معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
کیا ملک ہے!
کیا ملک، یہاں ایک ہزار روپے کے دھنیا چور کو سول کورٹ، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ سے ہو کر، سال جیل میں رہ کر سپریم کورٹ سے ضمانت ملے، یہاں مرغی چور کو سپریم کورٹ سے بھی ضمانت نہ ملے، یہاں نولکھا لاہور کا پان فروش رمضان میں ایک دن افطار سے پہلے دکان کھول لے.
مجسٹریٹ 5 دن جیل کی سزا سنائے مگر وہ جیل میں رہے 6 سال، سزا 5 دن کی، کاٹی 6 سال، کیوں، اس لئے کہ جیل حکام رہائی کا عدالتی حکم نامہ مانگتے رہے اور رہائی کا غذات یا روبکار کی پہلی سماعت کو ہی 6 سال لگ گئے، یہی نہیں 6 سال بعد جب اس غریب کے کیس کی سماعت ہوئی تو پتا چلا مجسٹریٹ نے جس احترام رمضان آرڈیننس دفعہ کے تحت سزاد ی وہ دفعہ آرڈیننس میں موجود ہی نہیں، مطلب 5دن کی سزا وہ بھی غلط، یہاں سرگودھا کی رانی جھوٹے مقدمے میں 19سال کی جیل کاٹے، یہاں بہاولپور کے دو بھائیوں کو سپریم کورٹ جب قتل کےمقدمے سے بری کرنے لگے تو پتا چلے کہ انہیں تو کب کی پھانسی ہو چکی، یہاں اسلام آباد میں واپڈا ایک شہری محمد یونس کے گھر کے باہر ٹرانسفارمر لگا دے، محمد یونس واپڈا حکام سے درخواست کرے، گھر کے عین آگے ٹرانسفارمر، میرے اہل خانہ غیر محفوظ، ٹرانسفارمر تھوڑا لیفٹ رائٹ لگا دیں.
واپڈا درخواست رد کر دے، محمد یونس سی ڈی اے حکام کے پاس جائے، سی ڈی اے کہے، تم جانو، واپڈا جانے، ہمارا اس سے کیا لینا دینا، محمد یونس عدالت جائے اور پھر اسے 22سال لگ جائیں انصاف تک پہنچتے پہنچتے.
22سال بعد ابھی چند دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئیسکو سے کہا کہ محمد یونس کے گھر کے سامنے سے ٹرانسفارمر ہٹا دیا جائے، یہاں ابھی 17 جون کو تربیلا ڈیم متاثرین کو 60 سال بعد انصاف ملا، یہاں ابھی دو روز قبل ڈیرہ اسماعیل کی زیتون بی بی کو 46سال کی مقدمے بازی کے بعد وراثتی حق ملا، یہ چند مثالیں، ایسی بیسوؤں مثالیں اور، اس ملک میں غریب بے بس، مجبور، ایک بار تھانے، کچہری، اسپتال کے ہتھے چڑھ جائے، رُل رُل مر جائے، مگر کیا ملک، یہاں بات اگر امیروں، طاقتوروں کی ہو، مردہ نظام انصاف میں جان پڑ جائے، مفلوج نظام انصاف کے جسم میں کرنٹ دوڑ جائے، ہماری عدالتیں یکا یک مہربان ہو جائیں، جھٹ منگنی پٹ بیاہ، جیسا انصاف ملنے لگے، مریم نواز صبح درخواست ضمانت دے، دوپہر کو ضمانت مل جائے، یہی نہیں لاہور ہائیکورٹ نیب سے کہے، مریم نواز کو گرفتار کرنا ہو تو 10 دن پہلے انہیں آگاہ کرنا، حمزہ شہباز کو چھٹی والے دن گھر کی بیسمنٹ میں ضمانت مل جائے، مطلب فوری اور سستا انصاف مفت ہوم ڈلیوری کے ساتھ، شہباز شریف ضمانتی مچلکے جمع نہ کروائیں پھر بھی ضمانت میں توسیع ہو جائے، مجرم نواز شریف کو ہماری مہربان عدالت پہلا طبی ریلیف دے کر 8ہفتوں کیلئے گھر بھجوا دے، دوسری بار عدالت نواز شریف کو چھوٹے بھائی کی ضمانت اور50روپے کے اسٹامپ پیپر پر جیل سے سیدھا لندن پہنچا دے، مریم نواز کو ضمانت ملے، ضمانت دینے کی ایک وجہ عدالت یہ بتائے، چونکہ مریم نواز خاتون ہیں لہٰذا ہمدردی کی مستحق، اسی ملک میں سینکڑوں خواتین جیلوں میں، چونکہ یہ بے بس، مجبور، یہ نہ مریم نواز جیسی نہ مریم نواز کی طرح عدالتی ہمدردی کی مستحق، طاقتوروں کی زندگیوں کی گارنٹیاں مانگیں، غریب جائیں بھاڑ میں ۔
کیا ملک،2 وزیراعظموں کی آڈیو ز آچکیں، ٹیلی فون کالیں، دفتر میٹنگز لیک ہو چکیں، بات گندی ویڈیوز تک پہنچی ہوئی، مگر کسی کو رتی بھر شرم نہ آئی، کسی نے معذرت تک نہ کی، کسی نے یہ تک نہ کہا، آئی ایم سوری، مجھے یہ نہیں کہنا، کرنا چاہیے تھا، مریم کے داماد کے کام کرتے شہباز شریف۔ اپنے داماد کیلئے بھارت سے مشینری منگواتی، گرڈ اسٹیشن لگواتی، عمران خان ہیلتھ کارڈ بند کرواتی، پٹرول کی قیمتیں بڑھواتی مریم نواز، تحریک انصاف استعفوں پر دو نمبریاں کرتے ایاز صادق، سفارتی مراسلے پر کھیلتے، عوام کے ذہنوں میں میر جعفر، میر صادق کا جھوٹا بیانیہ ڈالتے عمران خان، سفارتی مراسلے کو من مرضی کے رنگ دیتے اعظم خان، ہیرے کی انگوٹھی لیتی، مخالفین کو غدار بناتی سابق خاتون اول،آئی ایم ایف کا پروگرام ختم کرواتے شوکت ترین، سب کے سب، کوئی شرمندگی نہیں، کوئی افسوس نہیں، کسی نے جھوٹے منہ معذرت تک نہ کی، کوئی ایک بھی اتنا اعلیٰ ظرف نہ نکلا کہ کہتا، مجھ سے غلطی ہوگئی یا میں اپنے کئے پر شرمندہ، سب کے سب رنگ باز بالشتئے، ایک دوسرے کو کوس رہے.
ایک دوسرے کو جھوٹا، چور، ملک دشمن ثابت کر رہے، اب جہاں دکھ یہ، یہ کوڈو ،یہ بنارسی ٹھگ کن کاموں میں لگے ہوئے، وہاں دکھ یہ بھی کہ آڈیو، ویڈیوز بن گئیں ،لیک ہوگئیں اورہماری ایجنسیاں منہ دیکھتی رہ گئیں، اگر وزیر اعظم کا ٹیلی فون ،وزیراعظم کا دفتر مطلب وزیر اعظم محفوظ نہیں تو پھر ان ایجنسیوں کی کیا ضرورت، اتنا کچھ ہوگیا، ملک تماشا بن گیا، سب کے سب اپنی نوکریوں پر موجود۔
کیا ملک ، ایف آئی اے احتساب عدالت میں فرما رہی، کسی بے نامی دار کا شہباز شریف، حمزہ شہباز کے اکاؤنٹس میں پیسے جمع کرانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، ہے نا صدی کا سب سے بڑا لطیفہ، وہ منظور پاپڑ فروش، وہ محبوب پھیری والا، وہ مرحوم مقصود چپڑاسی، وہ درجنوں نائب قاصد، کلرک ،ذاتی ملازمین کی سینکڑوں ٹی ٹیاں، وہ شہباز خاندان کے اکاؤنٹس میں ان غریبوں کا دبئی، لندن سے ڈالر بھجوانا جنہوں نے دبئی، لندن کیا کبھی قریب سے ڈالربھی نہ دیکھا، وہ شہباز خاندان کے اثاثوں، جائیدادوں، دولتوں کو یکایک ٹی ٹیوں کے پہیے لگ جانا اور ایف آئی اے کوکوئی ثبوت ہی نہیں ملا، ایف آئی اے کو ویسے ہی ثبوت نہ ملا، جیسے نیب کو ایون فیلڈ، چوہدری شوگر مل کیس میں مریم نواز کیخلاف کوئی ثبوت نہ ملا، جیسے آگے چل کر کسی کو نواز شریف کیخلاف کوئی ثبوت نہیں ملے گا، جیسے ٹریفک سارجنٹ کو گاڑی تھلے دے کر مارنے والے مجید اچکزئی کیخلاف عدالت کو کوئی ثبوت نہ ملا، جیسے سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی (جن کے گھر سے اتنے نوٹ نکلے کہ نوٹ گننے کیلئے مشینیں منگوانا پڑیں) کے خلاف کوئی ثبو ت نہیں مل رہا، کیا کریں، یہ ثبوت ہی بڑاعقلمند ، اسے بخوبی علم کسے کب ،کہاں ملنا اور کسے، کیوں نہیں ملنا، کیا ملک، 3ٹی وی چینل نواز شریف کا انٹرویو کرچکے، چلا چکے، اسے نواز شریف کی دھماکے دار واپسی کہہ کر تبصرے فرما چکے، نوازشریف اس وقت تک مجرم، مفرور، اشتہاری، ایک مجرم، مفرور، اشتہاری، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ پر چڑھائیاں کر رہا تھا اور واہ واہ ہو رہی تھی، انٹرویو کرنے والوں کو سلام، انٹرویو چلانے والوں کو سلام، انٹرویو سے جمہوریت، سویلین بالادستی کشیدنے والوں کو سلام، انٹرویو پر دم سادھے بیٹھے اپنے بدبودار نظام کو سلام، بس یہ یاد رہے جب اصول، منطق، اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے تب تباہی مقدر بن جاتی ہے۔