معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ماموں میر شکاری اور فیتے کی پیمائش
شاہ جی نے پوچھا کہ کبھی آپ نے ماموں میر شکاری کا قصہ سنا ہے؟ ہماری جانے بلا‘ ہم نے انکار کر دیا۔ شاہ جی کہنے لگے تو پھر سنو‘ ماموں کا اصلی نام تو خدا جانے کیا تھا مگر علاقے بھر کے لوگ انہیں ان کے منہ پر ماموں میر شکاری اور غیر موجودگی میں ماموں گپ باز کے نام سے پکارا اور یاد کیا کرتے تھے۔ وہ محلے بھر میں نہایت مقبول اور ہر دلعزیز اپنے ایک بھانجے کی وجہ سے جگت ماموں بن چکے تھے۔ ہر چھوٹا بڑا ان کو ماموں کہتا تھا۔ ماموں کی شخصیت میں درجہ بدرجہ تین چیزیں بہت اہم تھیں۔ پہلی یہ کہ ماموں ایک اوسط درجے کے ریٹائرڈ شکاری تھے؛ تاہم ان کی زندگی کا محور ان کے شکار کے قصے تھے۔ دوسری یہ کہ وہ بہت جلدی غصے میں آ جاتے تھے؛ تاہم ان کا غصہ فوری طور پر ٹھنڈا بھی ہو جاتا تھا اور تیسری یہ کہ وہ بہت ہی اعلیٰ قسم کے گپ باز تھے اور یہ ساری گپیں شکار کے قصوں پر مبنی تھیں۔ گپ وہ اتنی لمبی چھوڑتے کہ لوگوں کی ہنسی چھوٹ جاتی جس پر وہ فوراً غصے میں آ جاتے؛ تاہم سامعین فوراً ہی اپنی ہنسی کا کوئی الٹا سیدھا جواز تراش دیتے اور ماموں اس پر جھٹ یقین کر کے اپنا غصہ تھوک دیتے اور قصہ وہیں سے دوبارہ شروع کر دیتے۔
ماموں کے بقول وہ جم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن سے کہیں بڑے اور بہادر شکاری تھے مگر وہ ہر دو حضرات صرف انگزیز ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر مشہور و معروف ہو گئے مگر ماموں نے ان سے بڑے بڑے شکار کیے تھے اور ان انگریزوں کے مقابلے میں ان کے پاس دوربین لگی رائفلوں کے بجائے محض بارہ بور کی بندوق تھی جس سے انہوں نے اپنے محیرالعقول شکاری کارنامے سرانجام دیے بلکہ اس کارتوسوں والی بارہ بور کی بندوق‘ جو خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی‘ سے پہلے وہ توڑے دار بندوق جسے وہ ”بھرمار‘‘ کہتے تھے‘ سے شکار کیا کرتے تھے۔ دو انچ موٹی بیرل والی اپنی اس قدیم توڑے دار بندوق سے‘ جو دنیا میں صرف دو عدد تیار ہوئی تھیں‘ انہوں نے درجنوں ہاتھی‘ گینڈے اور ایک عدد دریائی گھوڑا بھی مارا تھا۔ ان قصوں کے درمیان کوئی نہ کوئی شریر سامع جزوی سوالات بھی کر دیتا۔ کسی نے پوچھا کہ آپ نے دریائی گھوڑا کہاں شکار کیا تو ماموں نے بلاتوقف بتا دیا کہ انہوں نے یہ دریائی گھوڑا دریائے جمنا میں مارا تھا۔ کسی ستم ظریف نے کہہ دیا کہ دریائی گھوڑے تو صرف افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔ بس ماموں کو تاؤ آ گیا اور انہوں نے آگے قصہ سنانے سے انکار کر دیا۔ سب نے منت سماجت کرنے کے ساتھ ساتھ سوال کرنے والے معترض کی ڈانٹ پھٹکار کی تو ماموں قصہ دوبارہ شروع کرنے پر راضی ہوگئے۔ اور کہنے لگے کہ اب اس بچے کو کیا پتا کہ دریائی گھوڑا کتنا عظیم الجثہ‘ کتنا طاقتور اور کتنا بڑا تیراک ہوتا ہے۔ وہ تھا تو افریقی دریائی گھوڑا ہی لیکن تیرتا تیرتا افریقہ سے دریائے جمنا میں آ گیا تھا۔ پھر اس شرپسند لڑکے کو مخاطب کر کے کہنے لگے: برخوردار! بھلا اب کسی نے اس دریائی گھوڑے سے سمندر کے ذریعے ہندوستان میں داخلے پر پاسپورٹ اور ویزہ تھوڑا طلب کرنا تھا؟ سب نے ماموں میر شکاری کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کرتے ہوئے اعتراض کرنے والے لونڈے کو ایک بار پھر شرمندہ کیا۔
باقی تو سب خیر تھی لیکن محلے کے نوجوان بعد میں بھانجے کو اس کے ماموں کی گپ بازی‘ لاف زنی اور لمبی لمبی چھوڑنے پر چھیڑتے۔ تنگ آ کر بھانجے نے اپنے ماموں کو کہا کہ وہ اپنے شکار کے قصے سناتے ہوئے محتاط قسم کی پیمائش اور وزن بیان کیا کریں۔ اب بھلا دس سیر تین پاؤ اور دو چھٹانک کا تیتر بھی ہوتا ہے؟ ماموں ہمیشہ وزن سیروں میں اور پیمائش گزوں اور فٹوں میں بتایا کرتے تھے۔ بقول ان کے جب انہوں نے اپنے شکار کردہ جانوروں کا وزن یا پیمائش کی تھی تب وزن اور پیمائش کے یہی پیمانے رائج تھے۔
ایک روز تو حد ہی ہو گئی۔ ماموں میر شکاری اپنی پوری ترنگ میں تھے اوپر سے لڑکوں بالوں نے کسی خوفناک شکار کے قصے کا مطالبہ کر دیا۔ تب نوجوانوں کے پاس موبائل تو تھے نہیں کہ اس میں مگن رہتے۔ لے دے کر اسی قسم کی مصروفیات تھیں۔ ماموں نے قصہ سنانا شروع کر دیا۔ شومیٔ قسمت کہ اس روز اس محفل میں بھانجا بذاتِ خود موجود تھا۔ اب ماموں حسبِ معمول لمبی لمبی چھوڑ رہے تھے۔ ماموں کی ہر گپ پر لڑکے اپنے دوست کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور بھانجا اپنے ماموں کی لاف زنی اور دوستوں کی حرکتوں سے شرمندہ ہو رہا تھا‘ اوپر سے ماموں نے مبالغے کی حد کر دی۔ کہنے لگے: اندھیری رات تھی‘ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ جنگل میں ہُو کا عالم تھا اور پتا بھی گرتا تو دل دہل جاتا تھا۔ اندھیرا ایسا گھپ اور گھٹا ٹوپ کہ اس کی مثال دینا مشکل ہے۔ اچانک میرے چاروں طرف چمکتی ہوئی آنکھیں نمودار ہو گئیں۔ میں نے ایک نظر میں اندازہ لگا لیا کہ یہ بارہ سو آنکھیں ہیں‘ نہ ایک کم نہ ایک زیادہ۔ پہلے تو میں تھوڑا گھبرایا کہ کیا کروں؟ پھر میں نے اپنے شکاری تھیلے سے دو کلو بارود نکالا اور گن کر بارہ سو چھرے اپنی توڑے دار بندوق میں بھر لیے۔ کسی نے بارود کی مقدار اور چھروں کی تعداد پر انگلی اٹھائی تو اسے ڈانٹ کر کہنے لگے: میں کئی بار پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس قسم کی دو انچ دہانے والی آج تک صرف دو ہی بندوقیں بنی ہیں۔ میں نے بارہ سو چھرے اور دوکلو بارود بھرا‘ شست لی اور فائر کر دیا۔ بارہ کی بارہ سو آنکھیں اس ایک فائر سے مر گئیں۔ کسی نے پوچھا ماموں! یہ بارہ سو آنکھیں تھیں کس کی؟ ماموں غصے سے کہنے لگے: اتنے اندھیرے میں مجھے اپنی آنکھیں دکھائی نہیں دے رہی تھی‘ بھلا میں یہ کیسے دیکھتا کہ یہ کس کی آنکھیں ہیں؟ بس اتنا پتا ہے کہ ساری کی ساری مر گئی تھیں۔ سب لڑکے ماموں کے سامنے تو چپ رہے مگر بعد میں انہوں نے بھانجے کا خوب مذاق اڑایا۔
اب بھانجے کی قوتِ برداشت جواب دے گئی اور اس نے ماموں کو کہا کہ لوگ آپ کے پیچھے آپ کی لاف زنی اور گپوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ آپ ہاتھ ہلکا رکھا کریں۔ ماموں کہنے لگا: جب میں مبالغہ کروں تم کھانس دیا کرو‘ میں درستی کر لوں گا۔ دوچار دن بعد وہ دریائے برہم پترا میں ایک آدم خور اور خونخوار مگرمچھ کے شکار کا واقعہ سناتے ہوئے جب بدقت ہزار مگرمچھ کو مارنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کی لمبائی کے بارے میں مبالغے کی حد کرتے ہوئے کہنے لگے کہ مگرمچھ سو گز لمبا تھا۔ بھانجا کھانسا تو ماموں نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ دور سے تو سو گز کا لگ رہا تھا لیکن نزدیک جا کر دیکھا تو ستر گز لمبا تھا۔ بھانجا پھر کھانسا تو ماموں کہنے لگے جب بالکل قریب گیا تو دیکھا پچاس گز کا ہے۔ بھانجا پھر کھانسا تو ماموں کہنے لگا: میں نے سوچا اس کا ناپ کر لوں۔ جب فیتے سے ناپا تو وہ چالیس گز کا نکلا۔ بھانجا پھر کھانسا توماموں میر شکاری کہنے لگے‘ بیٹا اب کوئی فائدہ نہیں۔ اب میں فیتے سے ناپ چکا ہوں۔ یہ کہانی سنا کر شاہ جی خاموش ہو گئے۔
میں نے کہا شاہ جی! اس کہانی کا کوئی مقصد‘ کوئی نتیجہ یا سر پیر کم از کم مجھے تو سمجھ نہیں آیا۔ آپ کیاکہنا چاہ رہے ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے۔ وزیر آباد میں خان صاحب پر حملہ ہوا تو پتا چلا کہ ایک گولی لگی ہے۔ پھر ڈاکٹر نے بتایا کہ چار چھرے لگے ہیں۔ پھر پتا چلا کہ دو گولیاں لگی ہیں۔ خالی خولوں سے پتا چلا کہ پستول اور ایس ایم جی سے فائر ہوئے ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ اے کے 47 کی گولی لگی ہے۔ میرا خیال ہے اب وقت آ گیا ہے کہ فیتے سے پیمائش کر لی جائے تاکہ معاملہ کہیں تو جا کر ٹھہرے۔ کل کلاں معاملہ مشین گن تک نہ پہنچ جائے۔ میں نے کہا: شاہ جی! اللہ آپ پر رحم کرے۔ آپ کسی روز ضرور پی ٹی آئی والوں سے پٹیں گے۔