معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ہیں مدتوں سے کہیں لاپتہ کمال کے دن…(3)
انارکلی سے باہر نکل کر مال روڈ پر آتا تو بڑے مشینی انداز میں بائیں طرف مڑ جاتا جدھر میری دلچسپیوں کا سامان نسبتاً بہت زیادہ ہوتا تھا۔ ظاہر ہے انارکلی سے لیکر چڑیا گھر تک کا فاصلہ دو کلو میٹر سے کیا کم ہوگا؟ اس دو کلو میٹر میں مرزا بک ایجنسی تھی‘ ریگل چوک سے ٹیمپل روڈ کی طرف مڑیں تو دائیں ہاتھ پر امپیریل بک ڈپو ہوتا تھا۔ اب وہاں برگروں کی دکان ہے۔ درمیان میں گنگا رام مینشن میں بندوقوں کی دکان تھی۔ لیکن اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے میکلوڈ روڈ ا ور مال روڈ کے سنگم پر اونچی منزلوں والی پرانی سی پہلی عمارت کے کارنر پر ایس نبی بخش اینڈ سنز والوں کی دکان تھی۔ اس دکان میں میری دلچسپی صرف مچھلی پکڑنے کے سامان والے شوکیسوں تک محدود تھی۔ نہ کچھ لینا اور نہ کچھ دینا مگر ہر دوسرے چوتھے دن اس دکان میں گھس جانا اور مچھلی پکڑنے والی راڈز‘ ڈوری‘ چرخی‘ فلوٹرز اور بے شمار اقسام اور سائز کے کانٹے۔ بعد میں یہاں سے ایک ایک کر کے قسطوں میں ایک بنسی اور نائیلون کی ڈور پر مشتمل مچھلی پکڑنے کا کانٹا تیار کیا اور وارث روڈ پر موجود ایک تالاب میں مچھلیاں پکڑنے کی کوششیں بھی کیں مگر سب کچھ بے سود رہا اور دو چار بار خوار ہونے کے بعد اس شوق سے تائب ہو گیا۔ کئی سال بعد کوئینز روڈ اور وارث روڈ کے مقامِ اتصال پر موجود اس تالاب کو دیکھنے گیا تو اس میں کھڑے پانی پر سبز رنگ کی کائی کی ایک موٹی سی تہہ تھی اور ایسی ویرانی کہ دل اداس ہو گیا۔ آج لکھنے بیٹھا ہوں تو اس عشروں پرانے تالاب کی یاد آ گئی۔ ایک آدھ بار درمیان میں خیال آیا کہ اس تالاب کا حال دیکھوں مگر پھر دل نے منع کر دیا کہ اگر یہ تالاب سرے سے ہی غائب ہوا تو سوائے ملال کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ایسی اور بھی بہت سی چیزیں دیکھتے دیکھتے صفحہ ہستی سے غائب ہو چکی ہیں۔
ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے دکانوں اور دفاتر کے درمیان ایک کھلی سی گلی اندر جاتی تھی جو آگے جا کر دو حصوں میں بٹ جاتی تھی۔ درمیان والی تکون میں ایک قدیم طرز کی سفید رنگ کی کوٹھی تھی۔ یہ میری ماں جی مرحومہ کی دو سہیلیوں خالہ شفیق اور خالہ رفیق کی رہائش گاہ تھی۔ لفظ شفیق کا مفہوم خالہ شفیق جیسی کسی ہستی کو ملنے کے بعد ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ کیا محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ وہ محبت اور رشتے تو اب گویا عنقا ہو گئے ہیں۔ میں کبھی کبھار ان کے گھر چلا جاتا۔ دونوں خالائیں اتنے تپاک سے استقبال کرتیں کہ گویا میں دس گیارہ سال کا بچہ نہیں بلکہ کوئی باقاعدہ معزز شخص ہوں۔ درمیان میں ایک ڈرائنگ روم نما کشادہ کمرہ تھا۔ وہاں بیٹھ کر وہ مجھے اپنی اور ماں جی کی دوستی کی پرانی باتیں سناتیں۔ ماں جی اور دوسرے بہن بھائیوں کا حال پوچھتیں اور تاکید کرتیں کہ جب ماں جی لاہور آئیں تو انہیں ساتھ لے کر آؤں۔ بھلا یہ کوئی یاد رکھنے اور یاد کروانے والی بات تھی؟ گرمیوں کی چھٹیوں میں ماں جی جب بھی آٹھ دس دن کیلئے لاہور آتیں تو ایک پورا دن اس گھر میں گزارتیں۔ میں تو لاہور میں خیر سے ڈیڑھ ماہ سے کم کیا رہتا ہوں گا۔
خالہ کے ہاں وحدت کالونی والے ان کے کوارٹر میں بارہ پندرہ دن گزر جاتے‘ دس بارہ دن ماموں کے گھر اندرون لوہاری میں بسر ہوتے اور باقی سارا وقت شادباغ میں تایا نواز کے گھر میں گزر جاتا۔ شادباغ سے ہر دوسرے دن کاچھو پورہ میں تایا شہباز کے گھر چلا جاتا جہاں میرا کزن عقیل مرحوم ہوتا تھا ۔یہ ایک بڑا سا گھر تھا جو میرے دادا کے کزن چراغ دین کے نام سے منسوب چراغ دین سٹریٹ کا پہلا گھر تھا۔ درمیان میں صحن تھا جس کے ایک طرف چچا شہباز اور دوسری طرف پھوپھو کا گھر تھا جن کا بیٹا طارق مرحوم اپنی شرارتوں کی وجہ سے ہمارا آئیڈیل بھی تھا اور استاد بھی۔
انارکلی سے چڑیا گھر تک دو کلو میٹر سے زائد فاصلہ میں تب بھی پیدل طے کرتا تھا اور ا ب بھی میں مال روڈ پر عموماً پیدل ہی پھرتا ہوں۔ گاڑی نیلا گنبد پارک کرتا ہوں اور سارے مال روڈ پر پیدل چلتا ہوں حالانکہ مال روڈ بالکل تبدیل ہو چکا ہے اور اس میں پرانے مال روڈ والی کوئی بات ہی نہیں رہی مگر کیا کروں‘ صرف مال روڈ پر پیدل چل کر ہی اپنی یادیں تازہ کر لیتا ہوں۔ پچھلے دنوں ایس نبی بخش کی دکان پر کسی اور نام کا بورڈ دیکھا تو دل کو دھچکا لگا۔ حالانکہ مجھے وہاں سے اب کچھ لینا دینا تو نہیں تھا مگر اس سے جڑی ہوئی یادوں کا کیا کروں؟ اس سے پہلے آئیڈیل بک ہاؤس‘ امپیریل بک سٹور اور سب سے بڑھ کر فیروز سنز بند ہو گیا۔ خالہ شفیق اور خالہ رفیق رخصت ہوئیں تو وہ گھر بے معنی ہو گیا۔ اللہ جانے اب اس میں کون رہتا ہے۔ زمزم سوڈا واٹر والی منی موبائل بیوریج فیکٹری والی وین لاپتہ ہو گئی۔ شیخ سلیم کی قدیمی اسلحے والی دکان ختم ہو گئی۔ ایس رولو کی دکان تو رہ گئی مگر خدا جانے اب اس گورے جیسی جادوئی فوٹو گرافی کوئی کرتا ہوگا یا نہیں۔ انارکلی سے باہر نکل کر بائیں ہاتھ مڑتے ہی چائینز لنچ ہوم ہوتا تھا۔ پہلے پہل میں نے اس ریسٹورنٹ میں اباجی مرحوم کے ساتھ کھانا کھایا۔ یہ بھی ماضی ہو گیا۔ جب میں نے مال روڈ پر اکیلے پھرنا شروع کیا تب واپڈا ہاؤس نیا نیا بنا تھا۔ مینار ِپاکستان بھی انہی دنوں مکمل ہوا تھا۔ ماموں محمود مرحوم مینارِ پاکستان کی تکمیل کے دنوں میں وہاں کثرت سے جایا کرتے تھے اور ان کی دلچسپی کا محور سنگ مرمر کی سلوں پر ہونے والی خطاطی تھی جسے کاریگر چھینی اور ہتھوڑی سے کندہ کرتے تھے اور ان میں رنگ بھر کر نصب کیا جاتا۔ واپڈا ہاؤس کی عمارت آج کے ٹھیکیداروں کے منہ پر معیار کا ایسا طمانچہ ہے کہ آج کے سرکاری عمارات بنانیوالے ٹھیکیداروں اور تعمیر کی نگرانی پر متعین محکموں اور افسروں کو اس تعمیراتی معیار پر شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ پچپن سال قبل اس عمارت میں لگنے والی لفٹیں بلاتعطل چل رہی ہیں اور عمارت کا کہیں سے بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ کبھی اس کے نیچے والی منزل میں پرائیویٹ دفاتر ہوتے تھے اور ایک نہایت شاندار سالوس ریسٹورنٹ ہوتا تھا۔ پھر امن و امان کے مسئلے نے ملک ِعزیز کی بہت سی جگہوں کی طرح چیئرنگ کراس کو بھی نوگوایریا میں تبدیل کر دیا۔چیئرنگ کراس والی سنگِ مرمر کی بارہ دری میں کبھی ملکہ وکٹوریہ کا بت ہوتا تھا جو میری پیدائش سے بھی پہلے 1951ء میں گدھا گاڑی پر لاد کر لاہور عجائب گھر پہنچا دیا گیا۔ یہ بت کئی سال ایک تہہ خانے میں پڑا رہا پھر سامنے والی گیلری میں لا کر سجا دیا گیا۔ لاہور کے تقریباً سارے تاریخی مجسمے برباد ہو گئے۔ ان میں سب سے شاندار کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے بالمقابل لگا ہوا ایڈورڈ ہفتم کا گھوڑے پر سوار مجسمہ تھا۔ لاہور کے دیگر چار پانچ مجسموں کی طرح یہ مجسمہ بھی ہم نے اسلامی روایات کے خلاف قرار دیتے ہوئے اکھاڑ کر غائب کر دیا۔ خدا جانے پیتل کا یہ مجسمہ کسی نے ڈھلائی کر کے بیچ کھایا یا کہیں دبا پڑا ہے۔ اسی طرح سرگنگارام کا مال روڈ پر‘سرجان لارنس کا ہائی کورٹ کے سامنے اور لالہ لاجپت رائے کا مجسمہ ناصر باغ کے ساتھ ایستادہ تھا۔ لالہ لاجپت رائے 17نومبر 1928ء کو پنڈت مدن موہن مالویہ کے ہمراہ سائمن کمیشن کے خلاف نکالے گئے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے گول باغ (ناصر باغ) کے قریب پولیس تشدد سے زخمی ہوا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے پرلوک سدھار گیا۔ اس کا مجسمہ اسی جگہ لگایا گیا مگر وہ بھی غائب ہو گیا ‘لیکن تقریباً ایک سال بعد بھارت کے شہر شملہ میں دوبارہ نصب ہو گیا۔ زمزمہ المعروف بھنگیوں والی توپ کے ایک طرف پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے سامنے والی فٹ پاتھ پر لگا ہوا سرالفریڈ وولنر کا مجسمہ لاہور میں بچ جانے والا واحد اور آخری مجسمہ ہے۔ (جاری)