پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
تین دن ہوانا سے باہر
ہم نے تین دن ہوانا اور تین دن ہوانا سے باہر گزارے‘ سین فیوگس(Cienfuegos) ہوانا سے ساڑھے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ سمندر کے کنارے انتہائی خوب صورت شہر ہے‘یہ کسی زمانے میں گنے کے بیوپاریوں کی جنت ہوتا تھا۔
ہم ہوانا سے نکلے تو ہائی وے کے دونوں جانب سارا راستہ آم اور کیلے کے باغ تھے‘ میلوں تک گنے کے کھیت بھی بکھرے ہوئے تھے‘ کیوبا میں سائیکل‘ ٹریکٹر اور بیل گاڑی کو ہائی وے پر آنے کی اجازت نہیں‘ یہ سڑک کے ساتھ ساتھ کچے راستے پر چلتے ہیں‘ ہمیں سفر کے دوران سڑک کی سائیڈز پر بیل گاڑیاں اور ٹریکٹر نظر آتے رہے۔
اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے کیوبا میں کھاد بنتی ہے اور نہ درآمد ہوتی ہے لہٰذا پھل ہوں‘ سبزیاں ہوں یا اناج ہو کیوبا میں ہر چیز قدرتی ہوتی ہے اور اس کا ذائقہ ہی مختلف ہوتا ہے‘ کیلے بھی دو قسم کے ہیں‘ پکانے والے کیلے کھانے والے کیلوں سے مختلف ہوتے ہیں‘ کیوبن کچے کیلے کاٹ کر آلو کی طرح سبزی اور گوشت کے ساتھ پکاتے ہیں۔
یہ کیلے سائز میں چھوٹے اور بدصورت ہوتے ہیں لیکن سالن میں بہت اچھے پکتے ہیں‘ ان کا پائن ایپل بھی بدصورت اور کم میٹھا ہوتا ہے تاہم امرود سرخ‘ خوشبو دار اور میٹھے ہوتے ہیں‘ گنے کے کھیت بھی گھنے ہوتے ہیں اور گنے میں مٹھاس پنجابی گنے سے زیادہ ہوتی ہے‘ کسان محنتی ہیں مگر کھاد‘ کیڑے مار ادویات اور زرعی آلات کی قلت کی وجہ سے ان کی پیداوار زیادہ نہیں ہوتی لیکن کیوبا میں شرح خواندگی حیران کن حد تک زیادہ ہے‘ ننانوے اعشاریہ 75 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں‘ عام کسان اور بھکاری بھی پڑھے لکھے ہوتے ہیں‘ یہ باقاعدہ پڑھ لکھ کر بھیک مانگتے ہیں۔
سین فیوگس امریکی زمانے میں چینی کے بیوپاریوں کا شہر ہوتا تھا‘ سمندر کے کنارے بیوپاریوں کے بڑے بڑے محلات تھے‘ یہ محلات اب حکومت کے قبضے میں ہیں‘ سب سے بڑے محل میں سین فیوگس کلب بنا دیا گیا ہے‘ ہمیں اس کلب میں شام کی چائے پینے کا اتفاق ہوا‘ وہ جگہ واقعی کمال تھی‘ سمندر کا کنارہ تھا‘ گہری سبز گھاس تھی اور گھاس کے درمیان کلونیل اسٹائل کی سفید عمارت تھی‘ بلڈنگ کی چوکی اونچی تھی‘ برآمدے تک آنے کے لیے تیس سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں‘ ویٹر نے بتایا کیوبا میں ٹیلی ویژن پر ہفتے میں دو دن انڈین فلمیں چلتی ہیں۔
لہٰذا ہمارے زیادہ تر عوام بھارتی اداکاروں کو جانتے اور ہندی زبان سمجھتے ہیں‘ وہ ہمیں ہندوستانی سمجھ رہا تھا‘ ہم نے جب پاکستان کا تعارف کرایا تو اسے بہت حیرت ہوئی‘ آپ اس سے بھارت کے ثقافتی پروپیگنڈے کا اندازہ کر لیجیے‘یہ کیوبا میں بھی بالی ووڈ کو داخل کر چکا ہے‘ہم کلب میں سمندر کے کنارے بیٹھے تھے اور ہمارے سامنے سورج کا لاوا آہستہ آہستہ پانی میں غوطہ زن ہوا اور اس نے پھر پورے سمندر کو آگ لگا دی اور ہم مبہوت ہو کر وہ منظر دیکھتے رہے‘ شہر کی مین سڑک فرنچ اسٹریٹ ہے۔
اس کے دائیں بائیں ریستوران اور سرکاری دکانیں ہیں‘ دکان میں تین چیزیں اور چھ ملازمین ہوتے ہیں اور یہ اسٹائل پورے کیوبا میں کامن ہے‘ فرنچ اسٹریٹ فرانسیسیوں نے بنائی تھی اور اس پر ڈسکوز اور بارز بھی ہیں‘ میں نے کیوبا میں ایک بڑی حیران کن چیز دیکھی‘ وہاں خواتین مائنڈ نہیں کرتیں‘ ہمارے سامنے لوگ آتے تھے اور کسی بھی خاتون کے ساتھ گپ شپ شروع کر دیتے تھے اور وہ خوش دلی سے ان سے گفتگو کرتی تھی اور اس گفتگو کے بعد کیا ہوتا تھا ہم اس کا صرف اندازہ ہی کر سکتے ہیں۔
خواتین سیاحوں پر بہت مہربان ہوتی ہیں‘ اس کی وجہ شاید معاشرے کا بند ہونا ہو‘ سین فیوگس کا چوک بھی دل چسپ جگہ ہے‘ چوک میں درختوں کے درمیان ان فرانسیسی لوگوں کے مجسمے لگے ہیں جنھوں نے یہ شہر آباد کیا تھا‘ چوک کی سائیڈز پر ریستوران اور پرانی سرکاری عمارتیں ہیں‘ ہر عمارت اسی طرح باہر سے سپاٹ اور اندر سے حیران کن تھی‘ہر بلڈنگ کے صحن میں درخت اور فوارے تھے۔
ہمیں سیاحوں کے رش کی وجہ سے کسی ہوٹل میں کمرہ نہیں ملا‘ آخر میں ہمیں ایک بوڑھی خاتون کے گھر پناہ مل گئی‘ کیوبا میں لوگ سیاحوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرا لیتے ہیں تاہم یہ ہر مہمان کی ہوٹل کی طرح انٹری کرتے ہیں اور پولیس کو اطلاع دیتے ہیں‘ بڑھیا کا گھر قدیم قلعے کی طرح تھا‘کمرے چھوٹے تھے لیکن تمام سہولیات موجود تھیں‘ بڑھیا کی بیٹی گریسی اداکارہ تھی اور اسے دنیا کے بارے میں اچھا خاصا نالج تھا۔
ہم اگلے دن سین فیوگس سے ٹرینی ڈاڈ (Trinidad) چلے گئے‘ یہ کیوبا میں اسپینش لوگوں کا قدیم ترین ٹاؤن تھا‘ سمندر کے کنارے واقع ہے‘ جنوبی امریکا کا قدیم ترین چرچ اسی شہر میں ہے‘ گلیاں پتھریلی اور مکان لکڑی کے ہیں‘ گھروں کے اندر صحن میں درخت لگے ہیں اور ہر گھر میں لکڑی کے جھروکے اور کھپریل کی چھتیں ہیں‘ یہ شہر دو سو سال پہلے تک غلاموں کی سب سے بڑی منڈی ہوتا تھا‘ گورے افریقہ سے غلام پکڑ کر لاتے تھے اور یہاں فروخت کر دیتے تھے‘ یہ ہر لحاظ سے ایک ایسا شہر ہے جس میں دوچار دن رہا جا سکتا ہے‘ پرانی گلیوں میں کیفے‘ بارز اور ریستوران ہیں‘ چوکوں میں لائیو میوزک بھی چلتا رہتا ہے‘ ہم نے ٹرینی ڈاڈ میں برنچ کیا‘ کھانے کی کوالٹی اور جگہ دونوں کمال تھیں‘ ہمارے ساتھی مخدوم عباس ریستوران اور مینیو کے ایکسپرٹ ہیں۔
مینیو پڑھنا‘ خوراک کا آرڈر دینا اور پھر دادی نانی کی طرح پیار سے کھلانا میں نے آج تک ان سے بہتر کوئی شخص نہیں دیکھا‘ ہم نے پرانی گلیوں میں بگھی کی سیر بھی کی اور نوادرات کی ایک ایسی دکان پر بھی گئے جو شہر کی قدیم ترین دکان تھی‘ دکان کے اندر ہی رہائش اور فیکٹری تھی‘ مالک کے آباؤاجداد دو سو سال پہلے اسپین سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے‘ وہ علاقے کی مشہور ترین فیکٹری تھی‘ شاید اسی لیے فیڈل کاسترو نے بھی اس کا وزٹ کیا تھا‘ وہ لوگ ہینڈی کرافٹ بناتے تھے۔
ہر سیاح ان کی فیکٹری ضرور وزٹ کرتا تھا‘ شہر کشیدہ کاری کے لیے بھی بہت مشہور ہے‘ ہم ایک پرانے گھر میں گئے جہاں خواتین کروشیے سے ٹیبل کلاتھ بن رہی تھیں‘ ہمیں ایک بوڑھے نے وہاں سگار بنا کر بھی دکھایا اور آخر میں ہم ایک قدیم کیفے میں چلے گئے‘ وہ دو منزلہ چھوٹی سی عمارت تھی‘ چھت پر چھوٹا سا صحن تھا‘ ہمیں دیکھ کر گانے بجانے والے وہاں پہنچ گئے اور انھوں نے اسپینش زبان کا کوئی گانا گانا شروع کر دیا‘ کیوبا میں کنوئیں کی ٹنڈ جیسا ایک ساز بجایا جاتا ہے‘ لوہے کی ٹنڈ اسٹینڈ پر کھڑی کر دی جاتی ہے اور پھر اس پرلکڑی کی دو چھوٹی چھوٹی چھڑیاں ماری جاتی ہیں اور ٹنڈ سے بڑا خوب صورت ردھم نکلتا ہے‘ وہ یہ بجاتے جاتے تھے اور گاتے جاتے تھے‘ ہم نے سبز بیلوں کے نیچے بیٹھ کر شام کی چائے پی اور اپنی آخری منزل سانتا کلارا کی طرف نکل گئے۔
سانتا کلارا کیوبا کا چھٹابڑا لیکن تاریخی شہر ہے‘ ہم نے راستے میں ایک انتہائی سرسبز اور خاموش وادی دیکھی‘ دور دور تک تاحد نظر جنگلی درخت تھے اور ان پر بیلیں چڑھی تھیں‘ وادی نے ہماری روح تک کھینچ لی‘ ہم نے گاڑی روکی اور سڑک کے ساتھ ساتھ واک کرنے لگے‘ وہاں سناٹا‘ جنگل کی خوشبو اور ہریالی تھی‘ ٹریفک اور لوگ دونوں نہیں تھے‘ ہم وہاں چلتے ہوئے اپنے دلوں اور روح میں بنتے ٹوٹتے خوابوں کی آہٹ تک سن سکتے تھے‘ آپ کی زندگی میں بعض منظر اور بعض جگہیں ایسی آتی ہیں جنھیں آپ مرنے تک بھلا نہیں سکتے‘ وہ وادی ایک ایسی ہی جگہ تھی‘ وہ اپنے مقام سے نکلی اور سیدھی میری روح کا حصہ بن گئی‘ وہ یادداشت کی ہارڈ ڈرائیو میں اتر گئی۔
سانتا کلارا بھی ایک دل چسپ شہر ہے‘ پرانا بھی ہے‘ سستا بھی اور متحرک بھی‘ ہم یہاں بھی پے انگ گیسٹ بن گئے‘ وہ سو سال پرانا کلونیل اسٹائل کا گھر تھا‘ گلی سے وہ صرف ایک دروازہ دکھائی دیتا تھا لیکن جوں ہی وہ دروازہ کھل جاتا تھا تو گھر آپ کے دل میں گھر کر لیتا تھا‘ چھتیں اونچی اور برآمدے ڈیڑھ منزلہ تھے‘ درمیان میں صحن تھا اور صحن میں فوارے کے ساتھ بیلیں لگی تھیں اور سائیڈز پر پام کے درخت تھے‘ مالک اچھا انسان تھا‘ چھت سے گرنے کی وجہ سے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور وہ ٹانگ پر پلستر چڑھا کر سارا دن ڈرائنگ روم میں پڑا رہتا تھا‘ گھر میں قیمتی پینٹنگز اور مجسمے بھی تھے اور دیواریں بھی آرٹسٹوں نے پینٹ کی تھیں‘ ہم نے اگلی صبح فوارے کے ساتھ بیلوں کے نیچے بیٹھ کر ناشتہ کیا اور وہ ہماری زندگی کے بہترین ناشتوں میں سے ایک ناشتہ تھا۔
شیف بھی کمال تھا اور ماحول بھی‘ سانتا کلارا رات کا شہر تھا‘ شہر کی ہر گلی اور ہر دوسرے تیسرے مکان سے گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں‘ ریستوران بھی اچھے ہیں اور کافی شاپس بھی‘ ہم رات کے وقت ایک کیفے کے سامنے رک گئے۔
پورے کیفے کی دیواروں پر لوگوں نے اپنے نام اور اپنے اپنے محبوبوں کے لیے پیغام لکھے تھے‘ وہ’’لو (محبت) کیفے‘‘ تھا‘ وہاں بھی لائیو میوزک چل رہا تھا‘ ہم بڑی دیر تک گانا بجانے والوں کے سامنے کھڑے ہو کر گانا سنتے رہے‘ کیوبن گلوکار بڑے دل سے گاتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے میوزک ان کا دل اور گانا ان کی روح ہے‘ آپ اگر کیوبن کو مارنا چاہتے ہیں تو آپ کیوبا میں صرف گانے بجانے پر پابندی لگا دیں‘ یہ لوگ دو دن بھی زندہ نہیں رہ سکیں گے لہٰذا اقوام متحدہ کو ان پر معاشی پابندیوں کے بجائے ان کے خلاف موسیقی کی پابندیاں لگا دینی چاہییں‘ یہ لوگ چند دنوں میں سیدھے ہو جائیں گے۔