پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
ویسپا سکوٹر‘ تاریخی عمارات اور تجاوزات
پراگ میں جو بات سب سے مزے کی تھی وہ یہ کہ یہاں میری ملاقات کسی بھی پاکستانی سے نہیں ہوئی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ادھر کوئی پاکستانی تھا ہی نہیں۔ تاہم مجھے نہیں ملا اور میں ملکی حالات کی جوابدہی سے مکمل محفوظ رہا۔
صبح ہوٹل سے باہر نکلا تو ایک دم ٹھٹھک سا گیا۔ ہوٹل کے بالکل ساتھ والے بڑے حویلی نما دروازے کے ساتھ ایک نیا نکور لشکتا ہوا نارنجی رنگ کا سکوٹر کھڑا ہوا تھا۔ یورپ میں کئی قسم کے سکوٹر ہوں گے مگر میرے دل نے پکارا کہ ہو نہ ہو یہ ویسپا سکوٹر ہے۔ آگے جا کر سامنے والے حفاظتی چھجے پر نظر دوڑائی تو دائیں طرف اسی مخصوص جگہ پر Vespa لکھا ہوا تھا۔ 1946ء میں اٹلی کی کمپنی پیاجیو کا بنا ہوا ویسپا سکوٹر شاید دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والا سکوٹر ہے۔ کبھی یہ پاکستان میں معززین کی سواری ہوتی تھی۔ پاکستان میں نیلے رنگ کا سکوٹر آتا تھا۔ ابا جی مرحوم نے 1963ء میں ویسپا سکوٹر خریدا تھا۔ مجھے اب اچھی طرح تو یاد نہیں کہ اس کی قیمت کیا تھی لیکن یادداشت میں موہوم سا شائبہ پڑتا ہے کہ شاید ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ کاخریدا تھا۔ چوک شہیداں میں ہومیو پیتھک پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر عزیز الرحمان اور ابا جی نے ایک ساتھ یہ سکوٹر حسین آگاہی کے ڈیلر کے پاس بک کروایا تھا اور کئی ماہ کے بعد بالآخر یہ انہیں مل ہی گیا۔ تب پورے ایمرسن کالج میں بمشکل دو تین پروفیسروں کے پاس سکوٹر تھے۔ ”اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے‘‘ جیسی مشہور نظم کے خالق پروفیسر عرش صدیقی جن کا اصلی نام ارشاد الرحمان تھا کالج اپنے لمبریٹا سکوٹر پر آیا کرتے تھے۔ ویسپا اور لمبریٹا سکوٹر میں ظاہری فرق یہ تھا کہ ویسپا سکوٹر کا فالتو ٹائر یعنی سٹپنی پیچھے بیٹھنے والی سواری کے بعد کھڑے رخ لگی ہوتی تھی جس سے پیچھے بیٹھنے والی سواری ٹیک لگا کر یا سہارا لے کر بیٹھ سکتی تھی جبکہ لمبریٹا سکوٹر کی سٹپنی بالکل سیدھی بچھی ہوئی ہوتی تھی جس کی وجہ سے یہ سکوٹر ویسپا کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ لمبا لگتا تھا۔ ایک ویسپا سکوٹر فزکس کے پروفیسر عبدالرحمان صاحب کے اور دوسرا بیالوجی کے استاد ریاض خدائی صاحب اور تیسرا ابا جی کے پاس تھا۔مجھے نہیں یاد کہ تب کسی اور پروفیسر کے پاس سکوٹر تھا۔ کیمسٹری کے استاد عبدالخالق صاحب کالج کے واحد پروفیسر تھے جن کے پاس نیلے رنگ کی مزدا گاڑی تھی۔ تب موٹر سائیکل وغیرہ لڑکے بالے استعمال کیا کرتے تھے۔ مجھے نہیں یاد کہ کسی پروفیسر کے پاس موٹر سائیکل ہو۔ ہاں البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ درجنوں پروفیسر سائیکل پر کالج آیا کرتے تھے۔ فارسی کے استاد یوسف خورشید صاحب نواں شہر سے بوسن روڈ پر واقع ایمرسن کالج آنے کیلئے پیدل اور تانگے کا ملا جلا استعمال کرتے تھے۔ ہم نے اکثر ان کو پیدل چلتے اور کبھی کبھار تانگے پر سوار دیکھا تھا۔ کسی پروفیسر کو گاڑی نہ ہونے کے ملال میں اور کسی پروفیسر کو سائیکل پر آنے کی بنیاد پر احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں دیکھا۔ کالج کے پرنسپل ملک محمد یار صاحب کو ہمیشہ پیدل کالج آتے دیکھا۔ عزت اور تکریم کا پیمانہ پیسہ‘ گاڑی اور بنگلہ نہیں تھا۔ لیکن یہ ”تب‘‘ کی بات ہے‘پھر تو گویا سب کچھ ہی تبدیل ہو گیا۔
دو چار سال پہلے ایمرسن کالج گیا تو داخلی گیٹ کے دائیں ہاتھ والا سرسبز گراؤنڈ کار پارکنگ میں بدل چکا تھا۔ پرانا سائیکل سٹینڈ اب صرف نام کا سائیکل سٹینڈ تھا اس میں شاید ایک بھی سائیکل نہیں تھا۔ سینکڑوں موٹر سائیکلیں تھیں تاہم ملال یہ ہوا کہ ان سینکڑوں موٹر سائیکلوں میں ایک بھی سکوٹر نہیں تھا۔ کبھی ملتان میں بیسیوں سکوٹر ہوا کرتے تھے اب عرصے سے اس معززانہ سواری کی شکل دکھائی نہیں دی۔ ہوٹل کے باہر کھڑے ہوئے اورنج رنگ کے ویسپا سکوٹر نے یادوں کا ایسا دریا بہایا کہ میں پراگ سے ایمرسن کالج پہنچ گیا۔
یورپ کی مشترکہ کرنسی یورو ہے جو یورپین یونین کے تمام ممالک میں چلتی ہے۔ یورو آنے کے بعد یورپی یونین کے کئی ممالک میں ان کی پرانی کرنسی کا استعمال متروک ہو گیا ہے تاہم بہت سے ممالک ابھی بھی اپنی پرانی کرنسی استعمال کر رہے ہیں۔ گو کہ یہاں یورو بھی بلادقت چلتا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ روپے کی بے قدری کے بعد ہر چیز اتنی مہنگی لگتی ہے کہ خریدنے سے پہلے بندہ کئی بار یورو کو ساڑھے تین سو سے ضرب دیتا ہے اور پھر سوچتا ہے کہ خریداری کی جائے یا اس کے بغیر گزارہ کیا جائے۔ تاہم دل پر پتھر رکھنا ہی پڑتا ہے کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یورپ میں عمارتیں ایسی مضبوط اور پائیدار ہیں کہ سینکڑوں سال سے جمی کھڑی ہیں۔ سخت پتھر سے بنی ہوئی عمارتیں موسم کی سختی اور ماہ و سال کی گردش سے بے پروا ایسے موجود ہیں کہ لگتا ہے ابھی دوچار برس بیشتر ہی مستری اسے مکمل کر کے نکلے ہیں۔ کراچی کی پرانی عمارتیں جو روایتی پیلے رنگ کے سینڈ سٹون سے بنی ہوئی ہیں امتدادِ زمانہ کے تھپیڑوں اور لاپروائی کے باوجود اگر آج بھی موجود ہیں تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ پتھر سے بنی ہوئی ہیں لیکن مسلسل لاپروائی اور عدم دیکھ بھال سے برباد ہو رہی ہیں۔ چند ماہ قبل میں کراچی گیا تو برادرم رستم لغاری کے ہمراہ اردو بازار چلا گیا۔ وہاں ایک دو کتابوں والوں سے کچھ کتابیں خریدنا تھیں۔ گاڑی باہر سڑک پر کھڑی کی اور اردگرد نظر دوڑائی تو نہایت ہی افسوس ہوا کہ کیسی کیسی عالی شان اور خوبصورت عمارتیں برباد ہو رہی ہیں۔ جہاں سے بھی کوئی حصہ ٹوٹا اسے اس برے طریقے سے مرمت کیا گیا کہ اصل شکل و صورت اور خوبصورتی برباد ہو گئی۔اکثر عمارتوں میں توسیع‘ تبدیلی یا تقسیم اس طرح کی گئی تھی کہ اس بے جوڑ پن نے سارا حسن تو برباد کیا ہی تھا عمارت کی ساری ہیئت بھی تبدیل کر دی۔
کراچی کی ایسی ایسی خوبصورت عمارتیں تھیں جو دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اس حالت پر پہنچ چکی ہیں کہ آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ اگر یہ عمارتیں یورپ میں ہوتیں تو ابھی مزید کئی سو سال تک جمی رہ سکتی تھیں کیونکہ وہاں ایسی عمارتیں قومی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرلی جاتی ہیں اور شہری حکومت ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ دار ہو جاتی ہے۔ برسوں پہلے میں برطانیہ کے شہر ریڈنگ کے نواحی قصبے ”ہنلے ایٹ تھیمز‘‘ گیا تو وہاں ایک گھر سات سو سال قدیم تھا اور اس کی دیکھ بھال و مرمت کا سارا ذمہ سٹی کونسل نے اپنے ذمے لیا ہوا تھا۔ لاہور مال روڈ پر عرصہ ہوا کئی عمارتوں کو شہر کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ قرار دے کر لازم کیا گیا کہ ان کی باہر والی شکل و صورت تبدیل نہیں ہو سکتی اور اسے بدنما نہیں کیا جا سکتا۔ تھوڑا عرصہ تو اس پر عمل ہوا لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ پرانی ڈگر پر آ گیا۔
عزیزم گلاب خان کے ساتھ برمنگھم کے نواح میں کھیتوں کے درمیان بنے ہوئے ایک ریستوران The Viewمیں کافی پینے گیا تو اس کی مالکن لیانا جو گلاب خان کی شناسا ہے ساتھ مہمان دیکھ کر معذرت کرنے آ گئی کہ ٹاؤن کونسل اسے اس کی اپنی ملکیتی تین سو ایکڑ زمین میں کار پارکنگ کا رقبہ بڑھانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ ادھر یہ عالم ہے کہ ملتان میں بارہا قدیمی اور تاریخی عمارات کے اردگرد ہونے والی تجاوزات کو ختم کرنے کا اعلان ہوا اور بے دلی سے مہم بھی شروع کی گئی جو کہیں درمیان میں ہی رہ گئی۔ آج بھی ملتان کے تاریخی گھنٹہ گھر کے اردگرد موجود تجاوزات جو کمرشل دکانوں کی شکل میں موجود ہے مکمل طورپر ختم نہیں کروائی جا سکی اور تاریخی بوہڑ دروازے کی عمارت کے اندر گھسی ہوئی تعمیرات نہیں ہٹائی جا سکیں‘ حالانکہ یہ ایسی ناجائز تجاوزات ہیں جو اندھے کے علاوہ سب کو دکھائی دیتی ہیں۔ ہاں! البتہ یہ بات اور کہ ضلعی انتظامیہ اندھی ہے اور عدالتیں حکم امتناعی دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔