معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
پھر وہی کتاب اور کہانی …(آخری)
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مجھے کتاب پر لکھتے ہوئے سیاست کا خیال نہیں آتا۔ ورنہ ہمارے ہاں وہ کون سا موضوع ہے جس پر لکھنے کی کوشش کریں اور سیاست درمیان میں اپنی ٹانگ نہ پھنسا دے؟ ادارے‘ مہنگائی‘ ٹریفک‘ احتساب‘ میرٹ‘ عدل و انصاف اور امن و امان کی صورتحال‘ غرض ہر چیز میں سیاست گندھی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ ایک تقرری نے پورے ملک کے سیاسی اور اقتصادی توازن کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ اس تقرری میں جس حکمران نے بھی میرٹ کو اوپر نیچے کرتے ہوئے اپنی صوابدید پر کسی جونیئر کو اس وقت کے سینئرز پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی من مرضی کی‘ اس نے ہی اس خلاف از میرٹ تقرری کو سب سے زیادہ بھگتا۔ سمجھدار لوگ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان بہرحال قومی مفاد کے معاملے میں تو سمجھدار انسان ہرگز نہیں ہیں؛ البتہ ذاتی مفادات کے معاملے میں ان جیسا سیانا دنیا میں شاید ہی کوئی اور طبقہ ہو۔
اللہ مجھے معاف کرے کہ میں بھٹک کر ایک بار پھر سیاست کے جوہڑ میں جا گھسا تھا۔ بات کتابوں کی ہو رہی تھی اور سیاست کی طرف جانے لگی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پرائمری سکولوں کی سطح پر بچوں کی دلچسپی اور ان کی ذہنی استعداد کے مطابق خواہ چھوٹی سی ہی سہی‘ مگر ہر سکول میں ایک لائبریری ہونی چاہئے۔ اس لائبریری کیلئے بے شک علیحدہ سے کوئی لائبریرین نہ بھی ہو تو کم از کم کسی ایک استاد کو اس لائبریری کا باقاعدہ انچارج بنایا جائے اور اسے اس سلسلے میں ایک دو ماہ کی تربیتی ورکشاپ میں Book keepingاور بچوں کو کتاب کی طرف مائل کرنے کی جدید تکنیک سے آگاہی دی جائے۔ کتاب بینی اور کہانی سے متعلق ہفتے میں کم از کم ایک پیریڈ ضرور مختص کیا جائے اور یہ ٹرخانے والا پیریڈ یا مضمون نہ ہو بلکہ اس مضمون کا امتحان ہو اور اس کے باقاعدہ نمبر ہوں تاکہ بچے اسے لازمی مضمون سمجھ کر اس پیریڈ کو غیر نصابی کے بجائے نصابی سرگرمی سمجھ کر توجہ دیں۔ تمام طلبہ نہ سہی‘ لیکن بہت سے طلبہ ایک بار کتاب سے منسلک ہونے کے بعد اسے بطور عادت ضرور اپنائیں گے۔
میں جب امریکہ‘ برطانیہ یا مغربی ممالک کی مثال دیتا ہوں تو میرے بعض قاری اسے ذہنی غلامی‘ احساسِ کمتری یا مغرب سے متاثر ہونے کا طعنہ دے کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں حالانکہ اس سلسلے میں ایک واضح اور صاف حدیثِ مبارکہ ہے کہ ”علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے‘ یہ جہاں سے ملے اسے حاصل کر لے‘‘۔ یعنی علم‘ حکمت‘ دانائی اور بھلائی دراصل ہماری ہی کھوئی ہوئی میراث ہے اور اس کے دوبارہ حصول میں کسی قسم کے احساسِ کمتری یا شرمندگی کا کوئی پہلو نہیں بلکہ یہ تو ہمارے لیے محسنِ انسانیتﷺ کی طرف سے حصولِ علم کی یاد دہانی ہے اور اس پر لبیک کہنا ہمارے لیے فرض ہے۔ یہ ہم نہ سہی‘ مگر ہمارے آبا ہی تھے جو علم‘ ہنر اور تحقیق میں دنیا کی قیادت کیا کرتے تھے اور یورپ والے ان کی لکھی ہوئی کتب کا ترجمہ کر کے ان کے علم و ہنر اور تحقیق سے خوشہ چینی کیا کرتے تھے۔ اگر آج ہم اپنی کھوئی ہوئی میراث کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تو بھلا اس میں احساسِ کمتری یا یورپ کی نقالی کا تصور کہاں سے آ گیا؟
میں گزشتہ سال اپنی بیٹی کے ہاں امریکہ گیا تو اگلے روز سیفان شام کے وقت بار بار دروازہ کھول کر باہر دیکھ رہا تھا۔ میں اس کی بے چینی اور اشتیاق کو سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے کس چیز کا اتنی شدت سے انتظار ہے۔ کومل نے میرا تجسس محسوس کیا تو مجھے بتانے لگی کہ اس کا پیزا آنے والا ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ اس نے پہلے تو کبھی اس طرح بے چینی سے پیزا کا انتظار نہیں کیا۔ آج کیا خاص بات ہے کہ یہ اتنا ”اتاولا‘‘ ہوا جا رہا ہے۔ وہ ہنس کر کہنے لگی: دراصل آج اس کیلئے پیزا ہم نے نہیں منگوایا بلکہ اس نے یہ پیزا اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک سات سال کا بچہ کس طرح اپنی محنت سے پیزا حاصل کر سکتا ہے؟کومل بتانے لگی کہ ان کے سکول میں بچوں کو کتاب سے جوڑنے کیلئے ایک پروگرام ہے جس کے تحت جب کوئی بچہ لائبریری سے اپنی پسند کی تین کتابیں ایک ہفتے میں پڑھ لے تو اسے ایک انعامی پیزا کوپن ملتا ہے اور وہ بچہ یہ کوپن دے کر پیزا ہٹ سے اپنی پسند کا ایک لارج پیزا مفت گھر ڈِلیور کروا سکتا ہے۔ یہ اس کا اس ماہ میں تیسرا مفت پیزا ہے۔
میں نے کومل سے پوچھا کہ یہ ہر ہفتے واقعی تین کتابیں پڑھتا بھی ہے یا سکول والوں کو غچہ دیے جا رہا ہے؟ کومل کہنے لگی: بابا جان! یہ واقعی تینوں کتابیں پڑھتا ہے۔ سکول والے ویسے تو بچوں کی زبان پر ہی اعتبار کرتے ہیں مگر کبھی کبھار ان کی ٹیچر Randomly ان کتابوں میں سے کوئی سوال پوچھ لیتی ہے؛ تاہم یہاں بچے تو جھوٹ نہیں بولتے۔ ہاں بڑے ہو کر جھوٹ بولنا شروع کر دیں تو وہ الگ بات ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ وہاں سکولوں میں بچوں کو کتاب سے جوڑنے کیلئے سکول انتظامیہ کی جانب سے بچوں کو پہلے پہل پیزا کو محرک بنا کر ترغیب دی جاتی ہے، بعد ازاں بچوں کو کتاب پڑھنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور پھر کسی ترغیب یا لالچ کی ضرورت نہیں رہتی۔
سیفان اس بار تقریباً چار سال بعد پاکستان آیا تو میری لائبربری میں گھس کر اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرتا رہا اور اسے تین چار کتابیں اپنی مرضی کی مل گئیں جو وہ باری باری پڑھتا رہا؛ تاہم اسے سب سے زیادہ پسند 16 جلدوں پر مشتمل Family Illustrated انسائیکلوپیڈیا آیا۔ اس نے مجھ سے بڑے تمیزدار انداز میں دریافت کیا کہ کیا وہ یہ انسائیکلوپیڈیا پڑھنے کیلئے اپنے ساتھ امریکہ لے جا سکتا ہے؟ اس نے وعدہ کیا کہ وہ یہ انسائیکلوپیڈیا پڑھنے کے بعد واپس کر دے گا۔ میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور کہا کہ وہ یہ انسائیکلوپیڈیا نہ صرف اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے بلکہ اسے واپس کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے اس انسائیکلوپیڈیا کے بارے میں پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ میں یہ سیفان اور ضوریز کو دے دوں گا۔ خوشی سے سیفان کی تو باچھیں کھل گئیں۔
جب سیفان وغیرہ امریکہ واپس روانہ ہوئے تو میں برطانیہ جا چکا تھا۔ سامان کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے کومل نے یہ انسائیکلوپیڈیا واپس لائبریری میں رکھ دیا۔ امریکہ روانگی سے قبل سیفان نے مجھے برطانیہ فون کر کے بڑے دکھی لہجے میں یہ سارا قصہ سنایا اور مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اگلی بار امریکہ آتے ہوئے یہ انسائیکلوپیڈیا لے کر آو ٔں گا۔ میں نے نہ صرف وعدہ کرلیا بلکہ اس کو الماری سے نکال کر ایک کارٹن میں پیک کر کے رکھ دیا ہے تاکہ جب امریکہ جاؤں تو اسے اپنے ہمراہ لیتا جاؤں۔
پچاس‘ پچپن سال قبل میرے پاس بچوں کی دنیا‘ تعلیم و تربیت‘ ہمدرد نونہال اور پھول وغیرہ آتے تھے‘ آج نصف صدی گزرنے کے باوجود بچوں کے وہی چار پانچ رسائل ہیں۔ اللہ مجھے بدگمانی سے بچائے مجھے گمان ہے کہ ان چار پانچ رسائل کی تعداد اشاعت اس دوران ملکی آبادی میں بچوں کی شرح تین چار گنا ہو جانے کے باوجود اگر کم نہیں بھی ہوئی تو بڑھی بھی نہیں ہوگی کہ ہمارے ملتان میں گزشتہ پچاس سال کے دوران ادبی کتب کی دکانیں پہلے کی نسبت چوتھائی بھی نہیں رہیں جبکہ تدریسی کتب کی دکانیں دس گنا ہو چکی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نصابی کتب پڑھنے والوں کے تعداد تو شاید دس گنا ہو گئی ہے مگر غیر نصابی کتب کے قارئین کے تعداد چوتھائی رہ گئی ہے۔ ظاہر ہے عام ادبی کتب کی فروخت کی شرح میں جو انحطاط آیا ہے تو ایسے میں بھلا بچوں کا ادب اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟