طلبِ دُنیا اور فکر آخرت

دُنیا کی زندگی چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوجائے بہ ہر حال ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والی ہے اور اس کا مال و متاع چاہے کتنا ہی زیادہ ہوجائے بہ ہر حال ایک دن چھوٹنے والا ہے، موت سے چھوٹ جائے یا ضائع ہوجانے سے، لیکن اسے چھوٹنا لازمی ہے۔ اور آخرت کی زندگی دُنیا کی زندگی سے کہیں زیادہ بہتر اور ہمیشہ رہنے والی اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔

چناں چہ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’لیکن تم لوگ دُنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو حالاں کہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔‘‘ (سورۃ الاعلیٰ)

بلاشبہ! آخرت کی زندگی کی نعمتیں، اُس کی جوانی، اُس کے مزے، اُس کی خوب صورتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُس کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہے۔ اِس کے برعکس دُنیا کی زندگی، اُس کی نعمتیں، اُس کی جوانی، اُس کی خوب صورتی اور اُس کے مزے صرف محدود اور معین مدت تک کے لیے ہیں اور پھر انہیں یکسر ختم ہوجانا ہے۔ خوش نصیب اور عقل مند ہے وہ شخص جو اپنی زندگی کے ہر موڑ پر دُنیا کی فانی اور ختم ہوجانے والی زندگی کو آخرت کی لازوال و بے مثال زندگی پر ہمیشہ ترجیح دیتا رہے اور اِس دارِ فانی کی تعمیر و تزئین کی بہ جائے دارِالبقاء کی تعمیر و تزئین کی فکر میں ہر دَم لگا رہتا ہے۔

حدیث شریف میں آتا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص دُنیا سے محبت رکھتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو شخص اپنی آخرت سے محبت رکھتا ہے وہ (بہ ظاہر) اپنی دُنیا کو نقصان پہنچاتا ہے ( پس جب یہ ضابطہ ہے تو ) جو چیز ہمیشہ رہنے والی (آخرت) ہے اُس کو ترجیح دو اُس چیز (دُنیا) پر جو بہ ہر حال فنا ہونے والی ہے۔‘‘(مشکوٰۃ المصابیح)

حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہم لوگ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے، آپؓ نے کچھ پینے کو مانگا تو شہد کا شربت خدمت میں پیش کیا گیا، اُس کو منہ کے قریب فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ رونے لگے اور اتنا روئے کہ پاس بیٹھنے والے بھی اِس سے متاثر ہوکر رونے لگے اور خوب رُوئے، اس کے بعد پھر دوبارہ اُس کو منہ کے قریب کیا اور پھر رُونے لگے۔

اس کے بعد اپنی آنکھوں کے آنسو پونچھے اور ارشاد فرمایا: ’’میں ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، میں نے دیکھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں سے کسی چیز کو دفع فرما رہے ہیں اور کوئی چیز حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے مجھے نظر نہ آئی، تو میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ’’حضور! کس چیز کو آپ اپنے سے ہٹا رہے ہیں؟‘‘ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دُنیا میرے سامنے حاضر ہوئی تھی، میں نے اُس کو اپنے سے ہٹایا، اِس کے بعد پھر وہ دوبارہ میرے پاس آئی اور آکر مجھ سے کہنے لگی کہ اگر آپ مجھ سے بچ گئے تو (کچھ قلق اور افسوس کی بات نہیں، اس لیے کہ) آپؐ کے بعد آپؐ کی آنے والی اُمت مجھ سے ہرگز نہیں بچ سکتی۔‘‘ (مستدرک حاکم)

ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد وارد ہوا ہے، مفہوم: ’’دُنیا اُس شخص کا گھر ہے جس کا (آخرت میں کوئی) گھر نہیں اور دُنیا اُس شخص کا مال ہے جس کا (آخرت میں کوئی) مال نہیں، اور دُنیا کے لئے وہ شخص مال جمع کرتا ہے جس کو بالکل عقل نہیں ہوتی۔‘‘ (درمنثور)

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ’’تُو جس قدر دُنیا کا غم کرے گا اتنا ہی آخرت کا غم تیرے دل سے نکل جائے گا، اور جتنا تو آخرت کا غم کرے گا اتنا ہی دُنیا کا غم تیرے دل سے نکل جائے گا۔‘‘

حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ’’اگر دُنیا مجھے ساری کی ساری مل جائے اور مجھ سے اِس کا حساب بھی نہ لیا جائے تب بھی میں اس سے ایسی گھن اور کراہت کروں جیسی کہ تم لوگ مردار جانور سے کرتے ہو کہ کہیں کپڑے کو نہ لگ جائے۔‘‘

حضرت عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ’’دُنیا کی محبت نے اور گناہوں نے دلوں کو وحشی بنا رکھا ہے، اس لیے خیر کی بات دلوں تک پہنچتی نہیں اور نہ ہی اپنا اثر دکھاتی ہے۔‘‘

ایک حدیث میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہے، مفہوم: ’’ جب تم وسعت کو آتے دیکھو تو سمجھو کہ کسی گناہ کی سزا میں یہ آرہی ہے ، اور جب فقر و فاقہ کو آتے دیکھو تو کہو کہ صالحین کا شعار آرہا ہے۔ اور اگر کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اتباع کرنا چاہتا ہے تو اُن کا ارشاد یہ ہے: ’’میرا سالن بھوک ہے۔ اور میرا شعار اﷲ تعالیٰ کا خوف ہے۔ اور میرا لباس ’’صوف‘‘ (بھیڑ بکری کے بال اور اُون) ہے۔ اور میرا سردی میں سینکنا دھوپ ہے۔ اور میرا چراغ چاند کی روشنی ہے۔

اور میری سواری میرے پاؤں ہیں۔ اور میرا کھانا اور میوے زمین کا گھاس ہے۔ میں صبح اس حال میں کرتا ہوں کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا، اور شام اس حال میں کرتا ہوں کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ اور ساری دُنیا میں مجھ سے زیادہ غنی اور بے پروا کوئی شخص بھی نہیں جو کسی دوسرے کا محتاج ہو۔‘‘ (فضائل صدقات)

ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے، مفہوم: ’’ہر اُمت کے لیے کوئی بچھڑا ہوتا ہے جس کی وہ پرستش کرتے ہیں، میری اُمت کا بچھڑا روپیا اور اشرفی ( آج کل کی زبان میں اشرفی کی جگہ اگر ڈالر، یورو اور ریال وغیرہ کرنسیوں کا نام لیا جائے تو یقیناً بے جا نہ ہوگا) ہے۔ (اس کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں جیسا کہ پرستش کا ہوتا ہے) اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا بچھڑا بھی تو سونے چاندی کا زیور ہی تھا۔‘‘ ( احیاء العلوم)

حضرت ضحاک بن قیس رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ’’جو شخص بازار جائے اور کسی چیز کو دیکھ کر اُس کے خریدنے کی رغبت ہو اور ناداری کی وجہ سے ( اُس کو خرید نہ سکے، بلکہ) اس پر صبر کرے تو اُس کا یہ عمل ایک ہزار اشرفیاں اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے سے افضل ہے۔‘‘

(فضائل صدقات)

حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی لخت جگر حضرت اُم ولید رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: ’’ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم شام کے وقت اندر سے باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں کو شرم نہیں آتی ؟‘‘ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم)! کیا بات ہوئی؟‘‘ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اتنی مقدار جمع کرتے ہو جتنا کھاتے نہیں ہو اور اتنے مکانات بنا لیتے ہو جن میں رہتے نہیں ہو اور ایسی ایسی اُمیدیں باندھ لیتے ہو جن کو پورا نہیں کرسکتے، کیا ان باتوں سے تم لوگوں کو شرم نہیں آتی؟‘‘ (الترغیب و الترہیب)

مطلب یہ ہے کہ رہن سہن کے لیے گھر اور مکان اتنا ہی بنانا چاہیے جتنے کی ضرورت ہو اور اُس میں زندگی اچھی طرح سے گزر سکے۔ اسی طرح مال و دولت اور خزانہ اتنا ہی جمع کرنا چاہیے جس سے اپنی معاشی تنگی دُور ہوکر گزرِ اوقات آسانی سے ہوسکے۔ اس کے علاوہ جو زاید مال ہے وہ جمع کرنے اور پیسے پر پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے نہیں بلکہ وہ تو اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے ہے۔