پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
وقت بدل چکا ہے
میں نے ہنس کر عرض کیا ’’آپ کو سوچنا ہو گا‘ آپ کے پی میں نو سال مسلسل حکومت کے بعد بلدیاتی الیکشنز ہار گئے۔
پشاور سے آپ کے پانچ ایم این ایز ہیں اور11ایم پی ایز ہیں لیکن لوگوں نے میئر شپ کے لیے ووٹ جے یو آئی کو دے دیا‘ آپ کی انتخابی مہم وزیراعظم نے چلائی تھی‘ الیکشن سے قبل ہیلتھ انشورنس لانچ کر دی‘ الیکشن کمیشن نے خط لکھ کر وزیراعظم کو افتتاح سے روکا مگر وزیراعظم 8 دسمبرکو پشاور بھی آئے اور اسکیم کا فیتا بھی کاٹا اور زبردست تقریر بھی کی لیکن اس کے باوجودعوام نے آپ کو ووٹ نہیں دیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بھی فنڈز کے دروازے کھول دیے‘ یہ لوگوں کو فون پر بتا رہے تھے میرے پاس 70کروڑ روپے موجود ہیں‘ میں یہ فنڈز جیتنے والوں کو دوں گا لیکن اس کے باوجود صوابی کی چار نشستوں میں سے ایک جے یو آئی‘ایک ن لیگ اور ایک اے این پی نے حاصل کر لی‘ بنوں میں آپ کے دوایم پی ایز ہیں‘ آپ وہاں سے بھی جے یو آئی کے عرفان اللہ درانی کے ہاتھوں شکست کھا گئے اور کوہاٹ سے شہریار آفریدی اور شبلی فراز پورے حلقے کے سردار ہیں مگر آپ وہاں سے بھی ہار گئے لہٰذا صوبے کی چاروں میئرشپس آپ کے ہاتھ سے نکل گئیں۔
آپ اسی طرح 40تحصیلوں میں بھی ہارگئے اور صرف 14تحصیلوں میں کام یاب ہوئے اور وہاں بھی آپ کا مارجن بہت کم تھا لہٰذا آپ کو سوچنا پڑے گا عوام اب آپ کے ساتھ نہیں ہیں‘‘ وہ میری گفتگو کے دوران بیک وقت خوش بھی ہوتے رہے اور افسردہ بھی اور میں حیرت سے انھیں دیکھتا رہا‘ میں رکا اور پھر عرض کیا ’’مجھے آپ کے افسوس کی وجہ سمجھ آ رہی ہے لیکن آپ خوش کیوں ہیں‘ میں یہ نہیں سمجھ پا رہا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’میں اس لیے خوش ہوں کہ شاید ہم اس جھٹکے سے ہی جاگ جائیں‘ ہماری آنکھیں کھل جائیں اور ہم اپنا ہاؤس اِن آرڈر کر لیں اور افسردہ اس لیے ہوں کہ میں بھی انسان ہوں۔
میرا بھی ضمیر ہے اور ہم نے ملک کا جو حال کر دیاماضی کے حکمران شاید مل کر بھی ایسا نہ کر پائے‘ ہم عوام کی آخری امید تھے مگر ہم نے بدقسمتی سے وہ امید توڑ دی‘ ہم ملک کی آخری لبرل اور پروگریسو پارٹی ہیں‘ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں فارغ ہو چکی ہیں لہٰذا عوام نے ہم سے امیدیں وابستہ کر لی تھیں لیکن ہم ڈیلیور نہیں کر سکے‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا اور یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا ہم نے ملک میں جو پولیٹیکل گیپ پیدا کر دیا وہ اب مذہبی سیاسی جماعتیں پُر کر رہی ہیں‘ ہم بڑے فخر سے اعلان کر رہے ہیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے پی میں سیٹیں نہیں لے سکیں۔
ن لیگ کی تین اور پیپلز پارٹی کی ایک نشست آئی ہے‘ ہم اس پر خوش ہیں لیکن یہ ماتم کا وقت ہے کیوں کہ لوگوں نے پیپلز پارٹی‘ ن لیگ اور پی ٹی آئی تینوں لبرل جماعتوں کو مسترد کر کے مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو ووٹ دے دیا‘ مولانا اب اگر بلوچستان سے بھی ووٹ لے لیتے ہیں اور سندھ میں بھی تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ دوسرا پنجاب میں اگر ٹی ایل پی اپنے امیدوار کھڑے کر دیتی ہے تو یہ وہاں جے یو آئی (ایف) ثابت ہو گی‘ یہ ہم سب کو لپیٹ کر رکھ دے گی اور یہ ٹرینڈ ملک کے لیے کتنا خوف ناک ہو گا کیا ہمیں اس کا اندازہ ہے؟ لہٰذا ہمیں یہ سمجھنا ہوگا مذہبی سیاسی جماعتیں اب لوگوں کی امیدوں کا مرکز بن رہی ہیں اور یہ تبدیلی افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد کتنی خوف ناک ثابت ہو سکتی ہے آپ خود اندازہ کر لیجیے‘‘۔
وہ خاموش ہوئے تو میں نے عرض کیا ’’آپ کی ناکامیوں نے آج مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان بنا دیا ہے‘ آپ ملک کے لیے جنرل نیازی ثابت ہو رہے ہیں‘ عوام اور حکومت دو مختلف عناصر بن چکے ہیں‘ ان دونوں کی زبان تک مختلف ہے‘ حکومت کو مہنگائی‘ مہنگائی دکھائی نہیں دے رہی جب کہ عوام کو چینی کے دانے بھی چٹانیں محسوس ہو رہے ہیں‘ قرضے پہاڑ بن چکے ہیں‘ ملک پہلی مرتبہ ڈیفنس کے اخراجات بھی اٹھانے کے قابل نہیں رہا‘ عوام میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے چناں چہ یہ اب آپ پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
آپ کے تین برسوں میں ٹی ایل پی کی شکل میں پنجاب میں ایک نئی سیاسی قوت سامنے آگئی‘ یہ بریلوی اکثریت کی پہلی بڑی سیاسی جماعت ہے‘ بریلوی مکتبہ فکر کے لوگ اس سے قبل مختلف سیاسی جماعتوں میں منقسم تھے‘ اکثریت ن لیگ کے ساتھ تھی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بھی ان کے ووٹ تھے اور یہ خود بھی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں میں بٹے ہوتے تھے لیکن پھر ممتاز قادری کے واقعے نے انھیں جوڑ دیا‘ ریاست نے پاکستان مسلم لیگ ن کا ووٹ توڑنے اور آپ کو اقتدار میں لانے کے لیے انھیں سہارا دے دیا اور اس سہارے کے دوران یہ ایک بڑی سیاسی قوت بن گئی۔
31 اکتوبر 2021 کے معاہدے نے اسے مزید مضبوط اور ریاست کو کم زور کر دیا‘ مولانا فضل الرحمن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان 2013میں دوری پیدا ہو گئی‘ یہ دوری 2018کے الیکشنز میں بڑھ گئی‘ حکومت کا خیال تھا مولانا کی سیاست ختم ہو چکی ہے‘ یہ اب دوبارہ کبھی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل نہیں ہو سکیں گے لیکن کے پی کے بلدیاتی رزلٹ نے پوری سیاست کو ہلا کر رکھ دیا‘ جمعیت علماء اسلام نہ صرف پوری طاقت کے ساتھ واپس آئی بلکہ اس نے تین بڑے صوبائی شہر اپنی چادر میں بھی لپیٹ لیے چناں چہ اب صورت حال یہ ہے کے پی میں جمعیت تیزی سے ابھر رہی ہے۔
پنجاب میں ٹی ایل پی اور دونوں نیشنل پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کم زور ہو رہی ہیں جب کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی سیاسی گرفت کھو چکی ہے لہٰذا اب ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ پاکستان کے بارے میں قومی اور بین الاقوامی تاثر تھا عوام مولوی کو مال بھی دے دیتے ہیں اور ان کے حکم پر جان بھی لیکن یہ انھیں ووٹ نہیں دیتے‘ 1947میں بھی عوام جلسے امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے گرماتے تھے لیکن ووٹ انھوں نے قائداعظم کو دیا تھا لیکن اب یہ صورت حال بدل رہی ہے‘ ملک میں پہلی بار مولویوں کو ووٹ بھی پڑ رہے ہیں اور یہ ریاست کو پسپائی پر بھی مجبور کر رہے ہیں اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا پوری دنیا اس سے واقف ہے‘‘۔
وہ تھوڑی دیر سوچتے رہے اور پھر پوچھا ’’آپ کے ذہن میں کوئی حل آتا ہے‘‘ میں نے ہنس کر عرض کیا ’’حل بہت سادہ اور آسان ہے‘ عمران خان کو میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بیٹھنا ہوگا‘ یہ تینوں بیٹھیں اور ملک کا سیاسی مستقبل طے کریں ورنہ یہ صورت حال ملک کو مزید انارکی میں لے جائے گی‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’گویا آپ ہمیں کرپٹ لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کا مشورہ دے رہے ہیں‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور عرض کیا ’’آپ کرپٹ لوگوں کے ساتھ پہلے سے بیٹھے ہیں۔
کیا حکومت میں اس وقت چینی‘ آٹا‘ ادویات اور کھاد مافیا موجود نہیں‘ کیا لوگ اس وقت اربوں روپے کی دیہاڑی نہیں لگا رہے؟ آپ اگر ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو باقی لوگوں کے ساتھ بیٹھنے میں کیا حرج ہے؟ دوسرا اگر مولانا فضل الرحمن‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کرپٹ ہیں تو حکومت ابھی تک عدالتوں میں یہ ثابت کیوں نہیں کر سکی‘ آج تک کیا ریکوری ہوئی ؟ لوگ اب اس بیانیے سے بے زار ہو چکے ہیں‘ اپوزیشن کی کرپشن کی کہانیاں حکومت کی بیڈ گورننس اور کم زور پرفارمنس کے پیچھے چھپ چکی ہیں۔
آپ نے بری حکمرانی کا اتنا بڑا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے کہ لوگوں کو اب اپوزیشن کی کرپشن نظر ہی نہیں آتی‘ وزیراعظم تقریر کرتے ہیں تو لوگوں کی ہنسی نکل جاتی ہے اور یہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں عمران خان کس ملک کی بات کر رہے ہیں؟ وزیراعظم کا پاکستان ہمارا پاکستان تو نہیں ہو سکتا‘ ہم شاید افریقہ میں رہ رہے ہیں اور یہ امریکا کی کسی ریاست کو پاکستان سمجھ رہے ہیں چناں چہ بہتر یہی ہے حکومت اور اپوزیشن اکٹھی بیٹھے‘ اگلے الیکشن فری اینڈ فیئر کرنے کا فیصلہ کرے‘ معاشی اصلاحات کرے‘ گورنمنٹ اپنا وقت پورا کرے اور ملک اگلے الیکشن کے بعد استحکام کی طرف بڑھے‘ عمران خان میدان میں کھڑے رہیں‘ عوام نے اگر چاہا تو یہ دوبارہ منتخب ہو کر واپس آ جائیں گے‘ اقتدار سے چمٹے رہنے کی ان کی خواہش اس ملک کو مزید تباہ کر دے گی۔
آپ کے پیدا کردہ سیاسی خلاء کو مذہبی سیاسی جماعتیں پُر کریں گی اور اس سے ملک کی ہیت مکمل طور پر بدل جائے گی‘ افغانستان کا حشر ہمارے سامنے ہے‘ طالبان کی حکومت آئی لیکن یہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تک پوری نہیں کر پا رہی اور یہ اب بیرونی امداد کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔
یہ لوگ اس امداد کے لیے اپنے بنیادی نظریات تک کی قربانی دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں لہٰذا ہمیں تاریخ اور جغرافیے سے سیکھنا چاہیے‘‘ وہ سنتے رہے اور ہنستے رہے‘ میں خاموش ہوا تو وہ بولے ’’ہمارے پاس اب کتنا ٹائم ہے‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر پوچھا ’’کیا پشاور‘ مردان‘ کوہاٹ اور بنوں کے بعد بھی آپ یہ پوچھ رہے ہیں؟ میں وقت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن اتنا جانتا ہوں وقت اب آپ کا نہیں رہا‘ یہ بدل چکا ہے‘ آپ اس حقیقت کو جتنا جلد سمجھ جائیں گے اتنا آپ اور اس ملک کے لیے بہتر ہو گا ورنہ کوئی اس ملک کا وزیراعظم بننے کے لیے تیار نہیں ہوگا‘‘۔