معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ہم سے تو آسان کام بھی نہیں ہوتے
بعض اوقات ایک ہی بات بار بار دہراتے ہوئے نہ صرف یہ کہ کوفت ہوتی ہے بلکہ یہ سوچ کر دل مزید پریشان ہوتا ہے کہ قارئین کیا سوچیں گے کہ اس بندے کو شاید نئے موضوع نہیں ملتے جو وہی با ر بار کی دہرائی ہوئی باتوں کو پھر نئے سرے سے دہرانا شروع کر دیتا ہے۔ گزشتہ تین دن سے پراگ میں ہوں اور اس شہر بھر کے ہر محلے‘ ہر گلی اور ہر سڑک پر تیسری نہیں تو چوتھی دکان سووینیئرز کی ہے۔ اتنی اقسام کے سووینیئر کہ بندہ دکان میں چلا جائے تو پریشان ہو جائے کہ کون سا چھوڑوں اور کون سا خریدوں؟
ٹی شرٹس‘ کپ‘ پلیٹیں‘ سٹکرز‘ مشہور مقامات کی تصویروں والے میگنٹ اور چھوٹے چھوٹے ماڈل۔ اس علاقے کی مشہور چیزوں کے منی ایچرز اور معمولی سی چیزوں کی اتنی شاندار مارکیٹنگ کہ بندہ خریدے بغیر رہ نہ سکے۔ اور قیمتیں ایسی کہ اگر پاکستانی روپے کی آج کل کی صورتحال کو سامنے رکھیں تو خریدنا تو رہ گیا ایک طرف بندہ دکان کے اندر ہی نہ جائے۔ مگر دکانیں ہیں کہ بھری پڑی ہیں۔ سیاح ہیں کہ ٹوٹے پڑے ہیں۔ ہوٹل اور اپارٹمنٹس بھرے پڑے ہیں۔ ریستورانوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں اور شراب خانوں کی تو پوچھیں ہی نہ۔ اور ہاں! تقریباً ہر خوردہ فروش اور گروسری کی دکان پر Cannabis سٹور کا چھوٹا سانیون سائن جگمگا رہا ہے۔ مجھے معاف کیجئے گا میری معلومات اس سلسلے میں تھوڑی ناقص ہیں کہ اب اس کا درست ترجمہ اور مفہوم کیا ہو سکتا ہے لیکن آپ اسے چرس‘ حشیش‘ گانجا وغیرہ کی کیٹیگری کی چیز سمجھ لیں۔ عام الفاظ میں آپ اسے سیدھا سیدھایکے از منشیات سمجھ لیں۔ لڑکے بالے اور سیاح فٹ پاتھ پر لگی کرسیوں پر کھلے عام چرس کے سگریٹوں سے حظ لے رہے ہیں۔ ہوا میں دور دور تک چرس کی بو اپنی موجودگی اور استعمال کا کھلے عام اعلان کرتی ہے۔ پولیس غلط پارکنگ پر گاڑیوں پر ٹکٹ لگانے میں تو مصروف دکھائی دیتی ہے مگر Cannabis کی فروخت ادھر قانونی ہے اور چرس پینے پر قطعاً کوئی پوچھ تاچھ نہیں۔ ایک دو چرسیوں سے اس کی قانونی مقدار اور خریدنے کی قانونی عمر وغیرہ کی معلومات لینے کی کوشش کی لیکن اتفاقاً ان تمام چرسیوں میں سے کسی کو بھی انگریزی نہیں آتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انگریزی بولنے والے وہاں چرس کے سوٹے نہیں لگا رہے تھے۔ یہ محض اتفاق تھا کہ میں نے جن کا انٹرویو کرنے کی کوشش کی تھی وہ انگریزی سے نابلد تھے۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ میں پراگ میں دکانوں پر فروخت ہونے والے سووینیئرز کی بات کر رہا تھا۔ میرا یقین ہے کہ سووینیئر کسی بھی ملک کا خاموش سفیر ہوتا ہے۔ کسی میز‘ شوکیس یا گھر کی کسی کارنس پر پڑا ہوا کوئی ماڈل یا کہیں پر چپکا ہوا میگنٹ اس ملک یا شہر کا تعارف ہوتا ہے۔ ہر آنے جانے والا ان کو دیکھتا ہے تو ان میں سے زیادہ نہ سہی‘ مگر کم از کم پچاس فیصد لوگ ان کو اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ دفتر یا گھر کے مالک سے ملک یا شہر کا پوچھتے ہیں۔ ان کے بارے میں تفصیل جانتے ہیں۔ گویا وہ سووینیئر اپنے ملک یا شہر کا تعارف ہوتا ہے اور جن کے دل میں سیر کا سودا سمایا ہو ان کیلئے یہ سووینیئرز مہمیز کا کام دیتے ہیں۔ ان کو اکساتے ہیں۔ گویا وہ شہر انہیں آواز دیتے ہیں اور اپنی طرف بلاتے ہیں۔
ہمارے ہاں اول تو سووینیئر نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔ اگر ہے تو اتنی غیر معیاری‘ ناقص اور فضول کہ خدا کی پناہ۔ لکڑی کے بنے ہوئے جانوروں کے ماڈل دیکھیں تو اعضا کا تناسب اتنا فضول اور واہیات کہ اس جانور پر ترس آتاہے۔ استعمال ہونے والا میٹریل اتنا ناقص کہ باقاعدہ افسوس ہوتا ہے۔ وہی گھسے پٹے طریقے اور ٹیکنیک جو عشروں‘ بلکہ صدیوں سے رائج ہے‘ نہ اس میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ بہتری دکھائی دی۔ دنیا بھر میں عمومی اور خاص طور پر شکار اور نیچر سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے شمالی علاقہ جات میں پائے جانے والے مارخور‘ آئی بکس اور مارکوپولو بھیڑ وغیرہ جو دنیا بھر میں اس علاقے کی پہچان ہیں اگر کسی اچھے میٹر یل میں ان کا متناسب اور خوبصورت سا منی ایچربن جائے تو نہ صرف یہ پاکستان کا تعارف بن جائیں گے بلکہ اس علاقے میں سیاحت کے فروغ کے سلسلے میں بھی اپنا کردار سرانجام دیں گے۔
لیکن ہمارے ہاں اول تو کسی نے اس طرح توجہ ہی نہیں دی اور اگر کسی نے توجہ دی ہے تو وہ یہ کہ بیکار اور نکمی چیز بنا کر کس طرح فروخت کرنی ہے۔ ملتان میں بلیوپاٹری کا کام صدیوں سے اس علاقے کی پہچان ہے اور اپنے خوبصورت رنگوں کی وجہ سے بندے کو دور سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے لیکن عالم یہ ہے کہ اس کی تمام تر رنگینی اور خوبصورتی کے باوجود ابھی تک اس میں نفاست پیدا نہیں کی جا سکی۔ کپ‘ پلیٹیں‘ گلدان اور دوسرا سجاوٹی سامان اتنے برے میٹریل سے بناہوتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ہاتھ سے بنائے گئے ڈیزائن اور پینٹنگ میں نہ کوئی ندرت پیدا کی گئی ہے اور نہ تنوع۔ بس لکیر کے فقیر کی مانند وہی صدیوں پرانے طریقہ کار اور خام مال سے کام چلایا جا رہا ہے۔ ایک مشہور کاریگر کے فوت ہو جانے پر فرق صرف اتنا آیا ہے کہ اس کے بیٹے نے ہاتھ سے بننے والے برتن اور نمائشی اشیا اب مشین پر بنانی شروع کر دی ہیں جس سے اس کی روزانہ کی پیداوار اور آمدنی میں تو کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے لیکن وہ پہلے والی نفاست جس کے باعث اس کے والد کے نام کا ڈنکا بجتا تھا اب تقریباً ختم ہو گئی ہے۔
ٹائل ورک کا یہ عالم ہے کہ میں نے ملتان ٹی ہاؤس میں آنے والے مہمانوں کو بطور تحفہ پیش کرنے کی غرض سے اسی نیلی کاشی گری کے کام والی یادگاری پلیٹ بنوانے کی ٹھانی۔ میری چھوٹی بیٹی نے اس کیلئے بڑا خوبصورت ڈیزائن بنایا اور اس کو محض تین رنگوں سے مزین کیا۔ میں اس پلیٹ کو لے کر بڑے کاریگر قسم کے بندے کے پاس گیا۔ اس نے فوراً حامی بھرلی۔ جب نمونہ تیار ہو کر آیا تو سر پیٹ لینے کو دل کیا۔ گہرا نیلا‘ ہلکا نیلا اور زردہ رنگ ایک دوسرے کے اوپر اس طرح چڑھا ہوا تھا کہ سارے ڈیزائن اور خوبصورتی کا بیڑہ غرق ہو چکا تھا اور پلیٹ خوبصورتی کے بجائے بدصورتی کا اشتہار دکھائی دے رہی تھی۔ جب اس سے کوالٹی اور نفاست کی بات کی تو آگے سے جواب ملا کہ اس سے بہتر معیار توممکن نہیں۔ اگر آپ کو بہتر کوالٹی درکار ہے تو آپ پلیٹ بنوا کر اس پر سٹکر چھپوا کر پیسٹ کر دیں۔
برسوں پہلے اوسلو میں گھوم رہا تھا کہ وہاں ایک عمارت کی دیوار پر لگی ہوئی چینی کی Glazed ٹائلز دیکھ کر رک گیا۔ یہ شاید ایرانی کلچر سنٹر تھا۔ دیوار پر لگی ہوئی ان ٹائلوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ خاص طور پر ایران سے آئی تھیں۔ معیار‘ رنگوں کا امتزاج‘ ٹائلوں کی پکائی‘ خوبصورتی اور حسنِ ترتیب ایسا کہ راہ چلتے بندے کو اپنی طرف متوجہ کرے اور روک لے‘ قدامت اور جدت نے مل کر ایسی خوبصورتی اور نظارہ پیدا کیا کہ اب بھی سوچتا ہوں تو لطف آ جاتا ہے۔
سووینیئر ایک ایسا سفیر ہے جو برسوں اپنے آپ کو منواتا رہتاہے۔ ڈاکٹر بلال احسن اور ڈاکٹر درِصبیح کے گھر دنیا بھر سے اکٹھی کر کے لائی گئی اسی قسم کی کولیکشن ہمیشہ آنے والے مہمانوں کیلئے دنیا کے بہت سے ممالک کی تہذیب‘ ثقافت اور خوبصورتی کے تعارف کا باعث بنتی رہتی ہیں۔ میں پراگ کی گلیوں میں گھومتا ہوا سوچتا ہوں کہ نہ تو ہم نے اپنی کوئی پرانی چیز سنبھال کر رکھی اور جو بچ گئی ہیں ان کی حفاظت نہیں کر پا رہے۔ پراگ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے دنیا بھر سے آنے والے ہزاروں لاکھوں سیاحوں کیلئے یہاں آنے کی دیگر بھی بہت سی وجوہات ہیں اور یقیناً ان میں سے کئی کام ہمارے لیے مشکل ہوں گے لیکن جو کام آسان ہیں ہم وہ کون سا کر پا رہے ہیں؟