معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
کیا قائداعظم غلط تھے؟
قائداعظم محمد علی جناح سے کسی نے پوچھا تھا ’’آپ پاکستان کس کے لیے بنا رہے ہیں؟‘‘ قائداعظم نے جواب دیا ’’ہندوستان کی مسلمان قوم کے لیے‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا ’’کیا ہندوستان کے مسلمان قوم ہیں؟‘‘ آپ نے جواب دیا ’’ نہیں ہیں لیکن یہ بن جائیں گے‘‘ اور پوچھنے والے نے پوچھا ’’یہ کتنے عرصے میں قوم بنیں گے؟‘‘ قائداعظم نے سنجیدگی سے جواب دیا ’’سو سال لگیں گے۔‘‘
میں نے یہ واقعہ مدت پہلے کسی کتاب میں پڑھا تھا‘ کتاب کا نام کیا تھا اور یہ کس نے لکھی تھی میں یہ بھول گیا ہوں لیکن یہ واقعہ میرے دماغ سے چپک کر رہ گیا اور مجھے جب بھی یہ یاد آتا ہے تو میں دیر تک سردھنتا رہتا ہوں‘ قائداعظم کوا للہ تعالیٰ نے واقعی وزڈم (بصیرت) سے نواز رکھا تھا۔
وہ اس قوم اور اس قوم کے ایشوز سے پوری طرح واقف تھے‘ آپ آج بھی ان کی تقریریں نکال کر دیکھ لیں آپ کو ان میں پاکستان کا ماضی‘ حال اور مستقبل صاف نظر آ جائے گا‘ مثلاً آپ قائداعظم کے دو مشہور ترین اقوال کو لے لیں‘ یہ قول بچے بچے کو ازبر ہیں‘ قائداعظم نے قوم کو 80 سال قبل مشورہ دیا تھا ’’کام‘ کام اور کام‘‘ آپ قائد کی تشخیص ملاحظہ کیجیے۔
وہ 80 سال قبل جانتے تھے میں جس قوم کی قیادت کر رہا ہوں وہ ٹھیک ٹھاک کام چور ہو گی چناں چہ انھوں نے ہمیں وصیت کی‘ بیٹا بس ایک ہی کام کرو‘ کام‘ کام اور کام لیکن آپ ہماری کام چوری دیکھیے‘ ہم سب کچھ کریں گے مگر کام نہیں کریں گے‘ آپ اس ملک میں کسی شخص سے کام کرا کر دکھا دیں‘ میں پھولوں کے ہار لے کر آپ کے گھر آ جاؤں گا۔
آپ کام کو بھی چھوڑ دیجیے‘ ہم کام نہیں کرتے‘ کوئی ایشو نہیں مگر مسئلہ یہ ہے ہم کسی دوسرے کو بھی نہیں کرنے دیتے‘ ہماری گلی میں ایک اینٹ اکھڑی ہو‘ لوگ روز ٹھڈا کھائیں گے اسے ٹھیک نہیں کریں گے لیکن اگر کسی نے اسے ٹھیک کرنے کی غلطی کر دی تو پھر پورا محلہ اس کے خلاف جہاد شروع کر دے گا‘ آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو ہر گھرمیں صرف ایک شخص جیسے تیسے کچھ نہ کچھ کرتا نظر آئے گا۔
باقی سارا خاندان چارپائیاں توڑ رہا ہو گا اور جب خاندان توڑ توڑکر تھک جائے گا تو پھر اسی کے خلاف اعلان جہاد کر دے گا جس نے سب کا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور یہ ایک آدھ خاندان کی کہانی نہیں‘ یہ پورے معاشرے‘ پورے ملک کا المیہ ہے لہٰذا ہم اگر کام یاب ہونا چاہتے ہیں یا اس ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں قائداعظم کی وصیت پر عمل کرنا ہوگا یعنی کام‘ کام اور بس کام‘ ہم سب کام کریں گے تو ہی یہ قوم‘ قوم بنے گی‘ہم تب ہی ترقی کرسکیں گے‘ آپ اب قائداعظم کا دوسرا فقرہ بھی ملاحظہ کیجیے۔
قائداعظم نے 75 سال قبل کام کے بعد ایک ہی فقرے میں اس قوم کے تین المیوں کا ذکر کیا تھا اور وہ تھے ’’یونٹی‘ فیتھ اور ڈسپلن‘‘ ہم اسے اردو زبان میں ’’اتحاد‘ ایمان اور تنظیم‘‘ کہتے ہیں اور یہ ہمارا نیشنل موٹو بھی ہے‘ آپ قائداعظم کی وزڈم دیکھیے‘ وہ 75 سال پہلے بھانپ گئے تھے ہمارے ڈی این اے میں یونٹی (اتحاد) نہیں ہے‘ ہم ایک منقسم قوم ہیں لہٰذا ہمیں اپنے اندر یونٹی پیدا کرنا ہوگی۔
کیا قائداعظم کی یہ تشخیص بھی غلط تھی؟ کیا ہم آج بھی یونٹی کے بحران کا شکار نہیں ہیں؟ ہم شروع میں بنگالی اور پنجابی میں تقسیم تھے‘ ہمارا وہ نفاق ہمارا آدھا ملک کھا گیا مگر ہم اس کے باوجود باز نہ آئے اور ہم نے ملک میں بلوچی‘ سندھی‘ پنجابی اور پشتونوں کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا دی‘ یہ تقسیم مزید آگے بڑھی اور ہم نے قوم کو شیعہ اور سنی اورپھر سنیوں کو بھی اہل حدیث‘ بریلوی‘ دیوبندی اور وہابی میں تقسیم کر دیا‘ ہمارا قرآن ایک ہے۔
رسولؐ بھی ایک ہے لیکن ہماری مسجدیں الگ الگ ہیں‘ کیا دنیا میں کوئی قوم اس بے اتفاقی کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے؟ اگر ہاں تو پھر ہمیں اپنا نفاق گلیوں‘ محلوں اور خاندانوں تک پھیلا دینا چاہیے اور اگر نہیں تو پھر ہمیں بہرحال قائداعظم کی تشخیص پر غور کرنا ہوگا‘ ہمیں لانگ مارچ اور سول ملٹری تقسیم ختم کر کے یونٹی اختیار کرنا ہو گی‘ آپ اب فیتھ کو بھی لے لیجیے‘ ہم نے فیتھ کا ترجمہ ایمان کر رکھا ہے جب کہ اس کا اصل ترجمہ یقین ہوتا ہے۔
ہم نے کیوں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پکوڑوں‘ کھجوروں اور شربت کو بھی اسلام کا حصہ بنا دیا تھا چناں چہ ہم نے فیتھ کو بھی ایمان ڈکلیئر کر دیا جب کہ اصل حقیقت یہ ہے قائداعظم نے کوئی اسلامی ملک نہیں بنایا تھا‘ آپ نے صرف ایک ایسا ملک بنایا تھا جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو گی۔
قائداعظم اگر اسلامی ملک بناتے تو پھر ملک کے پہلے وزیر قانون ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل اور پہلے وزیرخارجہ ایک احمدی سرظفر اللہ چوہدری نہ ہوتے‘یہ حقیقت ہے قائداعظم کی نظر میں فیتھ کا مطلب ایمان نہیں تھا‘ یقین تھا اور جنرل ضیاء الحق کے اسلامی انقلاب تک سرکاری اسٹیشنری پر فیتھ کا مطلب یقین ہی لکھا جاتا تھا۔
ہمارے قومی ترانے میں بھی کسی جگہ ایمان‘ مذہب یا اسلام کا لفظ نہیںآیا تاہم یقین کا لفظ ضرور موجود ہے اور وہ ہے ’’مرکز یقین شادباد‘‘ہم اپنے ترانے میں 75 برسوں سے نظام کی تعریف بھی ’’قوت اخوت عوام‘‘ کرتے آ رہے ہیں اور اخوت کیا ہوتی ہے؟ یونٹی چناں چہ اگر قائداعظم کی نظر میں فیتھ کا مطلب ایمان ہوتا تو پھر حفیظ جالندھری یقینا مرکز ایمان شادباد لکھتے اور یہ نہیں ہوا لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں یہ ترجمہ غلط ہوا تھا اور فیتھ بہرحال یقین ہوتا ہے اور قائداعظم جانتے تھے ہم من حیث القوم یقین کی دولت سے محروم ہیں اور اگر ہم زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے اوپر یقین کرنا ہوگا۔
آپ اب دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کیا قائداعظم کی یہ آبزرویشن بھی غلط تھی؟ کیا ہم من حیث القوم یقین سے محروم نہیں ہیں؟ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی شخص کے پاس کھڑے ہو جائیں اور آپ اس سے کچھ بھی پوچھ لیں آپ کو اس کے لہجے میں کھوکھلا پن ملے گا‘ وہ یقین سے محروم ہو گا‘ آپ کل کسی سے کسی جگہ کا ایڈریس ہی پوچھ لیں آپ کو چند سیکنڈ میں پتا چل جائے گا‘ ہم یقین پر کتنا یقین کرتے ہیں۔
قائداعظم کی تیسری تشخیص ڈسپلن (نظم وضبط) تھا‘ یہ جانتے تھے یہ ایک ایسی قوم کی قیادت کر رہے ہیں جو آنے والے دنوں میں نظم وضبط کے شدید بحران کا شکار ہو گی لہٰذا آپ آج دیکھ لیں کیا ہمارے ملک میں کسی بھی جگہ ڈسپلن پایا جاتا ہے؟ ہم مسجدوں میں بھی ڈسپلن پیدا نہیں کر سکے۔
ہم آج بھی گند صاف کرنے والے کو چوہڑا کہتے ہیں (جب کہ اصل چوہڑے گند پھیلانے والے ہوتے ہیں) لوگ اپنا واش روم‘ اپنی پلیٹ اور اپنا جوتا بھی صاف کرنا پسند نہیں کرتے اور یہ قطار میں کھڑا ہونا اور اپنی باری کا انتظار کرنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں‘میں ایئرپورٹس پر صاحب لوگوں کو دیکھتا ہوں ان کے بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ بھی کسی دوسرے نے اٹھا رکھے ہوتے ہیں جب کہ دوسرے ملکوں میں صدر اور وزراء اعظم اپنے بیگ خود کیری کرتے ہیں۔
یہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں اور اپنے لان کی گھاس بھی خود کاٹتے ہیں‘ ملک میں وقت پر پہنچنا‘ وقت پر کام ختم کرنا اور وعدے کا پاس یہ ممکن ہی نہیں‘ آپ وقت کے پابند کسی وزیر‘ سیکریٹری یا بڑے غلام علی خان کا نام لے لیں‘ یہ لوگ غیرملکی فنکشنز میں بھی وقت کی پابندی نہیں کرتے‘ آپ وقت کو چھوڑ دیجیے‘ آپ وزیرقانون کو دیکھ لیجیے‘ یہ بھی قانون کی پابندی نہیں کرے گا۔
ہمارا جج بھی خود کو قانون سے بالاتر سمجھے گا اور اسپیکر بھی آئین کی پاس داری نہیں کرے گا‘ ملک آج بھی افسر اور ماتحت دو حصوں میں تقسیم ہے‘ سرکاری دفتروں میں افسروں کے واش رومز پر بھی آفیسر لکھا ہوتا ہے اور آفیسروں کے واش رومز میں ماتحت کو ہاتھ دھونے کی اجازت بھی نہیں ہوتی‘ ہم ملک میں آج تک لوگوں کو سرخ لائٹ پر نہیں روک سکے‘ ہم پارلیمنٹیرینز کو پارلیمنٹ‘ فوج کو آئین اور عوام کو قانون کا ماتحت نہیں بنا سکے۔
ہمارا قانون آج بھی اِف اور بٹ دو لفظوں کے گرد گھوم رہا ہے‘ بیوروکریسی if یا But لگا کر ناممکن سے ناممکن کام کو بھی ممکن اور آسان سے آسان ترین ایشو کو بھی مسئلہ کشمیر بنا دیتی ہے اور کوئی اس سے سوال تک نہیں کر سکتا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ چار سال کے عدالتی فیصلے دیکھ لیں۔
ایک ہی مقدمے پر ایک ہی عدالت تین تین قسم کے فیصلے جاری کر رہی ہے اور مجال ہے کوئی اس پر سوال اٹھا سکے لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا ہمارے ملک میں عالم دین اسلام‘ پارلیمنٹیرین پارلیمنٹ‘ جج قانون اور سول اینڈ ملٹری بیوروکریسی آئین کے ڈسپلن میں نہیں ہے لہٰذا آپ پھر خود فیصلہ کر لیجیے کیا قائداعظم اس معاملے میں بھی غلط تھے؟
میری عاجزانہ درخواست ہے آپ ملک میں کوئی تیر نہ چلائیں‘ عمران خان کوئی لانگ مارچ لے کر نہ آئیں اور پی ڈی ایم بھی کوئی نیا پہیہ ایجاد نہ کرے‘ آپ بس قائداعظم کے دو اقوال پر عمل کر لیں‘ قوم کو کام پر لگا دیں اور ملک میں یونٹی‘ فیتھ اور ڈسپلن پیدا کر دیں یہ ملک دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ کچھ بھی کر لیں‘ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور آخری بات اسلام دنیا کا واحدمذہب ہے جس میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمارا رب جانتاتھا ہم مسلمان گندے بہت ہوں گے چناں چہ اس نے صفائی کو ایمان کا حصہ بنا دیا کہ شاید ہم ایمان تلاش کرتے کرتے ہی صاف ہو جائیںگے‘ شاید ہم اسی طرح اپنے ہاتھ دھو کر خشک کر لیں۔