معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
تو کب تک!
ٹرائے ترکی کا ایک قدیم شہر ہے‘ یہ شہر ایجین سی سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس کی ایک خاتون ہیلن کو گریک میتھالوجی میں دنیا کی حسین ترین عورت کا خطاب ملا تھا‘ ٹرائے میں ساڑھے تین ہزار سال قبل ’’ٹروجن وار‘‘ ہوئی تھی‘ یہ جنگ ہیلن کے لیے ہوئی اوروہ آگے چل کر دنیا میں لٹریچر‘ ڈرامے اور فلم کا مستقل موضوع بن گئی۔
ہیلن‘ ٹرائے اور ٹروجن کا ذکر سب سے پہلے یونانی شاعر ہومر نے اپنی کتاب اوڈیسی (Odyssey) میں کیا‘ یہ طویل رمز تھی اور یہ آج بھی بڑی رغبت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے‘ ہومر کا تعلق بھی ترکی سے تھا‘ یہ ایفسس شہر میں پلا‘ بڑا اور پڑھا تھا اوراس نے اوڈیسی بھی یہیں لکھی تھی‘ ٹروجن وارنے ساڑھے تین ہزار سال قبل ایک جنگی تکنیک متعارف کرائی‘یہ تکنیک آج بھی دنیا کی ہر جنگ میں استعمال ہوتی ہے۔
ٹروجن وار میں پہلی بار دشمن کو قتل کرنے کی بجائے زخمی کیا گیا تھا‘ کنگ ایگا میمنون (King Agamemnon) نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تم ہیکٹر کے فوجیوں کو صرف زخمی کرو‘ قتل نہ کرو‘ جنرل نے بادشاہ سے پوچھا ’’ہم دشمن کو مار کیوں نہیں رہے؟‘‘ بادشاہ کا جواب تھا ’’مرا ہوا سپاہی لاش ہوتا ہے اور لاش کی حفاظت کوئی نہیں کرتا جب کہ زخمی سپاہی کو بچانے اور خیمے تک پہنچانے کے لیے تین سپاہی چاہیے ہوتے ہیں۔
لہٰذا تم دشمن کو قتل نہ کرو زخمی کرو‘ دشمن لڑنے کے قابل نہیں رہے گا‘‘ یہ لفظ بعدازاں جنگوں کی تکنیکس بن گئے لہٰذا آج بھی جنگوں میں دشمن کو مارنے کی بجائے زخمی کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ساتھی جنگ پر توجہ دینے کی بجائے زخمی اٹھانے میں مصروف ہو جائیں اور اس دوران جارح فوج دشمن کے مورچے تک پہنچ جائے۔
یہ تکنیک صرف جنگوں تک محدود نہیں بلکہ اب ملکوں اور قوموں کو تباہ کرنے کے لیے بھی یہی حربہ استعمال کیا جاتا ہے‘مثلاً ملک چلانے کے لیے 32 شعبوں میں کام ضروری ہوتا ہے اور یہ شعبے سیاست دان بناتے اور بیوروکریٹس چلاتے ہیں۔
ملک کی معاشی اور کاروباری پالیسی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے‘ کاروبار کے لیے ماحول اور توانائی چاہیے اور ان دونوں کے لیے سیاسی اور انتظامی استحکام چاہیے اور اس کے لیے عدلیہ درکار ہے اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے پولیس کا محکمہ چاہیے‘ ان سب کے لیے قوم کا ٹرینڈ ہونا ضروری ہے اور قوم کی ٹریننگ کے لیے سسٹم کو مضبوط اور رواں ہونا چاہیے لیکن اگر ملک میں افراتفری پیدا کر دی جائے تو پھر سسٹم بنیں گے کیسے اور چلیں گے کیسے؟ چناں چہ آج دشمن مخالف قوم کو تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم یا فوج استعمال نہیں کرتا‘ یہ بس اس ملک میں سیاسی انتشار پھیلا دیتا ہے۔
پورا سسٹم اس انتشار میں انگیج ہو جاتا ہے اور یوں وہ ملک زخمی ہو جاتا ہے اور ہم اس زخمی تکنیک کی بدترین مثال ہیں‘ ہم نے 1948 سے خود ہی اس ملک میں استحکام پیدا نہیں ہونے دیا‘ ہم 70 سال سے ہنگاموں اور احتجاج میں مصروف ہیں چناں چہ آپ ملک کی حالت دیکھ لیجیے‘ دنیا میں پولیس کا کام لاء اینڈ آرڈر ہوتا ہے۔
ہم نے 70 سال سے پولیس کو احتجاج روکنے اور ہنگامے کنٹرول کرنے پر لگا رکھا ہے چناں چہ ملک میں لاء اور آرڈر دونوں فوت ہو چکے ہیں‘ عدالتوں کا کام مظلوموں کو انصاف دینا ہوتا ہے لیکن ہماری عدالتیں 70 سال سے سیاسی مقدمات بھگتا رہی ہیں لہٰذا انصاف بھی کورٹس اور کچہریوں میں دفن ہو چکا ہے‘ بیوروکریسی کا کام ملک چلانا ہوتا ہے مگر ہماری بیوروکریسی 70 سال سے حکومتوں کو بچانے میں مصروف ہے۔
افسر تیرے افسر اور میرے افسر میں تقسیم ہو چکے ہیں‘ فوج کا کام ملک کی حفاظت ہوتا ہے لیکن یہ یہاں 70 سال سے حکومتیں بنانے اور بھگانے میں مصروف ہے چناں چہ آج حالت دیکھ لیں ‘عمران خان جلسوں میں ’’میں بتا دوں گا‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں اور کوئی ان کو روک نہیں پا رہا‘ سیاسی جماعتوں کا کام ملک کی قیادت ہوتا ہے لیکن ہم 70 برسوں سے انھیں جیل اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان گھسیٹ رہے ہیں۔
ملک میں آج تک ایک بھی ایسی حکومت نہیں آئی جسے یہ یقین ہو ہم کل بھی حکومت میں ہوں گے اور بزنس کمیونٹی کا کام معاشرے میں روزگار پیدا کرنا اور دولت کی سرکولیشن ہوتا ہے لیکن ہم نے اسے سرکاری دفتروں کی دہلیز پر قربان کر دیا‘ یہ لوگ فیکٹریوں اور منڈیوں میں کام کرنے کی بجائے پوری زندگی سرکاری دفتروں کے طواف میں گزار دیتے ہیں لہٰذا ملک آپ کے سامنے ہے ‘ کیا اس صورت حال میں کسی دوسرے ملک کو ہم پر حملہ کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا ہم اب اپنے زخمی اٹھا اٹھا کر فوت نہیں ہو جائیں گے؟
ملک کی اصل حالت کیا ہے؟آپ نے کبھی سوچا! میں کل واپڈا کے ایک سابق چیئرمین کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ پڑھ رہا تھا‘ رپورٹ میں انکشاف ہوا‘ تربیلا ڈیم میں پراجیکٹ فور لانچ ہوا‘ اس پر 850 ملین ڈالر خرچ ہوئے‘ جرمن کمپنی کنسلٹنٹ تھی‘ کمپنی نے ہدایت کی تیسری ٹربائین ڈیم کے پیندے میں ہے۔
اسے مٹی مکمل طور پر بیٹھ جانے تک بند رکھیں اگر اسے وقت سے پہلے چلایا گیا تو یہ دوسری دونوں ٹربائینز کو بھی تباہ کر دے گی لیکن مکمل وارننگ کے باوجود چیئرمین نے وزیراعظم کو خوش کرنے کے لیے افتتاح کی تاریخ بھی جلد دے دی اور تینوں ٹربائینز بھی چلا دیں لہٰذا ایک ہی جھٹکے میں 753 ملین ڈالر پانی میں بہہ گئے اور واپڈا کو روزانہ دو کروڑ 80 لاکھ روپے نقصان بھی ہونے لگا‘ چیئرمین نے اپنے ایک دوست کو بھاشا ڈیم کا جی ایم بنا دیا۔
یہ اس پوزیشن کے لیے کوالی فائی نہیں کرتے تھے‘ یہ اپنی مدت ملازمت کے دوران بھاشا ڈیم کی سائٹ پر نہیں گئے‘ یہ لاہور میں بیٹھے رہے‘ چیئرمین نے اپنے دوسرے دوست کو بھاشا ڈیم کا پراجیکٹ ڈائریکٹر لگا دیا اور یہ دونوں تقرریاں قواعدوضوابط کے خلاف تھیں‘ اسی طرح بھاشا ڈیم کی سڑکیں بنانے کا ٹھیکا ایک بلیک لسٹ کمپنی کو دے دیا گیا۔
کمپنی کے مالک نے بعدازاں پراجیکٹ ڈائریکٹر کو دس کنال کا فارم ہاؤس بنا کر دیا‘ مہمند ڈیم کی انشورنس کا تخمینہ بھی ایک ارب 17 کروڑ روپے تھا لیکن یہ انشورنس 50 کروڑ روپے میں کرا ئی گئی اور اس کی منظوری بھی نہیں لی گئی‘ یہ معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں آیا تو 35 پیراگراف دباؤ کی نذر ہو گئے۔
نیب‘ ایف آئی اے اور ایف بی آر اب تحقیقات کر رہے ہیں لیکن ذمے دار نوٹس کا جواب تک نہیں دے رہے‘ فوج نے کارروائی کی اجازت دے دی ہے مگر حکومت دھرنوں سے نبٹنے کی تیاری میں مصروف ہے۔
آپ اسلام آباد میں سینٹورس کی آگ کا ایشو بھی دیکھ لیں‘ سینٹورس میں 9 اکتوبرکو آگ بھڑک اٹھی ‘ اسلام آباد میں آگ بجھانے کا بندوبست نہیں تھا‘گاڑیاں اور عملہ راولپنڈی سے بلایا گیا‘اسلام آباد کے شہریوں کو یاد ہوگا آج سے 20سال قبل جب شہید ملت سیکریٹریٹ میں آگ لگی تھی تو معلوم ہوا تھا سی ڈی اے کے پاس چھ منزل سے اونچی سیڑھی نہیں ہے۔
اس وقت فائر بریگیڈ کو جدید بنانے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن سی ڈی اے آج20برس بعد بھی آگ بجھانے کا مناسب بندوبست نہیں کر سکااور یہ وفاقی دارالحکومت کی حالت ہے! دنیا میں اس وقت توانائی کا خوف ناک بحران ہے‘ یورپ نے جون میں دسمبر کے بلیک آؤٹ کی تیاریاں شروع کر دی تھیں لیکن ہماری حکومت ابھی تک گیس کا سودا نہیں کر سکی۔
ہماری یہ سردیاں کتنی خوف ناک ہوں گی ہم تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن حکومت کے پاس سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں‘ آپ حماقتوں کا اندازہ کیجیے‘ وفاقی حکومت نے لانگ مارچ روکنے کے لیے 41 کروڑ روپے کا بجٹ ریلیز کیا‘ اتنی ہی رقم 16 اکتوبر کے ان ضمنی الیکشنز پر خرچ ہو جائے گی جن کے 8 حلقوں میں عمران خان الیکشن لڑ رہے ہیں اور دنیا جانتی ہے یہ الیکٹ ہونے کے بعد قومی اسمبلی نہیں جائیں گے اور یوں ایک بار پھر الیکشن ہوں گے اور ہم ان پر بھی 50 کروڑ روپے خرچ کریں گے گویا ہم آج تک یہ قانون بھی نہیں بنا سکے امیدوار الیکشن سے قبل حلف نامہ دیں ہم اسمبلی میں جائیں گے اور اگر نہ گئے تو ہم الیکشن کے اخراجات ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔
ہم آج تک دو نشستوں پر الیکشن لڑنے والوں کے لیے بھی جرمانہ طے نہیں کر سکے لہٰذا ہم ایک زخمی قوم ہیں‘ ہم اپنے زخمیوں کواٹھا اٹھا کر پھر رہے ہیں اور ہمارے دشمن ہنس رہے ہیں‘ریاست اور حکومتوں کو یہ کام کرنے چاہیے تھے۔
اسے ملک اور معاشرے کو ٹریک پر رکھنا تھا لیکن یہ اصل کام کی بجائے سیاسی زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پھر رہی ہے‘ ہماری حالت یہ ہے ہم آج تک ایکسٹینشن اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا سسٹم بھی نہیں بنا سکے‘ ملک میں اگر آج چیف جسٹس آف پاکستان یہ اعلان کر دیں ’’میں ریٹائر نہیں ہو رہا‘‘ تو ہمارے پاس انھیں اتارنے کا کوئی چینل موجود نہیں لہٰذا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ کیا یہ ملک اس طرح چل سکے گا اوراگر یہ چل سکے گا تو کب تک۔!