پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
برف باری
یہ پرانی مثال ہے‘ ایک چھوٹا ہوائی جہاز کسی برفانی پہاڑ پر گرگیا‘ پائلٹ مر گیا‘ جہاز میں صرف دو مسافر سوار تھے‘ وہ دونوں بچ گئے‘ اب صورت حال یہ تھی‘ ہر طرف برف ہی برف تھی اور اس برف کے درمیان دو لوگ جہاز کے ملبے میں گرے پڑے تھے‘ دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی‘ خوراک اور پانی کا بندوبست بھی نہیں تھا اور گرم کپڑے بھی نہیں تھے‘ یہ تمام ایشوز ایک طرف لیکن رات ہوئی تو پتاچلا پہاڑ پر ایک بھوکا ریچھ بھی رہتا ہے اور وہ ان دونوں کو اپنے لیے من وسلویٰ سمجھ رہا ہے۔
دونوں میں سے ایک بزدل تھا اور دوسرا بہادر‘ بہادر شخص جسمانی لحاظ سے کم زور‘ منحنی اور ساڑھے پانچ فٹ کا بوڑھا تھا جب کہ بزدل شخص نوجوان بھی تھا‘ باڈی بلڈر بھی اور لمبا تڑنگا بھی‘ اب وہاں دو بے بس اور مجبور انسان تھے اور ایک بھوکا ریچھ‘ مسافروں کے پاس ایک ہی آپشن تھا‘ یہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو یہ ریچھ کو مار دیں ورنہ ریچھ انھیں کھا جائے گا اور ان کی داستان تک نہ رہے گی داستانوں میں‘ بوڑھے شخص نے ریچھ کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے اسکیم بنائی اور نوجوان کو تیار کیا‘ میں جہاز کا نوکیلا راڈ پکڑ کر زمین پر لیٹ جاتا ہوں‘ تم ریچھ کی طرف جاؤ‘ ریچھ تمہارے پیچھے دوڑے گا‘ تم مجھے کراس کر کے برف پر گر جانا‘ ریچھ تم پر چھلانگ لگائے گا اور میں راڈ سیدھا کر دوں گا‘ ریچھ راڈ پر گرے گا اور راڈ اس کے پیٹ سے پار ہو جائے گا‘ نوجوان بزدل تھا‘ اس نے ریچھ کا چارہ بننے سے انکار کر دیا‘ بوڑھے نے اسکیم بدلی اور کہا ’’تم زمین پر لیٹ جاؤ‘ میں ریچھ کو تم تک لاتا ہوں‘ تم نے بس ایک کام کرنا ہے ریچھ جوں ہی تم پر چھلانگ لگائے تم نے راڈ سیدھا کر دینا ہے اور ہم اس خطرے سے بھی نکل جائیں گے اور ہمارے کھانے کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔
بزدل نوجوان اس آپشن سے بھی گھبرا رہا تھا لیکن وہ جانتا تھا ہم نے اگر ریچھ کو نہ مارا تو ریچھ ہمیں کھا جائے گا چناں چہ وہ راضی ہو گیا‘ بوڑھے نے اسے برف پر لٹایا اور ریچھ کی طرف دوڑ پڑا‘ ریچھ نے بھی اس کی طرف دوڑ لگا دی‘ بوڑھا آدھے راستے سے پلٹا اور ’’ہم ریچھ کو ماریں گے‘ ہم ریچھ کو ماریں گے‘‘ کے نعرے لگاتا ہوا نوجوان کی طرف آیا اور اس کے پیچھے گر گیا‘ ریچھ نے چھلانگ لگائی‘ نوجوان نے راڈ سیدھا کیا اور وہ ریچھ کے جسم سے پار ہو گیا‘ ریچھ مر گیا‘ مسافروں نے اس کی کھال اتار کر کمل بنا لیا اور گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے خوراک کا بندوبست کر لیا یہاں تک کہ ریسکیو ٹیم ان تک پہنچ گئی۔
یہ ایک فرضی کہانی ہے لیکن یہ لیڈرشپ کے کورسز میں بطور مثال پڑھائی جاتی ہے‘ اس کا مقصد یہ بتانا ہوتا ہے ہم جب کسی ناگہانی صورت حال کا شکار ہو جاتے ہیں تو ہمارے پاس سروائیول کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا اور سروائیول کے لیے انسان کے اندر لیڈر شپ کی خوبی ہونی چاہیے‘ ہم نے بدقسمتی سے لیڈرشپ کو سیاست تک محدود کر دیا ہے‘ ہم جب بھی لیڈر شپ کہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں فوراً آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف اور عمران خان آ جاتے ہیں جب کہ حقیقت میں یہ لیڈرز نہیں ہیں۔
یہ سیاست دان ہیں‘ لیڈر شپ کا اصل مطلب خود اور دوسروں کو مسائل اور بحرانوں سے نکالنا ہوتا ہے اور یہ خوبی قدرت بھی پیدا کرتی ہے اورہم لوگ خود کو ٹرینڈ کر کے بھی تھوڑی بہت اپنے اندر ابھار لیتے ہیں‘ دنیا میں اس وقت صرف دو ملک ہیں جن میں عوام کو لیڈر شپ کے لیے باقاعدہ تیار کیا جاتا ہے اور یہ امریکا اور اسرائیل ہیں لہٰذا آپ دیکھ لیں امریکی اوراسرائیلی دونوں تمام قسم کے بحرانوں اور مسائل سے خود کو نکال لیتے ہیں‘ امریکیوں نے امریکا میں بیٹھ کر سوویت افغان وار لڑی ‘ ہم مرتے رہے اور وہ فتح کا جشن مناتے رہے۔
امریکا نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر عملاً قبضہ کر لیا‘ یہ وہاں 20 سال بیٹھا رہا‘ اس دوران امریکا کے صرف دو ہزار چار سو لوگ مارے گئے اور وہ بھی زیادہ تر کرائے کے سپاہی یعنی کانٹریکٹر تھے جب کہ اس کے مقابلے میں صرف پاکستان میں ستر اسی ہزار لوگ مارے گئے‘ عراق پر 8سال امریکا کا قبضہ رہا‘ وہاں صرف ساڑھے چار ہزار امریکی اور اتحادی مارے گئے اور امریکا نے لیبیا میں کرنل قذافی کا 34سالہ اقتدار ختم کیا لیکن وہاں ایک بھی امریکی فوجی یا شہری نہیں مارا گیا‘ یہ کیا ہے؟ یہ امریکن فلاسفی آف وار ہے یعنی آپ صرف راڈ کے ذریعے ریچھ مار دیں۔
اسرائیلی بھی اپنے شہریوں بالخصوص بچوں کو لیڈر شپ کی ٹریننگ دیتے ہیں چناں چہ اسرائیل 22 مسلمان ملکوں کے درمیان ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود جس کی آبادی محض 94 لاکھ اور رقبہ 22 ہزار مربع کلو میٹر ہے 74 برسوں سے سروائیو کر رہا ہے‘پوری مسلم امہ مل کربھی اس کا بال تک بیکا نہیں کر سکی‘ یہ ملک 74برسوں سے حالت جنگ میں بھی ہے لیکن عملاً صورت حال یہ ہے دیوار کی ایک طرف فلسطینی خیموں اور جھونپڑپٹیوں میں رہ رہے ہیں‘ یہ کھانے کے بھی محتاج ہیں جب کہ دوسری طرف اسرائیل کی 140 بلین ڈالر کی سالانہ ایکسپورٹس ہیں‘ فی کس آمدنی 34 ہزار ڈالرہے اور یہ دنیا کی 31ویں بڑی معیشت ہے اور یہ کس کا کمال ہے؟ یہ صرف لیڈر شپ کا کمال ہے۔
ہم ہمیشہ ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے ریاست مدینہ تھی کیا؟ کیا ہم نے کبھی سوچا؟ وہ بنیادی طور پر اس دور میں لیڈر شپ کا دنیا کا سب سے بڑا کلب تھا‘ رسول اللہ ﷺ نے عرب کے بدوؤں‘ چرواہوں‘ تاجروں اور نسلی غلاموں میں لیڈر شپ کی خوبی پیدا کر دی تھی لہٰذا آپؐ کے وصال کے دس برس بعد تک مسلمان آدھی دنیا پر حکمران تھے‘ یہ ماڈل اب امریکا اور اسرائیل میں کاپی کیا جا رہا ہے‘ یہ دونوں ملک ہر شعبے میں لیڈرز پیدا کر رہے ہیں چناں چہ آپ دیکھ لیں آپ کو دنیا کی ہر بڑی آرگنائزیشن‘ برینڈ‘ فلاسفی اور تبدیلی کے پیچھے امریکی نظر آتے ہیں یا اسرائیلی‘ یہ ایک حقیقت ہے اور دوسری حقیقت ہم ہیں۔
ہم لیڈر شپ میں مار کھا رہے ہیں‘ ہم لوگوں کو لیڈ کرنے کے لیے تیار نہیں کر پا رہے اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے پاکستان میں صدر سے لے کر چپڑاسی تک ہم سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں‘ آپ کسی شہر یا کسی گاؤں کے کسی محلے میں چلے جائیں آپ کو لوگ وہاں بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ اسپتال‘ اسکول‘ نالی اور گلی کے لیے روتے ملیں گے‘ آپ کسی ادارے کے واش روم میں چلے جائیں لوگ صفائی نہ ہونے کا رونا رو رہے ہوں گے اور آپ کسی اسکول میں چلے جائیں آپ کو والدین اساتذہ کی کمی کا رونا روتے نظر آئیں گے۔
اب سوال یہ ہے کیا ہمارے پاس اسرائیل یا امریکا سے کم وسائل ہیں؟ آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے‘ کیا ہمارے پاس 1400 سال پرانی ریاست مدینہ سے بھی کم وسائل ہیں‘ جی نہیں‘ ہرگز ہرگز نہیں‘ ہم ان دونوں ملکوں سے زیادہ وسائل کے مالک بھی ہیں اور ہمارے پاس ریاست مدینہ سے بھی زیادہ وسائل ہیں لہٰذا ہم پھر کہاں مار کھا رہے ہیں؟ ہم لیڈر شپ سے مار کھا رہے ہیں۔
مری اور سیالکوٹ کے واقعات لیڈر شپ کی کمی کی تازہ ترین کیس اسٹڈی ہیں‘ مری میں برف باری ہوئی‘20 ہزار گاڑیاں برف میں پھنس گئیں لیکن ان میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جو لوگوں کو گاڑیوں سے نکالتا اور چند قدم آگے بڑھ کر ایئرفورس کا گیٹ بجا دیتا یا کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس یا گورنمنٹ بلڈنگ میں لے جاتا یا وڈیو بنا کر پرائیویٹ چینلز تک پہنچا دیتا اوریوں پورا ملک متاثرین کے ساتھ کھڑا ہو جاتا‘ دوسری طرف سیالکوٹ میں تین ہزار لوگ پریانتھا کمارا کی لاش سڑکوں پر گھسیٹ رہے تھے لیکن انھیں کوئی روکنے والا نہیں تھا‘ عدنان ملک صرف ایک نوجوان تھا جس نے اسے بچانے کی کوشش کی۔
آپ فرض کریں اگر وہاں عدنان ملک جیسے دو چار لوگ ہوتے تو کیا یہ سانحہ پیش آتا؟ بالکل اسی طرح ملک میں آئے روز جلوس نکلتے رہتے ہیں اور سڑکیں بند رہتی ہیں لیکن کیا کوئی شخص دس پندرہ پچاس لوگ جمع کر کے ان مظاہرین کو سمجھاتا ہے؟ کیا کوئی آگے بڑھ کر اپنی مدد آپ کے تحت کوئی گلی‘ کوئی نالی بناتا ہے یا کوئی واش روم صاف کرتا ہے یا کسی اسپتال یا اسکول کے لیے کسی سرکاری اہلکار سے مدد مانگتا ہے یا خود جا کر بچوں کو پڑھانا شروع کردیتا ہے؟ جی نہیں‘ ہم من حیث القوم فریادی ہیں‘ ہم میں لیڈ کر کے بحرانوں کے مقابلے کی اہلیت نہیں لہٰذا ہم اوپر سے لے کر نیچے تک مار کھا رہے ہیں۔
دنیا میں اس وقت 250 ملک ہیں‘ ان میں ایک بھی ملک پیسے سے نہیں بنا‘ یہ سب لیڈر شپ نے بنائے اور دنیا کا کوئی ایک بھی ملک پیسے یا وسائل سے نہیں چل رہا‘ انھیں لیڈر شپ چلا رہی ہے جب کہ ہمارے لیڈرز بھی لیڈر شپ کی بنیادی صلاحیتوں سے محروم ہیں ‘ یہ بھی ’’خلائی مخلوق‘‘ کی مدد کے بغیر الیکشن تک نہیں لڑ سکتے لہٰذا آپ خود فیصلہ کرلیں یہ ملک پھر کیسے چلے گا؟میری آپ سے درخواست ہے آپ تمام پرائمری اسکولوں میں لیڈر شپ کے کورسز شروع کرادیں تاکہ لوگ کم از کم سروائیول کی جنگ کو تو سمجھ جائیں‘ یہ برف باری ہی سے بچ جائیں ورنہ ہم معذوروں کی دنیا کی سب سے بڑی قوم بن جائیں گے۔