معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سوشل فٹ نیس
میں نے ہاتھ جیب میں ڈالا اور پھر پورا منظربدل گیا‘ بارش کے بعد سارا پارک نکھر گیا‘ درخت‘ پتے اورپھول پورے رنگوں کے ساتھ کھل کر سامنے آ گئے‘ کبوتروں کی ایک ڈار کسی طرف سے اڑتی ہوئی گھاس پر بیٹھی‘ دائیں بائیں دیکھ کر چونچیں مٹی پر رگڑیں‘ ہلکی سی ٹھک کی آواز آئی‘ ایک کبوتر اڑا اور پوری ڈار ہوا میں جوف بناتی تیرنے لگی۔
کبوتروں کی فارمیشن میں کوئی ایسا جادو تھا جس نے مجھے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا اور میں ڈار کے معدوم ہونے تک فضا پر نظریں جما کر کھڑا رہا‘ سامنے درخت کے نیچے دو پولیس اہلکار گھاس پر لیٹے ہوئے تھے‘ ان کی موٹر سائیکل‘ ہیلمٹ اور لمبے شوز سائیڈ پر پڑے تھے اور وہ آنکھوں پر ہاتھو کا چھجا رکھ کر سستا رہے تھے‘ یہ یقینا طویل ڈیوٹی کے بعد تھک گئے ہوں گے‘ واکنگ ٹریک پر صبح کی بارش کے آثار ابھی تک باقی تھے‘ پائوں ریت میں دھنستے تھے اور ریت کے ذرے تلوے کے ساتھ چپک جاتے تھے۔
گھاس سبز تھی لیکن نہیں ٹھہریے کچھ زیادہ ہی سبز تھی‘میں نے یہ رنگ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا‘ مارگلہ کی پہاڑیوں کے سرمئی سائے دور سے نظر آ رہے تھے‘ وہ سفید غبار میں لپٹی ہوئی تھی‘ ہوا کے ساتھ ساتھ غبار کبھی دائیں اور کبھی بائیں سرک جاتا تھا اور ہوا میں بھی ایک طراوت‘ ایک تازگی تھی‘ میں نے لمبی سانس لی اور میرے پورے وجود میں توانائی کا دریا بہنے لگا اور میں سرشاری میں ڈولنے لگا‘ وہ زندگی کا ایک شان دار لمحہ تھا اور اس لمحے کو ابدی بنانے کے لیے چنار کے درخت سے ایک گلہری نیچے اتری اور حیرت سے میری طرف دیکھنے لگی۔
اس کی آنکھوں کے بنٹے تیزی سے دائیں بائیں لرز رہے تھے‘ جانوروں کی بے چینی کا مرکز ان کی آنکھیں ہوتی ہیں‘ یہ آنکھوں کی پتلیوں اور ڈھیلوں سے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہیں اور وہ بھی آنکھوں کے ڈھیلے گھما گھما کر مجھے بتا رہی تھی میں تم سے گھبرا رہی ہوں‘ میں کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگا اور وہ کینگرو کی طرح اگلی ٹانگیں اوپر اٹھا کر مجھے گھورنے لگی اور میں اسے پیار سے دیکھنے لگا‘ کائنات میں اس وقت صرف ہم دو تھے۔
میں نے وہاں کھڑے کھڑے محسوس کیا ہم انسان اگر کسی جانور کو پیار سے دیکھیں تو ہمارے درمیان اجنبیت کی دیواریں گر جاتی ہیں‘ ہم ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں اور ہم بھی بن گئے‘ اس کی آنکھوں کا خوف آہستہ آہستہ معدوم ہو گیا اور وہ اطمینان سے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی‘ میں آگے چل پڑا‘ پارک کی دو سائیڈز پر ٹریفک بہہ رہی تھی‘ لوگ ہارن بھی بجا رہے تھے اور افراتفری میں ایک دوسرے کا راستہ بھی کاٹ رہے تھے لیکن اس لمحے مجھے یہ افراتفری اور آپادھاپی بھی اچھی لگ رہی تھی۔
میں بیزاری محسوس نہیں کر رہا تھا‘ ماحول کے تمام اجزاء اپنی اپنی جگہ پر تھے اور ان کے تمام رنگ بھی سلامت تھے لیکن پھر میں نے عادتاً وہی غلطی دہرا دی‘ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں یہ سارا منظر غائب ہو گیا اور میں بارش سے دھلی جنت سے سلگتے تڑپتے جہنم میں آ گرا‘ میرے تن من میں آگ لگ گئی اور میں پائوں کی انگلیوں سے لے کر سر کے بالوں تک جلنے لگا۔
میں کہاں تھااور میرے ہاتھ اور میری جیب میں کون سا ایسا پش بٹن تھا جس نے پورا منظربدل دیا‘ میں اپنے گھر کے قریب گرین بیلٹ کے واکنگ ٹریک پرتھا‘ میں ٹینشن کے خوف ناک فیز سے گزر رہا تھا‘ اوپر نیچے چار پانچ بری خبریں سنی تھیں لہٰذا چپ چاپ اٹھ کر واک شروع کر دی تھی‘ انسان کی فطرت ہے یہ ٹینشن میں کندھے جھکا لیتا ہے اور آنکھیں زمین کے ساتھ چپکا کر لڑکھڑا کر چلنے لگتا ہے‘ میں بھی اس وقت لڑکھڑا کر چل رہا تھا‘ اچانک موبائل فون کی اسکرین چمکنے لگی‘کوئی اجنبی مسلسل فون کر رہا تھا۔
میں نے شدت جذبات میں فون آف کیا اور اسے جیکٹ کی جیب میں ڈال لیا اور بس اس کے ساتھ ہی سارا منظر بدل گیا‘ مجھے پوری کائنات دکھائی دینے لگی اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں جنت میں پھر رہا ہوں‘ یہ صورت حال آدھ گھنٹے تک قائم رہی لیکن میں نے پھر غیر ارادی طور پر جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل فون باہر نکال لیا اور اس کی اسکرین آن ہونے کی دیر تھی اور میری نظروں سے یہ سارا منظر غائب ہو گیا اور اس کی جگہ سلگتے تڑپتے جہنم نے لے لی‘ مجھے پتا چلا ڈالر نے ریکارڈ توڑ دیے ہیں‘ اسٹاک ایکس چینج زمین پر آ گری ہے‘ سپریم کورٹ نے پانچ رکنی بینچ بنا دیا ہے۔
عمران خان سر پر سیاہ باکس اوڑھ کر عدالت جا پہنچے ہیں‘ آٹے کی بھگدڑ نے مزید دو لوگوں کی جان لے لی اور میں چند سیکنڈ میں دوبارہ اسی صورت حال کا شکار تھا جس سے جان چھڑانے کے لیے میں نے واک شروع کی تھی‘ مجھے اس وقت معلوم ہوا میرا ایشو حالات نہیں ہیںمیرا مسئلہ موبائل فون ہے‘ یہ حالات کی شدت میں ہزار گنا اضافہ کر دیتا ہے‘ ہندی زبان کی کہاوت ہے شیطان انسان کے کان میں پیشاب کرتا ہے اور موبائل فون آج کے دور کا شیطان ہے‘یہ ہمیشہ آپ کے کان میں موتے گا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی روز اس دن کی تمام کالز کی کیفیت کاپی میں لکھ لیں۔
آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے فون کی ہر کال اور سوشل میڈیا کی ہر جھلکی کے بعد آپ کے اسٹریس میں ہزار گنا اضافہ ہو گیا تھا اور آپ شام تک خودکشی‘ ہارٹ اٹیک یا قتل تک پہنچ چکے تھے اور یہ حالت صرف آپ یا میری نہیں ہو گی بلکہ اسمارٹ فون ایجاد کرنے والا مارٹن کوپر بھی آج کل اسی صورت حال کا شکار ہے‘ مارٹن نے آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے (1973 میں) اسمارٹ فون ایجاد کیا تھا‘ یہ خود بھی اس وقت آئی فون استعمال کرتا ہے اور روز اپنے اور اپنی ایجاد پر لعنت بھیجتا ہے‘ مارٹن کوپر نے چند دن قبل ایک نوجوان کو موبائل فون میں گھسے ہوئے سڑک پار کرتے دیکھا تو اس کا کلیجہ منہ کو آ گیا اور اسے محسوس ہوا یہ نوجوان حادثے کا شکار ہو جائے گا۔
مارٹن خود کہتاہے میںنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا میری ایجاد اس طرح استعمال ہوگی جس طرح میرے پوتے‘ پوتیاں اور نواسے نواسیاں کر رہے ہیں‘ مارٹن کوپر کی عمر اس وقت 94 سال ہے‘ یہ امریکا کے شہرسین ڈیاگو کے ٹائون ڈیل مار(Del Mar) میں رہتا ہے اور روز صبح شام اپنی حماقت پر افسوس کرتا ہے‘ آپ بھی اگر کسی دن ریسرچ کرینگے تو آپ بھی خود کو مارٹن کوپر سمجھیں گے۔
ہم انسان خود کو فٹ رکھنے کے خبط میں مبتلا ہیں‘ ہم خود کو جسمانی‘ ذہنی اور روحانی لحاظ سے بھی فٹ رکھنا چاہتے ہیں اور معاشی‘ سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے بھی لیکن سوشل فٹ نیس ان شعبوں سے کہیں زیادہ اہم ہے‘ ہم اگر سوشلی (سماجی) فٹ ہوں گے تو ہی ہم اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی‘ روحانی‘ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے فٹ ہوں گے‘ انسان سوشل اینمل ہے‘ ہم سے اگر سوسائٹی یا سماج کو الگ کر دیا جائے تو ہم میں اور کھوتے میں کوئی فرق نہیں رہے گا لہٰذا ہم انسانوں کوسوشل فٹ نیس انسان بناتی ہے اور سوشل فٹ نیس کیا ہوتی ہے؟
یہ ہوتی ہے دوسروں کو سپیس دینا‘ دوسروں کو بھی انسان سمجھنا‘ ان کے جذبات‘ ان کے احساسات اور ان کی روایات کا احترام کرنالیکن بدقسمتی سے موبائل فون نے ہماری سوشل ہیلتھ مکمل طور پر برباد کر دی ہے اور ہم جانور بن کر رہ گئے ہیں‘ آپ کسی روز اپنے نام آنے والے تمام پیغام یا فارورڈ میسجز پڑھ لیں آپ کا دماغ خراب ہو جائے گا اور آپ اس کے بعد اگلے تین دن تک کسی کام کے قابل نہیں رہیں گے اور آپ نے اگر ایک بار سوشل میڈیا کے گٹڑ میں جھانکنے کی غلطی کر لی تو پھر آپ سیدھے سائیکالوجسٹ کے پاس جائیں گے اور نیند کی گولیاں کھائیں گے لیکن ٹھہریے‘ اب تو سائیکالوجسٹ بھی موبائل فون کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔
ان کے خیالات اور اللہ دتہ اداس کے خیالات میں اب کوئی فرق نہیں رہا‘ یہ بھی مریضوں سے پہلے پوچھتے ہیں آپ کس پارٹی سے ہیں اور پھر علاج شروع کرتے ہیں۔
میں اپنی ٹینشن‘ ڈپریشن اور فرسٹریشن کا ڈیٹا بنا رہا ہوں‘ میں 13 سال کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں میرے آج تک جتنے بھی لوگوں سے تعلقات خراب ہوئے اس کی وجہ موبائل فون تھا‘ مارٹن کوپر کے اس بدبخت آلے نے میرے کان میں موتا‘ میں بھڑکا اور دوسری طرف موجود شخص سے بھڑ گیا‘ میں جب بھی ڈپریشن‘ ٹینشن اور اینگزائٹی کا شکار ہوا اس کی وجہ موبائل فون تھا چناں چہ میں اب سوشل فٹ نیس کے لیے موبائل فون کا استعمال کم سے کم کرتا چلا جا رہا ہوں‘ میں دو سال سے سوشل میڈیا کے میسجز نہیں پڑھتا چناں چہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں مجھے پتا نہیں ہوتا‘ میں نے نئے نمبر سیو کرنا بھی بند کر دیے ہیں۔
مجھ سے کوئی اختلاف کرے یا اعتراض کرے تو میں کسی چیز کی وضاحت نہیں کرتا‘ سیدھی سادی معافی مانگ لیتا ہوں ‘گو 95فیصد لوگ اس کے باوجود مجھے معاف نہیں کرتے لہٰذا میں پر مارٹن کوپر پر لعنت بھیج کر خاموش ہو جاتا ہوں‘ میں 2024ء میں ان شاء اللہ موبائل سے مکمل جان چھڑا لوں گا اور بل گیٹس اور وارن بفٹ کی طرح موبائل فری زندگی گزاروں گا اور اگر میں ایسا نہ کر سکا تو پھر آپ یقین کریں مجھ میں اور شیخ رشید میں کوئی فرق نہیں رہے گا‘ ہم دونوں گلیوں میں کاغذ اکٹھے کر رہے ہوں گے۔