ڈرنے والوں کے لیے سامان ہدایت ہے۔ (البقرہ)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اور یہ قرآن ایسا نہیں کہ اﷲ کے سوا کوئی ا س کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں (یہ اﷲ کا کلام ہے) جو (کتابیں) اس سے پہلے (کی) ہیں۔ ان کی تصدیق کر تا ہے اور انہی کتابوں کی (اس میں) تفصیل ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں (کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے (نازل ہُوا) ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر ﷺ نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا۔ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورہ بنا لائو اور اﷲ کے سوا جن کو بلا سکو (ان کو ) بلا بھی لو۔ (سورۃ یونس)
ان آیات مبارکہ میں قرآن مجید کے منزل من اﷲ اور مبنی بَرحق ہونے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن رسول کریم ﷺ نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے (معاذاﷲ) تو تم بھی ایسی کوشش کر دیکھو اور اﷲ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بھی بلا لو اور اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھا دو۔ یہ ایسا کھلا چیلنج ہے جو آج تک انسانیت قبول کرنے سے عاجز ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس جیسا کوئی بنا ہی نہیں سکتا، کیوں کہ یہ رب رحمٰن کا کلام ہے۔ نزول قرآن مجید ماہ رمضان سے بالکل جُڑا ہوا ہے کہ رمضان آتا ہے تو قرآن بھی جا بہ جا گلی گلی‘ بستی بستی‘ محلہ محلہ کثرت سے تلاوت کیا جانے لگتا ہے اور یہ اتنا عظیم کلام ہے کہ اس کے نزول کی رات کو کہ جس میں یہ نازل کیا گیا اسے بھی اﷲ رب العالمین نے عظمتیں اور رفعتیں عطا فرما دیں اور ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! ہم نے اس (قرآن مجید) کو قدر (و منزلت) والی رات میں نازل کیا۔ اور آپ کو کیا خبر کہ شب قدر کیا چیز ہے۔ (سو) شب قدر (خیر و برکت میں) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ فرشتے اور جبرائیل اپنے پروردگار کے حکم سے ہر ایک انتظام کے لیے اس رات (زمین پر) اترتے ہیں۔ وہ امن و سلامتی کی رات ہے اور وہ فجر ہونے تک رہتی ہے۔‘‘ (سوۃالقدر)
غور فرمائیے! یہ کتاب قرآن مجید اس قدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہے کہ اس کے نزول کی برکت سے وہ رات بھی عظمتوں اور برکتوں والی ہوگئی کہ اس ایک رات کی خیر و برکت اس قدر وسیع ہوگئی کہ جس قدر ایک ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت کوئی بندہ حاصل کرسکتا ہے۔ اﷲ نے قرآن کی برکت سے امت مسلمہ کو محض ایک رات کی عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر عطا فرمانے کا اعلان کر دیا۔ اندازہ کیجیے! ہماری زندگی میں یہ رات کتنی مرتبہ آتی ہے۔ ہم اس کے فیوض و برکات سے کس قدر فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی برکات کا نتیجہ ہے کہ روزہ جیسی عظیم عبادت میسر آئی کہ جس کے متعلق حدیث قدسی کا مفہوم ہے: ’’اﷲ فرماتا ہے روزہ میرے لیے ہے اور میںہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
قرآن مجید انسانی فوز و فلاح کا دائمی چارٹر ہے جس میں ایک طرف حقوق اﷲ کی پاس داری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کا التزام ہے۔ گویا یہ قرآن ہماری روحانی و جسمانی تسکین و شفا کا باعث ہے۔ اس میں پورا نظام حیات عطا کیا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت اپنا کھویا ہوا وقار اور گمشدہ متاع عزیز یعنی جنّت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ قرآن راہ نجات ہے اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔ مفہوم: ’’اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل)
اﷲ کے آخری محبوب پیغمبر ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کو نیکی ملے گی اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ہے۔ اَلَم، ایک حرف نہیں ہے بل کہ ا، ایک حرف ہے۔ ل، ایک حرف ہے اور م ایک حرف ہے۔‘‘(ترمذی‘ دارمی)
محض تلاوت کرنے پر اس قدر اجر و ثواب ہے تو پھر سمجھ کر سیکھنے اور اس کے علوم کے حصول اور عمل پر کیا اجر و ثواب ہوگا۔ اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ قرآن سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے سے اﷲ کا تقرب حاصل ہو سکتا ہے اور ان شاء اﷲ تعالیٰ ا س کی برکت سے جنّت کے حصول اور جہنّم کی ہول ناکیوں سے محفوظ رہنے میں کام یاب ہو سکتے ہیں۔ جو اگر حاصل ہوگئی تو یقیناً بڑی کام یابی ہے۔
یاد رکھیے! دنیا کی مختصر زندگی بہ ہر صورت گزر ہی جائے گی لیکن اگر یہ زندگی رب کی رضا کے مطابق گزری تو دنیا و آخرت دونوں کی کام یابی ہے‘ وگرنہ من چاہی‘ شتر بے مہار کی زندگی یا اﷲ کی بغاوت و نافرمانی‘ قرآن کی تکفیر و تکذیب میں گزری تو ایسی زندگی دنیاوی لحاظ سے شاید کام یاب ہوجائے لیکن ابدی زندگی جہنّم کی نذر ہوکر خسران کا باعث ثابت ہوگی۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن کا فہم عطا فرمائے اور ہمارے عقائد و اعمال کی اصلاح فرما دے اور ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں قرآن کو نافذ فرما دے۔ ہماری لغزشوں اور خطائوں سے درگزر فرمائے۔ قرآن و صاحب قرآن ﷺ کی سچی فرماں برداری کے ذریعے اپنی رضا کا حصول آسان فرمادے۔ آمین یا رب العالمین