عالمی عدالت انصاف غزہ میں جنگ بندی کے معاملے پر خاموش رہی

عالمی عدالت انصاف غزہ میں جنگ بندی کے معاملے پر خاموش رہی، اسرائیل کا جنگ جاری رکھنے کا اعلان، فلسطینی بھی عدالتی فیصلے سے زیادہ مطمئن نہیں ، تلخ حقیقت ، عالمی عدالت کے پاس فیصلوں کی تکمیل کرانے کیلئے کوئی فورس ہے نہ مکینزم ۔

اقوام متحدہ کے تحت قائم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقا کی شکایت اور فلسطینی عوام کی نسل کشی کو روکنے اور جنگ بندی کے مطالبے پر مبنی مقدمہ کی سماعت کے بعد اپنے ابتدائی فیصلے میں اسرائیل کو نسل کشی روکنے اور امدادی کاررو ائیوں کی سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ تقریباً چار ماہ سے جاری جنگ کو بند کرانے کے بارے میں خاموشی کا راستہ اختیار کیا ہے۔

پندرہ مستقل عالمی ججوں اور اسرائیل اور جنوبی افریقا کے ایک ایک ایڈہاک ججوں پر مشتمل اس عالمی عدالت کے فیصلے کو نہ صرف اسرائیل نے یکسر مسترد کرکے اسے تاریخی شرمناک قرار دیتے ہوئے نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے تو اسرائیل کے ہاتھوں تباہی اور بربادی میں مبتلا فلسطینی بھی کچھ زیادہ مطمئن نہیں۔

عدالت نے 30؍ دن میں اسرائیل کو فیصلے میں اسرائیل کیلئے لکھے گئے احکامات کی تعمیل کے بارے میں رپورٹ فائل کرنے کو بھی کہا گیا ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے اس تعمیل کا امکان بھی کم نظر آتا ہے۔

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی عدالت کے پاس اپنے فیصلوں کی تعمیل کرانے کیلئے نہ تو کوئی فورس ہے نہ ہی فنڈز ہیں اور نہ ہی کوئی میکنزم ہے بلکہ اس عالمی عدالت کے ماضی میں فلسطین کے مغربی کنارے کے علاقے میں اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار کے خلاف دیا ہوا فیصلہ بھی کئی سال بعد بھی نفاذ سے محروم ہے۔ اسی لئے اس عالمی عدالت کو محض ایک ٹریبونل اور اس کے فیصلوں کو محض اخلاقی اہمیت قرار دیا جاتا ہے۔

اس کے باوجود عالمی عدالت کے اس فیصلے کے فوری اور طویل المدت اثرات و مضمرات لازما ہوں گے۔

گو کہ امریکا اس عالمی عدالت اور اس کے فیصلوں کو تسلیم ہی نہیں کرتا لیکن اس وقت جنوبی افریقا اور اسرائیل کے اس مقدمہ کا فیصلہ جس خاتون جج نے پڑھ کردنیا کو سنایا ہے وہ اس عالمی عدالت کی صدر جج جوین ڈونو گوہو امریکی جیورسٹ ہیں اور انہوں نے بھی عدالت کے باقی 14؍ ججوں کی طرح اس فیصلہ کی حمایت میں ووٹ دیا ہے۔

اختلاف کرنے والے دو ججوں میں ایک جج کا تعلق یوگنڈا سے اور ایک ایڈہاک جج اسرائیل کے ہا رون بارک تھے۔

مغربی اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے تمام ججوں نے بھی فیصلے کی حمایت کی ہے جن میں جرمنی، آسٹریلیا، روس، جاپان، سلواکیہ، فرانس، برازیل جبکہ چین، بھارت، مراکش، لبنان، جمیکا، صومالیہ کی شہریت کے حامل ججوں سمیت سب کا متفقہ فیصلہ ایک ہی ہےکہ نسل کشی کے خلاف عالمی کنونشن کے ضوابط کی پابندی اسرائیل پر لازم ہے۔