پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
موروثی سیاست کے ضابطے
ارادہ تو کسی اور موضوع پر لکھنے کا تھا مگر آپ کے ارادوں کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے بہت سے عوامل اس دنیائے فانی میں موجود ہیں‘ لہٰذا اس ارادے کو بھی انہی میں شمار کریں جن پر بوجوہ عمل نہیں کیا جا سکتا۔ میرے گزشتہ کالم کے حوالے سے‘ جس میں مَیں نے اپنا ذاتی تجزیہ‘ جو ظاہر ہے گھر بیٹھ کر نہیں کیا گیا تھا بلکہ حلقے کی صورتحال دیکھ کر‘ لکھا تھا‘ بعض قارئین نے سوال اٹھائے ہیں۔ ضروری تھا کہ ان سوالات کے جوابات دیے جائیں۔ یہ کالم بہرحال جواب در جواب نہیں بلکہ بعض تشنہ پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کی غرض سے لکھ رہا ہوں نہ کہ اعتراضات کا جواب دے رہا ہوں۔
اعتراضات کا کیا ہے‘ ایک قاری نے تو اس کالم کو محض اس بنیاد پر رد کر دیا کہ کالم نویس کا تعلق ”ہائی کلاس‘‘ سے ہے اس لیے اسے عوامی جذبات کا علم نہیں۔ اب اس کو قاری کی محبت کہوں کہ غلط فہمی کہ اس نے ایک نہایت مستند اور پکے ٹھکے مڈل کلاسیے کو ہائی کلاس میں دھکیل دیا۔ بہرحال اللہ اس کی زبان مبارک کرے۔ ہائی کلاس میں جا کر اگر ذہنیت خراب نہ ہو جائے تو ہائی کلاس میں ہونا کوئی جرم نہیں۔ یہ بھی میرے مولا کی دین ہے اور اس کے اذن کے بغیر دنیاوی ترقی بھی ممکن نہیں۔ دین بھی اس کا ہے اور دنیا بھی اسی مالکِ کائنات کی ہے۔ یہ عاجز اس کا ہمہ وقت شکر گزار بھی ہے اور اپنی زندگی سے خوش بھی ہے؛ تاہم یہ فقیر ملتان کی سڑکوں پر پیدل بھی گھومتا ہے اور اپنے دوستوں اور جاننے والوں سے بھی پورے رابطے میں رہتا ہے۔ عام آدمی سے ملتا جلتا ہے اور اس کی مشکلات سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔ گھرکی ضرورت کا سارا سامان خود خریدتا ہے اور اس بات سے مکمل آگاہ ہے کہ ملتان میں دہی ایک سو بیس روپے کلو سے ایک سو پچاس روپے کلو کب ہوا ہے۔ بڑے شہروں والے اس قیمت کا سن کر پریشان نہ ہوں۔ ہم جیسے چھوٹے شہروں میں رہنے والوں کوبہرحال کچھ آسانیاں بھی میسر ہیں اور نسبتاً سستی ضروریاتِ زندگی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ لیکن ذرائع روز گار کی کمی‘ نسبتاً کم اجرت اورتھوڑی تنخواہ کے ہوتے ہوئے نسبتاً کم مہنگی اشیائے ضرورت بھی مہنگی لگتی ہیں‘ مہنگائی کا تعلق قیمت ِ فروخت سے زیادہ قوتِ خرید سے ہے۔ بات کہیں کی کہیں چلی گئی لیکن یہ بھی عام آدمی کے جاننے کی چیز ہے۔
ملتان کے صوبائی حلقہ پی پی 217 سے متعلق میرا تجزیہ غلط نکلا اور اس کی ڈیڑھ سو تاویلات بھی دی جائیں تو جو تجزیہ غلط ثابت ہو چکا ہے‘ وہ درست نہیں ہوسکتا۔ میرا تجزیہ بھی عمومی طور پر ویسے ہی غلط ثابت ہوا جیسے اس تاریخ کو ہونے والے بیس صوبائی حلقوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج بارے میں عمومی طورپر غلط ثابت ہوئے؛ تاہم اس سلسلے میں ملتان کے حلقہ 217 کے نتیجے کے پیچھے چند دیگر عوامل بھی تھے جو اس عاجز سے اوجھل رہ گئے۔
سلمان نعیم نے جب 2018ء میں شاہ محمود کے خلاف الیکشن لڑا تو اس کی پشت پر شاہ محمود قریشی کی وعدہ خلافی پر ناراض ہونے والے پی ٹی آئی کے نوجوان بھی موجود تھے۔ سلمان نعیم کا انتخابی دفتر پی ٹی آئی کے نوجوانوں کا گڑھ تھا اور اس کی ساری ٹیم تقریباً انہی نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ سلمان نعیم نے حلقے میں گزشتہ چند سالوں سے کافی زیادہ رفاہی کام کیا تھا۔ مستحقین کے وظائف لگائے ہوئے تھے‘ مفت راشن تقسیم کرتا تھا اور علاقے کے لوگوں کو عمرے پر بھجواتا تھا اور خود شاہ محمود قریشی نے اسے اس صوبائی حلقے سے پی ٹی آئی کے ا میدوار کا لارا لگا رکھا تھا؛ تاہم جب دلی خواہش یعنی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے حصول نے دل میں انگڑائی لی تو قریشی صاحب خود اس حلقے سے صوبائی امیدوار بن گئے۔ اس پر نوجوان کھلاڑی غصے میں آ گئے اور اس قبضہ گیری کے خلاف احتجاجاًسلمان نعیم جواَب آزاد امیدوار تھا‘ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔تب انہیں یہ بھی پتا تھا کہ سلمان نعیم جیت کر بہرحال پی ٹی آئی میں ہی آئے گا اور ایسا ہی ہوا۔
تاہم ضمنی الیکشن میں حقائق بہت زیادہ تبدیل ہو گئے۔ سلمان نعیم کے سارے نوجوان حامی اسے چھوڑ گئے کیونکہ اب وہ آزاد نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کا امیدوار تھا اور مرکز میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے شدید عوامی ردعمل سے پی ٹی آئی کے وہ لوگ بھی‘ جو حکومت کی مایوس کن کارکردگی کے باعث اپنی حماقت پر پچھتارہے تھے ‘ دوبارہ اسی زور و شور اور جذبے کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کے پرانے پاپی اور کھڑ پینچ اندر خانے سلمان نعیم کے خلاف تھے اور اسے اپنے لیے مستقبل کا خطرہ جانتے ہوئے اس سے پوری طرح عیاری کر رہے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوامی جذبات کا طوفان سب کچھ بہا کر لے گیا جس میں ہمارے اندازے بھی شامل تھے اور اپنے اندازوں کی غلطی کا اعتراف میں پہلے بھی کر چکا ہوں اورہاں ایک بات اور ‘ وہ یہ کہ الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے میں ملتان بلکہ پاکستان سے ہی باہر چلا گیا اور حلقے میں موجود دوستوں کو بھی صورتحال کا درست اندازہ نہ ہو سکا؛ تاہم اب یہ ساری باتیں محض جواز ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ میرا تجزیہ غلط نکلا۔
رہ گئی بات اب حلقہ این اے 157 کی تو اس بارے میں مَیں نے بتایا ہے کہ صور تحال انیس بیس کی ہے اور فی الوقت پی ٹی آئی کی امیدواریعنی شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کی پوزیشن بیس ہے یعنی انہیں اپنے حریف علی موسیٰ گیلانی پر برتری حاصل ہے۔ ایک قاری نے علی موسیٰ کے عوامی سطح پر میل جول اور غمی خوشی میں شرکت کو بھی زیرو کرتے ہوئے لکھا کہ لوگ کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اب ایسی چیزوں کی سیاست میں کوئی گنجائش باقی نہیں بچی۔ تو عرض ہے کہ اس قوم کو زبانی کلامی کرپشن کے خلاف باتیں کرنے کے علاوہ کرپشن کے خاتمے سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ یہاں بندے ذاتی طور پر اپنی استطاعت کے مطابق کرپشن کرنے کو نہ صرف یہ کہ ناجائز نہیں سمجھتے بلکہ اپنے لئے عین جائز سمجھ لیتے ہیں اور اس کے حق میں بڑے دلائل بھی دیتے ہیں۔
لوگوں کو پوری طرح علم نہیں کہ حلقہ این اے 157 شہری دیہاتی ملاجلا حلقہ ہے۔ اس میں غالباً آٹھ یونین کونسلز شہر میں آتی ہیں جبکہ تقریباً سترہ اٹھارہ یونین کونسلز دیہاتی ہیں اور دیہات میں گروپنگ کے ڈائنامکس بہت مختلف ہیں۔ ذات برادری باہمی مخالفتیں اور جینے مرنے پر آنا جانا کافی اہمیت کا حامل ہے؛ تاہم نوجوانوں کی اکثریت جس کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے ان قباحتوں اور متروک روایات سے باغی ہے اور یہی وہ فیکٹر ہے جس نے ساری انتخابی صورتحال بدل کر رکھ دی ہے۔ دوسری طرف جو بات قریشی خاندان کے خلاف جاتی ہے وہ یہ کہ حلقے میں یہ بات بھی پھیلی ہوئی ہے کہ پہلے شاہ محمود قریشی نے یہ حلقہ چھوڑا‘ پھر زین قریشی اس حلقے کو چھوڑ گیا اور اب یہاں سے شاہ محمود قریشی کی بیٹی امیدوار ہیں جوشادی شدہ ہیں اور اس حلقے میں رہتی بھی نہیں تو بھلا وہ اس حلقے کے لوگوں کے مسائل سے کیسے نمٹیں گی۔
کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مہربانو قریشی کو اس حلقے سے امیدوار نامزد کر کے پی ٹی آئی نے موروثی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ یاد رہے کہ علی موسیٰ گیلانی بھی یوسف رضا گیلانی کا فرزند ہے اور وہاں بھی موروثی سیاست کا یہ عالم ہے کہ ملتان کے ایک قومی حلقے سے خود یوسف رضا گیلانی‘ دو قومی اور ایک صوبائی حلقے سے ان کے تین فرزند امیدوار تھے تو یہ موروثی سیاست نہیں؟ شاہ جی کا فرمانا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں تو موروثی سیاست کوئی عیب‘ خرابی یا طعنہ ہے ہی نہیں۔ رہ گئی بات پی ٹی آئی والوں کی تو ان کے اصول اور ضابطے وہی ہوتے ہیں جو عمران خان طے کرتے ہیں نہ کہ وہ جو زمانہ طے کرے گا۔