پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
اینوں کی ہویا اے
’’ہم انسان دنیا میں نہ پاتے ہیں اور نہ کھوتے ہیں‘ ہم بس آتے ہیں اور جاتے ہیں‘‘ میں نے یہ فقرہ چند دن قبل یوٹیوب پر سکرولنگ کرتے ہوئے دیکھا اور میں وہیں جم کر رہ گیا‘ یہ واصف علی واصف کا فقرہ تھا اور یہ دنیا کی چند بڑی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہے‘ دنیا کی ہر چیز یہاں رہ جاتی ہے‘ وہ خواہ فرعونوں کے اہرام ہوں‘ پیسا کا مینار ہو‘ ڈیلفی کا مندر ہو‘ چین کی دیوار ہو‘ قارون کے خزانے ہوں۔
پہاڑوں میں کھدا ہوا پیٹرا کا شہر ہو‘ نمرود کا بنایا ہوا تنور ہو‘ بابل کے معلق باغات ہوں یا پھر موہنجو داڑو کی اجڑی ہوئی گلیاں ہوں دنیا کی ہر چیز یہاں رہ جاتی ہے بس لوگ آتے ہیں ’’میری میری‘‘ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے لڑتے‘ جھگڑتے اور مرتے مارتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے آ جاتے ہیں اور وہ بھی ’’میری میری‘‘ کرتے ہوئے لڑ مر کر چلے جاتے ہیں۔
دنیا کے سب سے بڑے شاطر نے ایک بار کہا تھا ’’شطرنج کی بازی چل رہی ہو تو بادشاہ بادشاہ‘ ملکہ ملکہ اور پیادے پیادے ہوتے ہیں لیکن جوں ہی بازی ختم ہوتی ہے بادشاہ‘ ملکہ اور پیادے تینوں ایک ہی باکس میں آڑے ترچھے پڑے ہوتے ہیں‘ ان میں کوئی فرق نہیں رہتا‘‘گویا یہ بازی ہوتی ہے جو بادشاہ کو بادشاہ اور غلام کو غلام بناتی ہے‘پیچھے رہ گئے کھلاڑی تو یہ بس آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں‘ باقی صرف بازی رہ جاتی ہے۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی افریقی ہاتھی اور انڈین ہاتھی کے ڈی این اے میں ایک اشاریہ چھ فیصد فرق ہوتا ہے گویا یہ دونوں اٹھانوے اشاریہ چار فیصد یکساں ہوتے ہیں جب کہ انسان اور چمپینزی (بن مانس) میں صرف اشاریہ آٹھ فیصد فرق ہے یعنی ہم انسان اور بن مانس ننانوے اشاریہ دو فیصد برابر ہیں‘ ہم اگر صرف اشاریہ آٹھ فیصد پیچھے چلے جائیں تو ہم بن مانس بن جائیں گے اور بن مانس اگر اپنے آپ کو صرف اشاریہ آٹھ فیصد امپروو کر لیں تو یہ انسان بن جائیں گے‘ دنیا میں بن مانس کی دو قسمیں ہیں‘ عام بن مانس انسانوں کی طرح گروپ بناتے ہیں‘ لڑتے ہیں‘جھگڑتے ہیں۔
چھینتے ہیں‘ ایک دوسرے سے حسد اور عداوت رکھتے ہیں‘ خود کو بڑا اور دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں‘ انتقام بھی لیتے ہیں اور ملکیت بھی جتاتے ہیں جب کہ دوسری قسم بانو باس (Bonobos) کہلاتی ہے‘ یہ زیادہ تر دریائے کانگو کے دائیں بائیں رہتے ہیں‘ مادرسری نظام کے تحت زندگی گزارتے ہیں‘ مادہ برتر اور نر کم تر ہوتا ہے‘ یہ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے‘امن اور شانتی کے ساتھ رہتے ہیں‘ ان میں ہم جنس پرست بھی ہوتے ہیں اور خواجہ سرا بھی‘ یہ ٹینشن میں جنسی اختلاط کی طرف مائل ہو جاتے ہیں‘ جینالوجی کے ایکسپرٹس کا دعویٰ ہے ہم انسان ان کے قریب ہیں‘ ہم ٹینشن اور اینگزائٹی میں وہی حرکتیں کرتے ہیں جو بانوباس کرتے ہیں‘ ہم غیرارادی طور پر بانو باس جیسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔
ایک ایسا معاشرہ جس میں امن ہو‘ انصاف اور ڈسپلن ہو‘ بن مانس کی اوسط عمر 45 سال ہوتی ہے‘ آج سے دو اڑھائی سو سال پہلے تک ہم انسانوں کی اوسط عمر بھی 45 سے 50 سال کے درمیان ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے اپنی عمر میں اضافے کا گُر سیکھ لیا‘ ہم نے خطرناک وائرسز کی ویکسین تیار کر لی‘ ہم خوراک کا سسٹم بھی جان گئے اور ہم نے ایکسرسائز اور ’’ہیلتھی لائف اسٹائل‘‘ کے ذریعے اپنی عمر بھی بڑھا لی‘ ہم نے دنیا میں ایجادات کا انبار بھی لگا لیا اور ہم کشش ثقل سے باہر دوسرے سیاروں پر کمند بھی ڈالنے لگے اور یہ تمام تر کمال کس کا ہے یہ اشاریہ آٹھ فیصد ڈی این اے کا کرشمہ ہے۔
ہم اگر یہ فرق کھو دیں تو ہم بانوباس بن جائیں گے اور اگر قدرت بانو باس کو اشاریہ آٹھ فیصد امپروو کر دے تو یہ نیوزی لینڈ‘ سوئٹزر لینڈ یا ڈن مارک کا انتہائی مہذب انسان بن جائے گا‘ یہ ہماری جگہ لے لے گا لیکن ہم اس کے باوجود’’ میری میری‘‘ کرتے رہتے ہیں اور اس چیز کے لیے لڑ کر مر جاتے ہیں جو سرے سے ہماری ہے ہی نہیں‘ جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں چند برسوں کے لیے عنایت کی تھی۔
میرے ایک دوست نے 2009 میں سی ڈی اے کی آکشن میں ایک کنال کا پلاٹ خریدا‘ پلاٹ سی ڈی اے کا تھا‘ گلی بنی ہوئی تھی اور لوگ اس میں آباد تھے لیکن میرے دوست نے جب گھر کی تعمیر شروع کی تو دائیں بائیں سے گاؤں کے لوگ آ گئے‘ ان کا دعویٰ تھا یہ زمین ہماری ہے اور سی ڈی اے نے غلط آکشن کر دی تھی‘ آپ اس پر گھر نہیں بنا سکتے‘ میرے دوست نے سی ڈی اے سے رابطہ کیا۔
اسے بتایا گیا وہ قبضہ گروپ ہے اور اس کا دعویٰ غلط ہے‘ میرے دوست نے مجھ سے رابطہ کیا‘ میں نے ان لوگوں کو فون کیا‘ ہم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے اور میں نے ان سے پوچھا ’’یہ زمین آپ کی کیسی ہو گئی‘‘ ان کا جواب تھا ’’یہ پورا سیکٹر ہمارے گاؤں پر بنا‘ 1980 تک یہاں گاؤں تھا اور یہ زمینیں ہماری آبائی تھیں‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ لوگ گاؤں کے دور میں بھی ایک دوسرے سے لڑتے تھے اور کیا اس لڑائی کی بڑی وجہ زمینیں ہوتی تھیں؟‘‘ جرگے میں ایک بزرگ بھی شامل تھا۔
وہ ہنس کر بولا ’’ہمارے سارے بزرگ زمین کے لیے لڑ لڑ کر مر گئے‘‘ میں نے پوچھا ’’ وہ بزرگ جس قبرستان میں دفن ہیں وہ کہاں ہے؟‘‘ بزرگ نے دور ایک پلازے کی طرف اشارہ کیا اور بولا ’’ہمارے آبائی قبرستان پر وہ پلازہ بن چکا ہے‘‘ میں نے ہنس کر عرض کیا’’ آپ کے بزرگ بھی زمین کے لیے لڑ لڑ کر چلے گئے اور اب آپ بھی وہی غلطی کر رہے ہیں‘ زمین کسی کی ملکیت نہیں ہوتی۔
یہ اللہ کی امانت ہوتی ہے اور اللہ ہمیں یہ امانت تھوڑی سی مدت کے لیے لیز پر دیتا ہے تاکہ ہم اس کی زمین پر کھا پی اور رہ سکیں‘ ہماری مہلت جب ختم ہو جاتی ہے تو اللہ لیز بدل دیتا ہے‘ یہ زمین کل آپ کے بزرگوں کے پاس لیز تھی اور آج یہ اللہ نے انھیں دے دی‘ یہ بھی اللہ کی دی ہوئی مہلت کے مطابق اس پر رہیں گے اور پھر اللہ یہ لیز بھی بدل دے گا‘ آپ لڑ لڑ کر کیوں مر رہے ہیں؟‘‘ میری بات ان کی سمجھ میں آگئی‘ میں نے ان کو مشورہ دیا ’’آپ کیس لڑ رہے ہیں‘ لڑتے رہیں‘ بے شک ہمیں بھی اس میں فریق بنا لیں‘ اللہ جب لیز تبدیل کر دے گا تو مالک خود بخود بدل جائے گا‘ ہم کیوں لڑیں‘ ہم کیوں مریں؟‘‘ ہمارا تنازع ختم ہو گیا‘ میرے دوست اللہ کے کرم سے گیارہ برسوں سے اس زمین پر مکان بنا کر رہ رہے ہیں۔
درجنوں پیشیاں بھی بھگت چکے ہیں لیکن یہ تھکے اور اکتائے نہیں ‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتے ہیں انھوں نے یہ جگہ سی ڈی اے سے نہیں خریدی‘ یہ انھیں اللہ تعالیٰ نے عنایت کی اور یہ عنایت اس وقت تک رہے گی جب تک وہ چاہے گا ‘جس دن ان کی مدت ختم ہو جائے گی اللہ لیز بدل دے گا‘یہ جانتے ہیں چالیس سال پہلے اس جگہ گاؤں تھا اور گاؤں کے لوگوں نے اس وقت خواب میں بھی نہیں سوچاتھا اس جگہ سی ڈی اے کا سیکٹر بن جائے گا اور ایکڑوں اور مربعوں پر پھیلی زمین کنال کنال کے پلاٹوں میں تقسیم ہو جائے گی اوراب کون جانتا ہے چالیس سال بعد یہ زمین کیسی ہو گی اور اس کی لیز کس کے پاس ہو گی لہٰذازمین کے لیے لڑنا اس سے بڑی بے وقوفی کیا ہو گی؟ یہ زمینیں یہیں رہتی ہیں‘ یہ کسی کو نہیں ملتیں اور یہ کسی کے ہاتھ سے نہیں نکلتیں‘ یہ یہیں پڑی رہتی ہیں بس ہم آتے ہیں‘ تھوڑی دیر اس پر رہتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور کھیل ختم۔
ہمارے سوچنے کی باتیں صرف تین ہیں‘ یہ زمین ایک بڑا سا پتھر ہے اور یہ پتھر 1670 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے سولر سسٹم میں چکر لگا رہا ہے اور یہ سولر سسٹم ساڑے چار سو ارب ستاروں اور سیاروں کی کہکشاں میں نہ جانے کس سمت دوڑ رہا ہے‘ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ دوسرا زمین پر 87لاکھ مخلوقات ہیں‘ ان میں سے ایک مخلوق انسان بھی ہے اور اس کے ڈی این اے اور بن مانس کے ڈی این اے میں صرف اشاریہ آٹھ فیصد کا فرق ہے لیکن یہ اس معمولی سے فرق کے باجود ’’میری میری‘‘ کیوں کرتا رہتا ہے‘ یہ ان چیزوں کے لیے لڑ لڑ کر کیوں مر رہا ہے جو سرے سے اس کی ہیں ہی نہیں؟ اور تیسری بات‘ ہم انسان کھونے کے خوف اور پانے کے لالچ میں یہ کیسے بھول جاتے ہیں ہم دنیا میں صرف آتے ہیں۔
چند لمحے ٹھہرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں اور ہم ان چند لمحوں میں بھی پاگل پن کی انتہا کر دیتے ہیں‘ میری درخواست ہے آپ کسی دن چڑیاگھر جائیں‘ بن مانس کے پنجرے کے ساتھ بیٹھیں‘ اسے اپنی اچیومنٹس بتائیں اور اس کے بعد اس کا ردعمل دیکھیں‘ مجھے یقین ہے وہ یہ ساری داستان سن کر دوسرے بن مانسوں کو بلائے گا‘ آپ کی طرف اشارہ کرے گا اور اپنے ساتھیوں سے پوچھے گا ’’اینوں کی ہویا اے‘ اے کیوں پاگل ہوگیا اے‘‘۔