عمر کب کی برس کے سفید ہو گئی!

تحریر: عبید اللہ چودھری

: جنوری ۱۹ وقت ۲:۴۰ سہ پہر

جلدی میں اسلام آباد سے لاہور کے لئے نکلنا ایسا ہی تھا جیسے جنوری کی صبح وقت سے پہلے کسی کو گرم بستر سے زبردستی اٹھا دینا۔ بس اڈے پر الوداع کرتے ہوئے بیگم نے کہا!

ٹوپی ہی پہن لیتے!

مفلر تو لپیٹ ہی سکتے تھے!

تمہیں پہلے ہی ٹھنڈ لگی ہوئی ہے۔ سنا ہے آجکل لاہور میں بھی شدید سردی ہے۔ میں جانتی ہوں گرم بس سے باہر کھلے میں نکلتے ہی تمھاری طبعیت خراب ہو جائے گی۔ تمہیں کچھ تو خیال کرنا چاہیے اب تم بچے نہیں ہو!

شادی کے ۲۵ سال بعد آج مجھے ثمرین میں جنت بیگم زوجہ چودھری محمد سلیم مرحوم کی تصویر صاف صاف دیکھائی دے رہی تھی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے منہ پر ہلکی سی تھپکی دے کر اس بات کو یقینی بنایا کہ میں جاگ رہا ہوں اور یہ لمحہ میرے تخیل میں اٹھنے والے خلط ملط ہیولوں اور سوچ کی تجریدی آرٹ کا شاخسانہ نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ میں جاگ بھی رہا ہوں اور ہوش میں بھی ہوں۔ لیکن آج مجھے ثمرین کی شکل میں میری والدہ جنت بیگم کیوں دیکھائی دے رہی ہے؟ صرف شکل نہیں مل رہی ۔۔۔ جذبات بھی والدہ والے اور لہجہ بھی۔۔۔۔!

یا خدایا یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے! کہیں میری تجریدی سوچ سے نکاح تو فاسق نہیں ہو جائے گا؟ نہیں نہیں ۔۔۔ یہ ثمرین زوجہ رستم ہی ہے۔۔ خود کو یقین دلاتے ہوئے سارے باطل خیالات کو جھٹک دینے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ایک نظر دوبارہ ثمرین کی طرف اٹھائی تو ۔۔۔ وہاں جنت بیگم کا ہیولا میرا منہ چڑا رہا تھا؟

چند لمحوں میں ہی میرا دماغ آواز کی رفتار سے بھی بڑھ کر اب روشنی کی رفتار سے چلنا شروع ہو چکا تھا۔۔۔ ایک لمحے کے اندر سینکڑوں لمحے ! اور ہر لمحے کے کئی امکانی پہلو۔۔۔۔۔

ویسے تو بڑھتی عمر کے مردانہ مسائل کے بعد اور ۲۵ سالہ دن رات کی رفاقت کسی بھی میاں بیوی کی شکلوں کو بہن بھائی ظاہر کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ لیکن یہ کیا؟ یہاں تو بہن بھائی سے بات آگے بڑھ کر ماں بیٹے پر جا پہنچی ہے!

اف میرے خدا یہ میں کیا بکواس سوچ کے گہرے کنوئیں میں گرتا جا رہا ہوں؟ نہیں نہیں یہ ثمرین زوجہ رستم ہی ہے!

ایک اور ناکام کوشش ۔۔۔ لیکن یہ کوشش کرنا اتنا ناکام تجربہ کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ شائد عمر کا تقاضہ ہے؟ شائد میں سٹھیا گیا ہوں ؟ نہیں نہیں ابھی تو آتے جون میں مجھے پورے ۵۵ برس کا ہونا ہے۔ سلیمان خان اور عامر خان سے پورا ۔۔۔ ایک سال چھوٹا۔ابھی تو میں جوان ہوں ۔۔۔ لیکن یہ ثمرین مجھے کیوں بچہ ثابت کرنے پر تلی ہے؟

۔۔۔ ایسی الجھی نظر اُن سے ہٹتی نہیں

دانت سے ریشمی دوڑ کٹتی نہیں

عمر کی کب کی برس کے سفید ہو گئی

کالی بدری جوابی کی چھٹتی نہیں

واللہ یہ دھڑکن بڑھنے لگی ہے

چہرے کی رنگت اڑنے لگی ہے

ڈر لگتا ہے تنہا سونے میں جی

دل تو بچہ ہے جی۔۔۔۔۔

یہ نصیر الدین شاہ با آواز راحت فتح علی خان کہاں سے آ گیا بیچ میں ۔۔۔ لیکن ثمرین یہ والا بچہ تو مجھے ہر گز نہیں سمجھ رہی ۔۔ ۔۔

کیا صرف صوتی اثرات ایک ہونے سے آوازوں کے مجموعے کے معنی بھی ایک ہو جاتے ہیں ؟

بلکل بھی نہیں ۔۔۔ نصیر الدین شاہ والے بچے اور ثمرین کے بچے میں وہی فرق ہے جو اکبر بادشاہ اور شہزادہ جہانگیر کی محبت میں تھا! نہیں نہیں ۔۔۔ یہاں کوئی انارکلی نہیں ۔۔۔ایسا بھی نہیں ہو سکتا ؟ تو پھر یہ سب کیا ہے؟

ارے ہاں ۔۔۔ آج تک ہم نے صرف بوڑھے مردوں کو بچہ بنتے سنا اور دیکھا ہے۔۔۔ وہی انسان کی خدا سے بندر کی مانگے تانگے عمر والی کہانی ۔۔۔ انسان نہیں مردوں کی کہانی ۔۔یہ ٹھیک ہے! مردوں کی کہانی!

لیکن آج تک کسی بوڑھی عورت کو بچہ بنتے نا سنا اور نا ہی کبھی دیکھا ہے۔۔ ہاں ۔۔ یہ سچ ہے۔ کیونکہ ۔۔۔۔

عورت جب ایک بار ماں بن جائے تو وہ مرتے دم تک صرف ماں ہی رہتی ہے۔ لیکن مرد اگر دس بار بھی باپ بن جائے تو ۔۔۔ مرنے سے پہلے لازمی بچہ بن جاتا ہے؟ آخر کیوں ؟ کیا زندگی کا یہ گول دائرہ صرف مردوں کے لئے ہے؟ کیا عورتیں صرف ہلال کا چاند ہوتی ہیں اور مرد پورے چودویں کے چاند؟ کیا عورت کی زندگی کا دائرہ کبھی مکمل نہیں ہوپاتا! کیا اسی لئے عورت کا مزہب میں مقام آدھا ہے؟ آدھی گواہی ؟ آدھی جائیداد ؟ آدھی عقل ۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔ یہ عقل والی بات میں نے خود سے گڑھی ہے۔۔۔ کیونکہ عورت سے متعلق اس مذہبی بحث کے دریا کو کوزے میں بند کرنے کا اور کوئی اظہار سمجھ میں نہیں آ رہا تھا؟

ارے کیا؟ یہ میں کیا سوچے چلے جا رہا ہوں ۔۔ اس دوران ثمرین نے دو تین فقرے اور بولے جو میں نے سنے ہی نہیں۔۔ کیونکہ میں تو اپنے بھیجے میں اٹھتے سونامی میں ہی بہے چلے جا رہا تھا۔۔۔۔

اچھا خدا حافظ ۔۔۔ لاہور پہنچ کر خیریت کی اطلاع دے دینا۔۔ اور خود کو ٹھنڈ سے بچانا۔ یخنی پینا اور اگر یخنی پینے کو دل نا کرے تو اس میں تھوڑا سا سویا سورس اور تھوڑا سا ہی کارن فلور شامل کر کے اسے سوپ بنا کر ہی پی لینا۔۔ اچھا یاد سے خدا حافظ ۔۔ ۔۔اور میں ثمرین کو جاتے دیکھ کر بس ہاتھ ہی ہلا سکا۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ سے حرکت کرتا ہاتھ۔۔۔

وقت : ۳:۰۵ منٹ

بس کی نشت نمبر ۲۶ اور ۲۷ پر ایک خاتون اپنے دو عدد بچوں سمیت آ بیٹھی ۔۔ ایک بچہ کوئی ۸ سال کا ہو گا ۔ جسم تھوڑا بھرا ہوا۔ بلکہ کافی بھرا ہوا اور دوسرا کوئی تین سال کا سلم سمارٹ توتلا طوطا ۔۔ ہاں ہاں بلکل طوطا ۔۔ نہیں تو تا ۔۔ جو بھی ۔۔ لیکن سیٹ پوری لینے پر بضد ۔۔ سیٹ نمبر ۲۸ جو بلکل برابر میں ہی تھی پر ایک سواری تھی لیکن سیٹ نمبر ۲۹ کو خالی دیکھ کر ماں نے بڑے بچے سے کہا؟ جاؤ وہاں بیٹھ جاؤ!

لیکن یہ سیٹ خالی نہیں ۔ یہ اس وقت خالی ہے لیکن یہ خالی بلکل بھی نہیں۔۔

بچے کی ماں نے ڈھلتی عمر کی مرد سواری کی طرف حیرت سے دیکھا۔۔ جیسے وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہو کہ یہ کیا بکے جا رہا ہے؟

سیٹ خالی نظر آ رہی ہے مگر سیٹ خالی نہیں ؟ کیا کوئی روح ہے جو اس نشت پر بیٹھی ہے؟

سواری نے بچے کی ماں کے چہرے پر آئے سارے سوال فورا ہی پڑھ لئے ۔۔ کیونکہ چہرہ کچھ ایسا تھا جیسے امتحانی پرچے کے سوال کاغذ پر نہیں ۔۔ بلکہ بلیک بورڈ ۔۔۔ نہیں سفید بورڈ ۔۔ نہیں ۔۔ پروجیکٹر پر ۱۰ضرب ۱۰ فٹ کی سکرین پر لکھ دئیے گئے ہوں ۔

محترمہ میرا مطلب ہے اس نشت کی سواری کنٹین سے پانی شائد کولڈ ڈرنک یا شائد چاے کافی لینے گئی ہے۔ دراصل ہم دو مختلف سواریاں ہیں۔

چھوٹے بچے نے آواز دی ۔

بھائی چییف اللہ ۔۔۔ ادل آ جاؤ۔ چلو ماں کے حکم کی ضرورت چھوٹے بچے نے پوری کر دی۔

نشت نمبر ۲۳-۲۲ کے برابر کھڑے ایک شخص نے مڑ کر دیکھا اور بولا۔۔۔۔

ہماری نشت ۱۹-۱۸ تھی۔ اس پر کوئی اور بیٹھا ہے۔ ان کے پاس بھی ۱۹-۱۸ نشت کی ٹکٹیں ہیں ۔ حالانکہ میں نے آن لائن ٹکٹ خریدی تھی۔ میرے پاس سکرین شارٹ بھی ہے ۔ لیکن ان کے پاس کاؤنٹر سے جاری ٹکٹیں ہیں ۔ ابھی بس ہوسٹس آتی ہے تو ہم یہ مسلہ حل کر لیں گے۔

چییف اللہ ۔۔۔ نہیں ۸ سالہ سیف اللہ بابا ۔۔۔بابا ۔۔۔ پکارتا اسی شخص کے پاس چلا گیا۔

تو گویا یہ صاحب اس خاتون کے خاوند ہیں۔ بچوں کے مطابق تو یہی رشتہ بنتا ہے لیکن اس شخص کی بےاعتنائی سے زیادہ بیزاری سے بھی یہی لگتا ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی ہی ہے۔

ان کی شادی کو کتنا عرصہ ہو گیا ہو گا؟ دماغ میں سوچ کے دوڑتے گھوڑے جو تھوڑی دیر پہلے ہی سالانہ ڈربی ریس میں بھاگ کر ابھی ابھی کھڑے ہی ہوئے تھے کہ اچانک سے پھر دوڑ پڑے ۔۔۔ یہ آج مجھے اپنے دماغ پر قابو کیوں نہیں۔۔۔۔ ؟؟؟

یہی کوئی نو دس سال ہو گئے ہونگے ان کی شادی کو؟ مگر اتنی بیزاری ۔۔۔ کیا یہ مرد بھی اپنے بچپن کی طرف لوٹ کر جانے والے خمیرے کی آغوش میں جھگڑا جا چکا ہے؟ یا پھر شائد یہ اپنے آپ سے لڑ رہا ہے کہ نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔۔ مجھے ابھی جوان رہنا ہے۔۔ اس کے بیزاری میں بھی اتھا گہرائی تھی۔ وہ گہرائی جس کے کنوئیں میں شائد کئی مچھلیاں ، مینڈک اور چھوٹے چھوٹے سانپ تیررہے تھے۔ ضرور یہ کنوئیں کی ان مچھلیوں پر ہی غور کر رہا ہے ۔۔۔ کس مچھلی پر جال پھیکنا ہے اور دو بچوں کی ماں اس مگر مچھنی سے کیسے جان چھڑانی ہے یا پھر اسے کیسے’’ مینج‘‘ کرنا ہے۔۔۔!

رکو بھائی صاحب رکو ۔۔ سوچوں کے گھوڑے کو لگام دو۔۔۔ اس بندے کا شائد پیٹ خراب ہو اور وہ پیٹ میں اٹھنے والے مروڑ کی وجہ سے ہی منہ کو چوسنی بنائے کھڑا ہو ۔۔۔ اور تم ہو کہ اس کو مچھیرا بنا کر ہی دم لو گے! کنوئیں سے مچھلی پکڑے گا۔۔۔!!!

کیا کسی کا چہرہ پڑھا جا سکتا ہے؟ یا پھر ہم کسی دوسرے کے چہرے میں اپنی ان کہی سوچوں پر سے مٹی جھاڑ کر انہیں دوبارہ نئی پیکنگ میں زندہ کر رہے ہوتے ہیں؟ کیا

یہ ہمارا تجربہ ؟ ہمارا ماضی؟ ہماری بیچارگی ؟ ہمارے ہی لاشعور میں اٹھنے والے وہ خیالات ہوتے ہیں جن کے اظہار کی آج تک ہمیں جرات نہیں ہوئی ہوتی۔۔۔!!!

عورت کا تو معلوم نہیں ۔ مگر مرد بزدل ہوتا ہے۔ہر مرد ہی بزدل ہوتا ہے؟ کیا میں بھی بزدل ہوں؟ نہیں نہیں ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

جو مرضی بہانے بنا لو۔۔ تخیل کی حدوں کو بھی چھو لو لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج کے دور کے معاشرےکے مرد کا اولین خاصہ بزدلی ہی ہے۔

او ۔۔ رستم بزدل ہے۔ کمبخت میرے ہم ذات ۔ تو۔۔ تو چھری تلے سانس لے۔ کیا سارے زمانے کے سامنے ذلیل کروائے گا رستم کو!

صرف رستم نہیں سارے ہی مرد بزدل ہوتے ہیں ۔۔۔ ؟ کیا اس بیانیے سے میرے اندر کی بزدلی کو قابل قبول جواز مل گیا ہے؟ صرف رستم نہیں آج کی دنیا کے سارے مرد ہی بزدل ہیں۔۔ ہاں ہاں بزدل ہیں ۔۔ ایسا ہی ہے۔۔ کیا واقعی ایسا ہے۔۔۔؟؟؟

میں نے پنڈی کا بیف پلاؤ کھانا تھا۔۔ لیکن مجھے موقع ہی نہیں ملا۔۔ نشت نمبر ۳۳ پر بیٹھا شخص کسی سے ویڈیو کال پر تھا۔ سپیکر پر دونوں اطراف کی گفتگو صاف سنائی دے رہی تھی۔۔۔

نہیں نہیں مجھے اس پر دھیان نہیں دینا۔۔۔ اس جوان کو بیف پلاؤ کی پڑی ہے۔۔۔ حالانکہ اسے اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ وہ بزدل کیوں ہے؟ ۔ جی جی ۔۔۔ جوان ہو یا بوڑھا ۔۔ آج کے سارے مرد بزدل ہیں ۔۔لیکن “ گارشیامارکیز ” کا “ کرنل” تو بزدل نہیں تھا۔۔ وہ تو مہا پرش تھا۔۔ جس نئے علاقے میں ہی جاتا ۔۔ بے خوف اپنے بہادر جینز اس علاقے کی نوخیز اور زرخیز زمین پر جا بجا بوئے جاتا !!!

گارڈ کرشن بھی تو تھا۔۔۔ اب” گاڈ کرشنا “ جب ایک رات میں ایک لاکھ عورتوں سے پویتر اگنی کے پھیرے لے کر اسی ایک رات میں باری باری ایک لاکھ چنگاریوں پر اپنا دیو مالائی پانی پھینک کر ان کی پیاس بجھا سکتا ہے تو اسے جیتا جاگتا نہیں بلکہ ایک اساطیری کردار ہی کہا جا سکتا ہے۔ کیا یہ اساطیری کردار مردانہ کمزوری پر سات پردے ڈالنے کے لئے خود مردوں نے ہی گھڑا تھا؟ مزہب چاہے کوئی سابھی ہو۔۔ ہوتا تو مردانہ ہی ہے ۔ اور کیونکہ کسی بھی مزہب میں پورا سچ بولنے کی جرات نہیں ہوتی ۔۔۔ شائد عورتیں کوئی مزہب تخلیق کریں تو اس میں پورا سچ ہو؟ نہیں ۔۔۔ عورتیں کہاں کی سچی ہوتی ہیں ۔۔!!

یہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟۔۔ سوچ کے گھوڑے کو یہی نا۔۔ روکا تو آج یہ کشش ثقل سے آگے ہی نا نکل جائے۔۔ مجھے پانی پینا چاہیے۔ لیکن میرے پاس تو پانی ہے ہی نہیں ہے۔ تو میں کیا بزدل ہونے کے ساتھ ساتھ ہونہار پھوہڑ مرد بھی ہوں؟ جو سفر میں پانی کی

ایک بوتل بھی ساتھ رکھنے جیسی بنیادی ضرورت سے بھی نابلد ہے۔۔۔ بزدل پھوہڑ۔۔۔ہوں۔۔ میں ہوں!!!

وقت ۳:۱۰ منٹ

نشت نمبر ۳۳ والا ۲۲أ۲۳ سال کا جوان اب عجیب قسم کی آوازیں نکال رہا تھا۔۔ ویڈیو کال ۔۔۔

خ۔۔ ت۔ ت۔ ت۔ ۔۔ ج ۔ہ

میری پاری ۔۔۔ ختیجہ۔۔ ( خدیجہ ) کیا کل رہی ہے؟ ( کیا کر رہی ہے)

ختتتتتیجہ ۔۔۔ او ختتتتتیجہ ۔۔ کیا ’’کل‘‘ رہی ہے؟

ختتتتیجہ ۔۔۔ او ختتتتتجہ

چاچو کہاں ہیں؟

پا پا ۔۔۔ پا ۔۔ پا۔۔ آج آ ’’لہے‘‘ ہیں ۔۔۔۔

کیا کر رہی ہے ۔۔ خخختتتیجہہہ ۔۔ او ختتتتیجہ

چاچو کہاں ہیں۔۔۔؟؟؟

لو بھائی ۔۔۔ اس جوان خاوند کو بھی اپنے چھوٹے بھائی پر پکا شک ہے ۔۔۔ کیا اسے اپنی بیوی پر اعتبار نہیں؟۔۔۔ کیا اسے یقین ہے کہ ختتتتیجہ اسی کے جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کی کسی چھینٹ کا خمیر ہے؟

کیا یہ بھی بزدل ہے؟ جو سب جانتے ہوئے بھی ۔۔۔ اپنے دل کو تسلیاں دے رہا ہے۔۔ نہیں وہ بزدل نہیں۔۔ شائد وہ بزدل ہی ہے؟ شائد میری سوچ ہی گندی ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ کوئی بندہ انسانی رشتوں اور ان سے جڑے سارے وسوسوں کا ایک ہی زندگی میں تجربہ کر لے۔۔ مشاہدہ بھی غلط ہو سکتا ہے۔ سوچ کے درست ہونے کا کیا پیمانہ ہے؟ کیا یہ جوان واقعی بزدل ہے؟ کیا یہ جوان ۔۔۔ کچھ اور تو نہیں سوچ رہا؟ کیا یہ غیرت کے نام پر دو روحوں کی پرواز کا پیغام لے کر جانے والا فرشتہ اجل ہے؟ کیا یہ شیطان ہے ؟ کیا اس کا دماغ ۔۔ شک کے کیکر کے نوکیلے کانٹوں اور موسم بہار کے جو بن پر آئے پیلے پھولوں کے درمیان جاری کشمش میں الجھ گیا ہے ۔ ۔۔ کیا وہ کاری ضرب لگانے سے پہلے۔۔۔ ختتتتیجہ ۔۔ کے مستقبل کے لئے پریشان ہے؟۔۔ نہیں نہیں یہ سب بکواس ہے۔۔۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ جوان واقعی بزدل ہو اور اپنی “ ہیر” سے سچا پیار کرتا ہو۔ ویسے اگر کسی کو پیار ہو جائے تو اس کے بزدل ہونے پر مہر ثابت ہو جاتی ہے۔ کیا سارے مرد ہی کبھی نا کبھی زندگی میں پیار کے بیماری کا شکار ہوتے ہیں؟ ۔۔۔ ہوتے ہیں ۔۔ اگر سانس لیتے ہیں تو ہوتے ہیں ۔۔۔ اور اگر ایسا ہے تو سارے مرد ہی بزدل ہیں ۔۔

محبوب کے چھن جانے کا خوف انہیں بزدل بنا دیتا ہے۔ ایک بزدل کبھی پورا سچ نہیں بول سکتا۔ کیا سارے مرد مکمل سچ بولنے کے وصف سے نا آشنا ہیں؟ کیا عورتوں میں بھی یہی ’’بیماری “ ہے؟

کم بخت سوچ کے گھوڑے ۔۔۔ رک جا ۔۔۔ چھری تلے سانس لے ورنہ ۔۔۔ آج کشش ثقل بھی تیرے آگے روئی کے گالے جیسی بے وزن ثابت نا ہو جائے۔۔۔کہیں تو رک جا ۔۔۔

نہیں سارے مرد عاشق نہیں ہو سکتے؟ کچھ سچے اور کچھ کچے اور کچھ کچے پکےعاشق بھی تو ہونگے؟مرد کا عشق صرف عورت سے تو منصوب نہیں؟ بلکل بھی نہیں ۔۔۔ کسی کو دولت اور طاقت سے بھی تو عشق ہو سکتا ہے؟ شائد ایک مرد ایک وقت میں کئی محبوباوں کے حصار میں ہوتا ہے۔ دولت اور طاقت کے ساتھ ساتھ اولاد اور والدین کا عشق ۔۔ یہ جنیاتی کشش کسی موزی کینسر سے کم نہیں ہوتی۔ اچھے خاصے بندے کی جان لے کر ہی پیچھاچھوڑتی ہے۔ اور جس مرد کے اوشاق کی فہرست جتنی طویل ہوتی ہے ۔ وہ اتنا ہی زیادہ بزدل ہوتا ہے۔

لیکن لوگ تو کہتے ہیں کہ عشق ایک منہ زور گھوڑا ہوتا ہے۔ عشق بیباک اور نڈر ہو جائے تو اس کے کھرے ہونے میں کوئی شک ہی باقی نہیں رہتا۔ تو کیا مرد بزدل نہیں ہوتے؟ شائد جب بوند بوند ملتا پانی ایک سارا سال بہنے والی ندی بن کر بنجر زمین کو سیراب کرنا شروع کر دے تو اس زمین پر ازلی صحرائی جھاڑی کا وجود تخیل سے بھی مٹ جاتا ہے۔ اور جب سبزے کی فروانی ابدی صورت اختیار کر لے اور اچانک سوکھے کا خدشہ اپنا پھن پھیلائے سامنے آ جائے تو خوف تو پیدا ہونا فطری ہے۔ اور اس فطری خوف کو کیا نام دیا جائے؟

خوف کی کھوکھ سے ہی بزدلی جنم لیتی ہے! کیا کوئی ایسا انسان ہے جسے کبھی خوف نا آیا ہو؟ دولت، حسن و جوانی چھن جانے کا خوف ، موت اور بعد از موت پیش آنے والے واہمے کا خوف۔ تو کیا سارے مرد نہیں بلکہ سارے کے سارے انسان ہی بزدل ہیں؟ کیا اس بزدلی کو کامیابی سے چھپا لینے والے سورما کہلاتے ہیں؟

او ختتتتیجہ ۔۔۔ کیا” کل “رہی ہے۔۔۔ اور ختتتتتجہ ۔۔۔۔۔ اولو۔۔ لو لو۔۔۔۔

سیف اللہ کی ماں کو بس میں دو نمبر نشت پر ایڈجسٹ کرنے کے بعد بس ہوسٹس نے کامیابی سے سیف اللہ اور اس کے باپ کو نشت نمبر ۲۳ اور ۲۴ کی ملکیت دے دی تھی۔ آپ سمجھ لیں رجسٹری ہی کر دی تھی کیونکہ دونوں “ بزدلوں” نے اپنی جیکٹس ، اپنے فون ، بڑے بزدل کے ہاتھ میں پکڑا ایک شاپر بیک اور ایک چھوٹا کمبل اپنی انہی دو نشتوں والی راجھدانی میں ہر مناسب جگہ پرٹکا دئیے تھے۔

وقت ۳:۱۵ منٹ

بس روانگی کے ساتھ ہی میں نے اپنے لیپ ٹاپ والے بیگ میں سے مرزا اطہر بیگ کی ’’بک بک “ مطلب ’’ غلام باغ “ ہمراہ ریڈنگ گلاسسز نکالی اور انہیں احتیاط سے اپنے سامنے والی نشت کی پشت پر لگے ٹرے پر رکھ دیا۔

پہلے عینک صاف کر لوں ۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے اپنی جیکٹ کی جیب سے ایک پرانا اور پھٹا ہوا آدھا ٹشو نکالا اور احتیاط کے ساتھ عینک کے شیشے صاف کرنے لگا۔ احتیاط اس لئے بھی لازم تھی کہ میں کئی بار ہوائی جہاز اور بسوں میں اپنے چشمے اسی حرکت کے بابت بھول چکا تھا تو اب ایک پرانا چشمہ جس کی ایک ٹانگ “جس پر شائد چار گولیاں لگی تھیں “ ٹوٹ کر فریم سے علیحدہ ہو گئی تھی تو عین طبی اصولوں کے مطابق میں نے اسے ’’ سنی پلاسٹ‘‘سے ایسا پلستر لگا کر جوڑا تھا کہ کئی مہنے بعد بھی وہ اپنی ٹانگوں پر بغیر کسی بیساکھی کے کھڑی تھی۔ عینک کی واحد سالم و ثابت ٹانک سے پکڑ کر دونوں اطراف کے شیشے احتیاط سے صاف کرنا کسی ماہر جراح کی فنکاری سے کم نا تھا۔ عینک صاف کرنے کے نازک کام سے فارغ ہوتے ہی غلام باغ کی گردش میں اٹکے دھاگے کی مدد سے ڈاکٹر ناصر کے پہلے عشقیہ مکتوب کو جل پتھری کے پاس بیٹھے کبیر کو پڑھنےسے ۔۔۔ دوبارہ پڑھنا شروع کر دیا۔

کوشش تھی کہ جتنا ہو سکے فوکس ہو کر زیادہ سے زیادہ پڑھ لیا جائے۔ ویسے بھی بس میں موجود سوائے بس ہوسٹس کے مجھے اب کسی اور کا چہرہ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔

آخر بس ہوسٹس یہ لڑکی ہی کیوں؟ اس بس میں پانی پلانے کے لئے کوئی لڑکا بھی تو ہو سکتا تھا؟

کیا پانی پلانا اور بس میں ائیر فریشنر کا سپرے زنانہ کام ہیں؟ کیا کوئی لڑکا یہ کام نہیں کر سکتا؟ میرے سامنے موجود ۴ فٹ ۹ انچ کی یہ گڑیا نما ” باربی “ہی اس کام کے لئے سب سے زیادہ موزوں امیدوار تھی؟ کیا بس ہوسٹس کی یہ نشانی معاشرے میں بڑھتے ہوئے صنفی برابری کا اظہار ہے؟ کیا یہ صنفی برتری ہے یا پھر صنفی ابتری؟

سوچوں کے قالین پر بیٹھے الہ دین کی پرواز نے اب ایک اور سمت کی راہ لے لی تھی؟

قد ۴فٹ ۹ انچ نہیں ۔۔ بلکہ ۴ فٹ اور پونے ۹ انچ جوتے کی اونچائی نکال کر ! منہ پر میچنگ ماسک ! بھلا ہو کرونا کا کہ اس نے ہر اس مرد و زن جو کسی بھی وجہ سے دنیا کو اپنا منہ دیکھانے پر معترض تھے ان سب کو اب یہ ماسک پہننے والے سہل طریقے سے روشناس کروا دیا ہے۔ نیلے ٹروزر اور نیلی قیمتیں کے اوپر نیلا ہی اوور کوٹ ، سر پر نیلی رنگ کی چکور ٹوپی ۔۔ اور ٹوپی کی اگلی سمت سے پانچویں رات کے گرہین لگے ہلال کی شکل و رنگ کے بالوں کی ایک قرینے سے سلجھی ہوئی لٹ ۔۔۔۔ جو ضرور کسی ساجن کے انتظار میں تھی کہ وہ جلد اسے آ کراس لٹ کو الجھا جائے ۔۔۔!

اس منظر کشی کا خیال کا خمیر اس وقت ایک بلبلے کی شکل میں اٹھا تھا جب مجھے اس کی ایک کلائی پر مردانہ گھڑی اور دوسرے ہاتھ کی تیسری انگلی پر فیروزے کی انگھوٹی اور’’ چیچی‘‘ میں چاندی کا چھلا نظر آیا۔ چہرہ تو اوجل تھا مگر آنکھیں کسی ایسے خنجر کی مانند تھیں جو تازہ تازہ آگ کی بھٹی سے نکلا ہو اور اس کی سرخی رنگت تیزی سے سے کالک میں تبدیل ہو رہی ہو۔۔ یہ کالک شائد ۔۔۔ کاجل ( سرمہ) ہو جس کے غیر ضروری پھیلاؤ کو انگلی پر تھوک لگا کر اپنے متعین کردہ علاقہ سے تجاوز پر زبردستی روکا گیا تھا۔

جسم ایسا سپاٹ اور صراط مستقیم کی مثل کہ اگر بالوں کی لٹ نا ہوتی تو سکے کے دونوں رخ ہم شکل اور ہم اوزانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ لگتا تھا کہ اس سکے کو نصیب مٹی کسی کمار کے ہاتھ سے تول کر نہیں بلکہ کسی سنار کے ڈیجٹل کانٹے سے اعشاریہ زیرو ۔۔ زیرو کے تناسب سے لگائی گئی ہو۔۔۔

یہ کیا بکواس ہے۔۔۔ آخر میرا تخیل کیوں ایک بنجر و بیاں بان کنوئیں کی گہرائی ماپنے پر تلا بیٹھا ہے؟

ایسے میں اپنی طرف بڑھتے چار کلاس کو پکڑنے کے لئے میں اپنے ہاتھ ابھی غلام باغ کی گرفت سے آزاد کر ہی رہا تھا کہ اچانک سے نشت نمبر ۳۳ بر بیٹھے پارہ صفت جوان نے جلدی سے سارے پیپر گلاس پکڑ لئے۔ میں غلام باغ سے دستبرادری میں اتنا سست تھا کہ صرف پہلو بدل کر ہی میں نے بھر پور تاثر دینے کی کوشش کی کہ میری گلاس پکڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں تو بس اپنا پہلو ہی بدل رہا تھا۔ تاخیر سے پہنچنے پر مجھے بس کی صوفہ سیٹ ۔۔۔ یعنی جہاں بس ختم ہو جاتی ہے وہاں بس کے دائیں سے بائیں ۲-۲ کی بجائے ۵ جڑی ہوئی نشتوں کو صوفہ سیٹ کہا جاتا ہے۔ ۳۳ کے برابر ۳۴ والی میری سیٹ اور پھر ۳۵ نمبر درمیان والی بس کی واحد خالی سیٹ اور پھر ۳۶ اور بس کی آخری ۳۷ نمبر سیٹ۔۔۔ لیکن یہ بس کی نشتیں جفت کیوں نہیں؟

میں نے فورا سے ۳۴ نمبر چھوڑ کر واحد خالی نشت ۳۵ نمبر پر قبضہ کر لیا۔ اس قبضہ کی کئی وجوہات تھیں ۔ ایک کہ مجھے بس کی کل نشتیں شمار کرنا تھیں کہ وہ واقعی ۳۷ ہیں اور نمبر لگانے والے کی کوئی غلطی نہیں اور یہ جگہ اس کام کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھی۔ دوسرا یہ کہ میری ٹانگیں ضرورت سے ۶ انچ زیادہ لمبی ہونے کی وجہ سے یہ نشست زیادہ جگہ ’’لیگ سپیس ‘‘ فراہم کرتی تھی۔ تیسرا یہ کہ مجھے ۳۳ نمبر والے سے بھی فاصلہ کرنا تھا جو بار بار میری تخیلاتی پرواز میں اپنے بلند آواز فون کالز کی وجہ حائل ہو رہا تھا۔ اور چوتھی اور آخری بات یہ کہ مجھے بس کے عین درمیان میں بیٹھنے سے اپنے انفرادی ہونے کا احساس دوسرے مسافروں سے امتیاز کر رہا تھا۔

الہ دین کا۔۔۔ کارپٹ ۔۔۔ ہاں ہاں یہ الہ دین کا قالین ہی تو ہے۔ بس کی کھڑ کی سے ۱۹ جنوری کی بوجھل سہ پہر جس پر دھند، دھویں اور مٹی کی دھوڑ نے زمین کی سطح

سے ۲۵-۲۰ فٹ اوپر ایک ایسی سفید تہہ لگا دی تھی کہ بس کسی سڑک پر چلنے کی بجائے فضاوں میں تیرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ وہی الہ دین کا اڑتا قالین ۔۔۔!!!

بس کے عین درمیان میں بیٹھے ہی مجھے یوں لگا کہ اب پوری بس ہی میرے کنٹرول میں آ گئی ہے۔ پلک جھپکتے ہی بس اب الہ دین کے قالین سے زیادہ اب ایک سر پٹ دوڑتی ہوئی بگھی لگ رہی تھی۔ وہ بگھی جو ہیری پوٹر کی کسی فلم میں ایک پہاڑی پر دھند اور بادلوں کے درمیان سرپٹ دوڑتی چلی جا رہی ہو۔ مجھے بار بار احساس ہو رہا تھا کہ بگھی کی رفتار خطرناک حد تک تیز ہے۔ میں نے دو تین بار گھوڑوں کی باگیں بھی کھینچیں مگر بگھی کی رفتار کم کرنے میں ناکام رہا۔ بگھی ( بس ) کے دو حصے تھے آگے والا بزنس کلاس۔۔۔ کل ملا کر ۹ نشتیں۲۔۲ کے تین جوڑے اور دوسری طرف ایک ایک کی تین نشتیں۔۔ کل ملا کر ۹۔ یہاں پر بیٹھے ۹ گھوڑے۔۔ کیا یہ بزنس کلاس کے ۹ گھوڑے سیٹ نمبر ۳۵ پر بیٹھے کوچوان سے زیادہ منہ زور ہیں؟ کہیں یہی تو وہ گھوڑے نہیں جو سارا چارہ بغیر ڈکار لئے ہی ہڑپ کر جاتے ہیں؟ اور فرسٹ کلاس میں بیٹھے خچروں کو صرف بچا کچھا ہی نصیب ہوتا ہے۔ یہ کہیں کسی جمہوری سلطنت کا منظر تو نہیں؟ ایسی سلطنت جس میں ایک بزنس کلاس ہے اور ایک فرسٹ کلاس کا لیبل لگائے عام عوام ۔۔۔!!! یہ جمہوریت کا ہی خاصہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کا تاج عوام کے ماتھے پر سجا کر انہیں تخیلاتی فرسٹ کلاس کا درجہ دینے کے بعد پانچ گھنٹے ( پنڈی سے لاہور تک موٹر وے سے ۵ گھنٹے کا سفر) ۔۔۔ او۔۔ ہو ۔۔ مطلب پانچ سال کے لئے کچرے کے کنٹینر میں پھینک دیا جاتا ہے۔

اب یہ درمیان میں سیاست کہاں سے آگئی ؟ ۔۔ توبہ ہے جب تک سیاست پر بات نا ہو کسی بھی کوچوان کی روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ ۔۔۔

نہیں یہ بزنس کلاس میں صرف ۹ گھوڑے نہیں بیٹھے ۔۔۔ فرسٹ کلاس میں ۲۷ خچر اور ایک کوچوان بھی ہے جو اس بگھی کو سرپٹ دوڑائے چلے جا رہا ہے۔

کیا یہ واقعی ہی گھوڑے اور خچر ہیں؟ ان میں کوئی ہاتھی اور شیر نہیں؟ کیا ہی اچھا ہو اگر بگھی کے آگے شیر جوتے جائیں۔۔۔ کیا شاندار نظارہ ہو گا!!! ۔۔۔۔

یہ میں کس جنگل میں آ گیا ہوں۔ ۔۔ ہاتھی، شیر، گھوڑے ، خچر۔۔۔ نہیں یہ سارے کے سارے جانور بہت قیمتی نہیں۔۔۔ یہ تو بس وسائل کا اجاڑ ہیں۔۔۔ بگھی کا مالک اتنے خرچے والے جانور کیوں رکھے گا؟۔۔۔

دھند گہری ہو رہی ہے۔۔۔ اب یہ بگھی ۔۔۔ بگھی نہیں رہی۔۔۔۔ اب یہ اسکیمو کی کاٹھ والی وہ گاڑی بن گئی ہے جس کو ۳۵ کتے کھینچ رہے ہیں۔۔۔ کھینچ نہیں رہے بلکہ ۔۔۔ سرپٹ دوڑا رہے ہیں۔ یہ سب سوچتے ہی مجھے مزید سردی لگنے لگی۔۔۔

ابھی میں تازہ برف پر دوڑتی اسکیمو گاڑی کو قابو ہی کر رہا تھا کہ نشت نمبر ۳۳ والے ختتتتیجہ کے باپ نے دو انگلیاں بیچ میں ڈال کر میرے سمیت صوفہ پر بیٹھے باقی اوردو مسافروں کو پیپر گلاس پکڑانے شروع کر دئیے۔ میں بگھی چلانے میں اتنا مصروف تھا کہ ۔۔۔ انگلیاں گلاس کے اندر ڈالنے سے روکنے کی آواز میرے پھیپھڑوں میں ہی پیدا ہوتے ہیں دم توڑ گئی۔ میں نے ایک بار پھر سے اپنا پہلو بدل لیا اور گلاس پکڑ کر سوچنے لگا۔۔۔ اب میں اس گلاس کا کیا کروں گا؟ میری نشت کا گلاس ہولڈر بھی ٹوٹا ہوا تھا۔۔۔ میں نے گلاس کو فوری طور پر اپنی نشت کے سامنے لگی ٹرے کے نیچے ’’کینگرو ‘‘تھیلی میں زبردستی گھسیٹر دیا۔ اس زور زبردستی میں گلاس درمیان سے پچک کر ایسے دو حصوں میں نظر آنے لگا جیسے بس میں بزنس کلاس اور فرسٹ کلاس کے دو ڈبے تھے۔ میں نے جھک کر کوشش کی تو پچکے گلاس سے پیندے کا ایک خفیف سا حصہ نظر آنے پر اطمنان ہو گیا کہ بزنس کلاس نے فرسٹ کلاس کو سانس لینے کی اجازت دی ہوئی ہے۔۔ چلو طاقت کا سر چشمہ کم از کم سانس تو لے رہا ہے۔۔۔۔!!

ابھی غلام باغ کے ڈاکٹر ناصر ، کبیر ، یاور عطائی اور زہرہ جبین کے درمیانی تعلق کے ہشت پہلو تجریدی جزبات کی گھتی سلجھانا باقی تھا کہ پانچویں کا چاند پانی لئے سامنے کھڑا تھا۔ ختتتتجہ کے باپ نے اگلی نشت کے اوپر سے اپنا گلاس آگے بڑھا دیا۔ صوفہ سیٹ ویسے بھی باقی نشتوں سے ایک قدم اونچی ہوتی ہے اور پھر اس پر بیٹھے دراز قد مسافر کا ہاتھ اتنا اونچا تھا کہ بس ہوسٹس نے فورا کہا ۔۔۔ آپ اس سے مزید اونچا نہیں جا سکتے؟ اس نے پانی کی بوتل درمیان سے پچک کر اتنی مضبوطی سے تھام رکھی تھی کہ اگر “ بگھی” بس کا پہیہ کسی پتھر سے بھی ٹکرا جائے تو بوتل ہاتھ سے نا چھوٹنے پائے۔۔ بغیر دیکھے اونچائی پر گلاس میں برابر کا پانی انڈلیتے ہوئے یہ تو ثابت ہو گیا تھا کہ وہ اس پیشہ میں کافی تجربہ کار ہو چکی ہے۔ اپنی اس کاریگری سے فراغت پاتے ہی وہ مجھ سے گویا ہوئی ۔۔۔ پانی ۔۔

میں دو انگلیوں والے گلاس کو پہلے ہی رد کر چکا تھا۔ خاموشی سے اس گلاس کا گلہ بھی صرف اس لئے گھونٹ دیا تھا کہ اس میں کسی نا محرم کی دو انگلیاں دخل در معقولات دے گئی تھیں۔ اب “ لنڈے “ کا مال تو صرف انتہائی ضرورت مند کی ہی ضرورت ہو سکتی ہے۔ مجھے اس مال کی ضرورت بلکل بھی نہیں تھی، دوسرا میں زیادہ پانی پینے کی وجہ سے زیادہ پیشاب کی الجھن سے بھی بچنا چاہتا تھا۔ مجھے ۲۰ سال پہلے اپنے ایک سفر میں منو بھائی اور ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی یاد آ گئے۔ مشرق و مغرب کو ایک گاڑی میں بیٹھا کر لاہور سے اپنے گاوں کے سکول میں لے جانے کا تجربہ بھی بے مثل تھا۔ اپنے سارے نظریاتی اختلافات کے باوجود دونوں مہمانوں میں ایک بات مشترک تھی۔ پروسٹریٹ کا مسلہ۔۔ ایک گھنٹہ سفر کے دوران جب انہوں نے دوسری بار ٹرک ہوٹل سے چائے پینے کی فرمائیش کی تو کچھ عجیب سا لگا۔دونوں نظریات گاڑی سے اترتے ہی واش روم کی طرف تقریباً دوڑے تو بات سمجھ آ گئی۔۔

ابا والا ہی مسلہ ہے ان کو۔ چائے تو بہانہ ہے۔ اب جا کے ۲۰ سال بعد مجھے بھی لگتا تھا کہ چائے والا بہانہ سو فیصد جائز بہانہ تھا۔

میں نے دو انگلیوں اور چائے کے بہانے سے بچتے ہوئے فورا جواب دیا۔۔ گلاس ہولڈر ہی نہیں ۔۔۔ میں پانی لے تو لوں مگر اسے رکھوں گا کہاں؟

میں گلاس ہولڈر اور پراسٹریٹ کے باہمی تعلق کا سوچ کر اپنے اس اچھوتے خیال کو داد دے رہا تھا کہ اچانک ایک کڑک دار آواز نے مجھے بیدار کر دیا۔

آپ کا گلاس کہاں ہے؟

یہ نیچے’’ کینگرو‘‘ پاکٹ میں پڑا ہے۔ جیسے ہی میری نظر اس سرمے دانی سے دوچار ہوئی تو مجھے فورا سمجھ آ گئی کہ وہ مجھ سے گلاس کا نہیں پوچھ رہی۔۔۔ بلکہ طنزیہ سوال کر رہی ہے کہ ۔۔۔ انکل جی ۔۔۔ اگر آپ نے پانی پینا ہی نہیں تھا تو گلاس لیا ہی کیوں؟ لیکن پچکے ہوئے گلاس اور ہاتھ میں موٹی کتاب کو دیکھ کر اس نے مجھ پر مزید حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے وہ آخری دو مسافروں کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ میں نے بھی سکھ کا ایک گہرا سانس لیا کہ بلا جلد ہی ٹل گئی ہے۔۔۔ بلا اس لئے کہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی سیف اللہ کے ابا کی گھنٹی بجا کر بلانے پر کتے والی کر چکی تھی۔

آپ کو معلوم ہے سڑک ہموار نہیں ۔۔۔ پھر بھی گھنٹی پہ گھنٹی بجائے بجا ے چلے جا رہے تھے۔ آپ کچھ تو کامن سینس کا استعال کریں کیا ایمرجنسی تھی ؟۔۔ بتائیں ۔۔؟

وہ پانی چاہیے تھا۔۔۔

میں نے غلام باغ کا ورق نمبر ۱۵۶بدلتے ہوئے ایک نظر اٹھا کر سیف اللہ کے ابا کو دیکھا اور دل ہی دل میں زور سے چلایا۔۔۔۔۔

ارے بدھو۔۔۔ یہ مچھلی تیرے جال میں آنے والی نہیں۔۔۔ تو تو اپنے کنویں پر ہی توجہ دے۔۔۔

ہوسٹس کی واپسی پر ۲۲ نمبر نشت پر بیٹھی اماں ۔۔۔ اماں اس لئے کہ وہ لگتی ہی اماں تھی ۔۔۔ نے اس کی کمر کے کوہلے سے شروع کر گے دوسانگی سے ۸ انچ نیچے تک ہاتھ پھیر کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ راستے میں کوئی گھاٹی یا پھر کوئی خم ہے بھی کے نہیں ۔۔۔اس کے ہاتھ نے جیومیٹری کی کسی بھی شکل نہیں بنائی تو ہاتھ واپس اٹھانے تک کافی بھاری ہو چکا تھا۔ اس کے مڑتے ہی مزید ایک گلاس سیون اپ کی فرمائیش کر دی۔ بس ہوسٹس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ پہلے تو لگا کہ وہ اس دست درازی پر آسمان سر پر اٹھا لے گی لیکن اس نے کمال لاپرواہی سے اماں کی طرف دیکھ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔

مجھے یقین ہو چکا تھا کہ اماں کو جو “ اپھارا “ تھا اس کا حل ہاتھ پھیرنے سے ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے چہرے کی مایوسی بتا رہی تھی کے اس نے کسی پوٹھاری سلسلہ کی بجائے سوکھے چناب کے درمیان تقریباً ہموار ریت پر اپنی انگلیوں سے نقش تراشنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اپنی اسی ناکامی پر ہونے والی مایوسی کو کم کرنے کے لئے اسے اب کیفین کی اشد ضرورت تھی۔

کلر کہار کی پہاڑیوں میں ۴:۲۰ منٹ پر ہی شام غروب آفتاب سے کافی پہلے ہی آمڈ آئی تھی۔ میں نے بھی غلام باغ کے صفہ۱۹۳ پر دھاگے کا حاشیہ کھینچ کر اسے اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔۔

ارے یہاں کہیں ہی تو غلام باغ کے ’’کبیر “ کا گاوں ہے۔۔۔

کیا ناول میں کبیر کے گاوں کا نام بدل کر تو نہیں لکھا گیا؟ کیوں میرے دماغ میں بار بار’’ بوچھال کلاں‘‘ کے نقوش امڈ رہے ہیں ۔ بوچھال کلاں اسی پہاڑی سلسلہ کا ایک تاریخی گاوں ہے۔ وہی جل پھتری پہاڑی کے عمودی ہوتے ہوئے میدان کے آخر پر اچانک سے کئی سو فٹ گہری عمودی کھائی۔ وہ کھائی جس میں کیکر ، بیری کے درخت اور سنیٹھے کی جھاڑیاں وافر تعداد میں تھیں۔۔۔ وہی کھائی جس کے اندر چھپے رازوں کو جاننے کے لئے میں اس کی کوکھ تک اترتا چلا گیا تھا۔ اور پھر اس کوکھ سے ابلتے پانی کے چشمے نے مجھ پر سحر طاری کر دیا تھا۔ گہرائی میں اترتے ہوئے میں نے ایک مقامی ارذل نسل کے بوڑھے سے محفوظ راستہ پوچھ لیا تھا۔ چشمے کے پانی میں ایک دو ۔۔۔ ڈبکی لگاتے ہی ساری تھکن اور ساری پیاس رفو چکر ہو گئی تھی۔ کیا طلسماتی منظر تھا۔۔ بوڑھے ارذلی نے مجھے وارننگ بھی دی تھی کہ گھاٹی سے اماواس کی رات سے دو دن پہلے اور تین دن بعد تک عجیب سی آوازیں آتی ہیں۔ جیسے عورتیں اونچی اونچی آواز میں باتیں کر رہی ہوں۔ شائد کھٹے کے پہاڑی سلسلہ میں موجود ساری پچھل پیری چڑیلیں اماوس کی راتوں میں جب گپ اندھیرا ہوتا ہے یہاں آ کر غسل کرتی ہیں ۔ آج اماوس کی رات ہی ہے۔ تم سورج ڈھلنے سے پہلے لازمی واپس چلے آنا۔ لازمی ۔۔۔اچھا!!!

لیکن اس جگہ سے جلدی واپس جانا گناہ کبیرہ کے مترادف تھا۔۔ چشمے کے بہتے پانی کے ساتھ چلتے چلتے ۔۔۔ ایک فرلانگ کے فاصلہ پر برٹش دور کی لکڑی کی ایک کھنڈر عمارت تھی۔ اس کی بناوٹ چیخ چیخ کر اس کے شاندار ماضی کی گواہی دے رہی تھی۔ بلکل ویسا ہی نقشہ اور ویسا ہی میٹریل جو ووڈ ورتھ کے لیک ڈسٹرک میں ایک جھیل سے دوسری جھیل تک جاتے ہوئے کسی چھوٹی پہاڑی کے ساتھ بہتے پانی کی ندی کنارے بنی لکڑی کی پرانی عمارت جیسا تھا۔

سوچ و تخیل کے گھوڑے نے ایک بار پھر اپنی پرواز کو اور اوپر ۔۔۔لے جا کر آنکھیں بندھ کر کے خود کو ہوا کے دوش پر چھوڑ دیا تھا۔ سکون ہی سکون ۔۔۔ کوئی ڈر نہیں ۔۔۔ سوچ کی ابدی آزادی جس کے بعد موت سے بھی عشق ہو جائے۔ قسمت والوں کو ہی یہ

مقام نصیب ہوتا ہے۔۔۔اور اس وقت میں خود کو دنیا کا سب سے زیادہ خوش قسمت شخص تصور کر کے نشے میں چور اور سرشاری کے سات سمندروں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔

کبیر کے گاوں کے قریب جل پھتری پہاڑی سے تھوڑا آگے غار میں بیٹھا سو سالہ زندہ چٹا پیر۔۔۔ کیا اس نیلی آنکھوں والے چٹے پیر کو اسی برٹش عمارت کے کسی باسی نے جاگ تو نہیں لگائی تھی۔ چٹے پیر کی سانولی ماں جس کا جوبن عروج پر تھا مگر اس کا گھر والا تو کسی ایسی لوگائی کے چکر میں تھا جس کی کہنی ( عرق) پر چراغ (دیوا) جلتا ہوا نظر آئے۔ لیکن اس کے حصہ میں آئی تو گہرے سانولی رنگت والی نوراں بی بی۔ شادی کے تین سال بعد بھی قبولیت سے محروم لیکن اپنی جیسی رنگت والے دو چھور پیدا کر کے خاوند کے ساتھ ساتھ سارے سسرال کے طعنے سنتی نوارں کا دل جب اپنے ہاتھوں اپنا گلہ گھونٹ دینے کو کرتا تو وہ بھاگتی ہوئی اسی گھاٹی کی کوکھ میں آ کر بہتے پانی سے اپنی جلتی روح کو ٹھنڈا کرتی۔۔۔ یہاں سے ہی ایک فرلانگ دور علاقے میں ہیروں کی تلاش میں آئے انگریز سوداگر نے اپنا ایک چھوٹا سا مسکن بنا لیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ یہ علاقہ کوئلے سے مالا مال ہے اور یہاں صدیوں سے پڑے کوئلے کی کوکھ سے کوئی نا کوئی چمکتا پھتر ضرور جنا گیا ہو گا۔

ایک دن جب نوراں پانی میں غوطے لگا رہی تھی تو۔۔۔ انگریز مہم جو اس طرف آ نکلا ۔ پھر دو نامکمل روحوں کے ملاپ سے نو ماہ بعد نوراں کے گھر ایک’’ کوہ نور‘‘کا ظہور ہوا۔ نیلی آنکھیں چٹا سفید رنگ ۔۔۔گول مٹول کلائیاں جسے دیکھنے سے ہی میلا ہونے کا خوف پیدا ہو جائے۔

اسے دیکھتے ہی چٹے کی دادی ۔۔۔دائی کو گھسیٹ کر ساتھ والے اندھیرے کمرے میں لے گئی۔ دائی کے منہ پر زور سے ہاتھ رکھتے ہی بولی ۔۔۔ خبردار جو گاوں میں کسی کو اس کا بتایا۔ تمھاری خیر اسی میں ہے کہ اپنا منہ بند رکھنا۔

میرا پتر کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہا۔۔۔ یہ بچہ ہمارے خاندان کا نطفہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔

آنکھیں بند کئے ۔۔۔محو پرواز ۔۔۔ سکون ہی سکون ۔۔۔ سوچ کا پرندے نے ابھی آدھی آنکھ کھول کر دیکھا تو بس پہاڑی سلسلہ کا نصف سے زائد سفر طے کر چکی تھی۔۔۔

ہاں وہ غار بھی تو بوچھال کلاں سے قریب ہی تھی۔۔۔ کہیں یہ وہی غار تو نہیں تھی جس میں نوراں کا گھر والا “ چٹے” کو چھوڑ آیا تھا اور آج وہ زندہ پیر بنا بیٹھا تھا۔۔ نہیں وہ کوئی دوسری غار ہو گی۔۔ مجھے یاد ہے کہ اپنی جستجو سے مجبور میں نے ایک بار اس متروک غار کے اندر اپنی لینڈ کروزر سمیت گھس گیا تھا۔ تین سو فٹ کے بعد جسم نے عجیب جھرجری لینا شروع کر دی تھی۔۔ پھر مزید سو فٹ بعد گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنیاچانک تیزی سے کم ہونا شروع ہو گئی تھی۔۔۔ اس سے پہلے کہ ہیڈ لائیٹس مکمل

جواب دے جاتیں میں نے خوف زدہ ہو کر گاڑی واپس موڑ لی تھی۔ واپسی کے چند منٹ بعد ہی گاڑی کی لائیٹس کی مکمل روشنی واپس آ ئی۔

یہ کیا تھا۔۔۔ کوئی جادو تو نہیں تھا۔۔۔ یا پھر خاص سائنسی مسلہ تھا۔۔ کیا بلیک ہول اسی طرح وجود میں آتے ہیں؟ کیا روشنی کو سفر کرنے کے لئے بھی کسی ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور وہ ذریعہ کیا ہے؟ لاکھوں کہکشاوں اور ان میں موجود ہزاروں سولر سسٹم اور ان سب کے درمیان پائے جانے والے جا بجا بلیک ہول ۔۔۔

یہ کیا بکواس ہے ۔۔۔ پہلے سیاست بیچ میں آ گئی تھی اور اب سائنس ۔۔۔ یہ میرے سر میں گھس بیٹھا شیخ فرید الدین عطار کے تیس پرندوں میں سے ایک پرندہ کب جستجو اور حیرت کی وادیوں سے نکل کر اپنی ازلی منزل وادی فنا میں داخل ہو گا؟ کوئی تو اس پرندے کو روکے۔۔ یا پھر اسے جلد از جلد وادی فنا تک لے جائے تاکہ اسے سیمرغ کا دیدار نصیب ہو اورہمیشہ کے لئے قرار آ جائے!

اسی غار کے راستے میں کوئلے کی کئی کانیں ہیں ۔۔۔ ان کانوں کے قریب ہی وہاں کام کرنے والوں نے اپنے ٹینٹ لگائے ہوئے ہیں ۔ کام کرنے والوں میں کئی کم عمر بچے بھی ہیں۔۔ کہتے ہیں کہ ان بچوں کے جسم غار کے اندر ان تنگ راستوں سےآسانی سے نکل جاتے ہیں جہاں کوئی بڑا نہیں گزر سکتا۔ غار کے اندر راستہ بنانے میں ان بچوں کا کوئی ثانی نہیں۔۔۔

بس اچانک رک گئی ۔۔۔او یہ سالٹ رینج سے۔ نکل کر چیک پوسٹ پر اپنا ٹائم نوٹ کروایا جا رہا ہے۔ ایک بار میں نے غور کیا تھا۔۔۔ پولیس والا دونوں ٹانگیں میز پر رکھ کر فون پر کسی سے محو تھا۔ مسافر گاڑیوں والے میز پر پڑی تار میں اپنے وقت کی پرچی پرو کر واپس آ رہے تھے؟ کون سا ٹائم چیک؟ بس کارروائی ۔۔۔ وہی حکمران اشرافیہ کی کارروائی جو پچھلے ۷۵ برسوں سے طاقت کے سر چشمہ عوام سے تواتر کے ساتھ جاری ہے۔

وقت: ۵:۱۰ منٹ:

بس ریسٹ ایریا میں رکی تو یہ پہلی بار ہوا تھا کہ میں بھاگ کر ریسٹ روم کی بجائے سیدھا چکن والے بڈھے امریکی بابے کے ریسٹورنٹ کی لائین میں کھڑا تھا۔ جلدی جلدی آڈر دیا۔۔ ایک زنگر برگر اور ایک ڈرنک۔۔ ۵۶۰ روپے۔۔ ڈرنک کون سی لیں گے؟

سنا ہے پیپسی کافی سٹرونگ ہو گئی ہے؟

سروس بوائے نے مسکراتے ہوئے زنگر کے ساتھ پیپسی بھی پیپر ہولڈر میں لگا دی۔۔

کچھ نیپکن مزید ملیں گے۔۔۔ ؟

یہ نیپکن میں نے احتیاط کے طور پر لئے تھے۔ پچاس سال سے زائد عمر میں احتیاط اختیاری نہیں بلکہ لازمی مضمون ہو جاتا ہے۔۔۔

پہلے ایک نیپکن کھول کر اپنی دونوں ٹانگوں پر سلیقے سے بچھایا پھر دوسرا ، تیسرا اور چوتھا نیپکن بچا کر یقین کیا کہ سب اچھے سے ڈھانپ لیا ہے ۔ پھر برگر والا لفافہ اٹھایا تو ۔۔۔ یہ کیا۔۔ یہ لفافہ تو نیپکن سے زیادہ بڑا اور زیادہ محفوظ بھی ہے۔۔!

پھر ایک ایک کر کے چار نیپکن تہہ لگا کر جیکٹ کی جیب میں رکھے اور خاکی لفافے کو ایک طرف سے مکمل پھاڑ کر اس کا ایک بڑا سا رومال نما سائز اپنی دونوں ٹانگوں پر پھیلا دیا۔ پورا اطمنان کرنے کے بعد کہ اب کوئی داغ نہیں لگے گا۔۔۔ برگر والا باکس اٹھا کر اسے آہستہ آہستہ کھولا۔ اس بار برگر پر اضافی چلی گارلک سارس بھی یہ سوچ کر نا ڈالا کہ داغ لگنے کا کوئی احتمال باقی نا رہے۔ میری یہ ساری احتیاط صرف اور صرف اس لئے تھی کہ میں یہ ثابت کر سکوں کہ ۔۔میں ایک ’’بچہ “ نہیں ہوں۔ میرے ساتھ بیٹھے مسافر بھی چوری چوری مجھے دیکھ کر یہ یقین کر بیٹھے تھے کہ

“ ڈھلوں نے کالا کوٹ ایویں نہیں پایا”

سنکی بڈھا۔۔ نہیں انکل۔۔۔ حالانکہ مجھے انکل کہلائے جانے پر بھی شدید اعتراض ہے۔ گھر میں بھی ۔۔۔میں انکل اور میری بیوی باجی۔۔۔ وہ باجی جو کبھی آنٹی کے درجے پر فائز نہیں ہوتی۔۔۔

کئی سال پہلے ۔۔۔ شہر بہاولپور ۔۔ ہوٹل میں اپنی ریسرچ ٹیم کے ساتھ ٹھہرا ہوا تھا۔۔۔ ٹیم میں صرف میں واحد مرد تھا اور باقی سب یونی کی فریش گریجوئیٹ وہ ۲۲لڑکیاں جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔۔۔

بقول استاد محترم مہدی حسن مرحوم ۔۔۔ جو کام کی لڑکی ہوتی ہے ۔۔۔ اس کی تو ایف اے / ایف ایس سی کے بعد فورا شادی ہو جاتی ہے۔ جو کام کی باقی بچ جاتی ہیں وہ بی اے کرنے کے دوران یا بی اے کرتے ہی پیا گھر سدھار جاتی ہیں۔ اور جن کو کوئی منہ نہیں لگاتا ۔۔۔ وہ ایم اے میں داخلہ لے لیتی ہیں۔۔ ۔ یہ سب سن کر ہم اکڑوں ککٹر بن گئے اور ہماری کلاس میں ایک بھی جوڑا نا بن پایا۔

تو ساری کی ساری لڑکیاں ہی ایم اے پاس تھیں۔ ٹیم کی لیڈر حافظ قرآن اور ہمیشہ سر ڈھاپنے والی ایک متوسط طبقے کی ’’شہزادی‘‘ تھی۔ اکلاپے میں جنس مخالف کا جتنا خیال آتا ہے اس کا ۵فیصد بھی خوف خدا آ جائے تو بائیں کندھے پر بیٹھے فرشتے کب کے بیروزگار ہو چکے ہوتے۔۔۔۔۔

ٹک ٹک ۔۔۔ دروازے پر دستخط سے ہی معلوم ہو گیا کہ حافظہ آ گئی ہے۔۔۔ دروازہ کھولا تو ۔۔۔ افسوس حافظہ ہی کھڑی تھی ۔۔۔

سر ہم فریش جوس پینے بازار جا رہے ہیں ۔۔ آپ ساتھ چلیں گے؟

تین سال میں پہلی بار میں نے جرات کر کے بول ہی پڑا۔۔۔۔۔

ایک تو آپ “ سر” کہہ کر پہلے وار ہی میں میرے اندر کے شیطان کو دفن کر دیتی ہیں اور پھر اس شیطان کا جنازہ اٹھائے مجھے ساتھ بازار جانے کی دعوت دینا ۔۔۔ ظالم بادشاہوں کے دربار کے عقبی کمرے میں ہونے والے ظلم سے بھی بڑا ظلم لگتا ہے۔

ہم بھی احتیاط کے مجسم ہیں مگر آپ تو احتیاط کی چھاؤنی سے کم نہیں ۔۔۔

زور دار قہقہہ ۔۔۔

اپنے زنگر کھانے کی احتیاط سے مجھے میرا مربّی احسن ملک عرف “ احتیاطی بابا” یاد آ جاتا ہے۔۔۔ کیا نفیس اور صاف و شفاف شخصیت ہے۔

احتیاط کرتے کرتے احتیاطی تدابیر میں اتنا مشاق ہو گیا کہ اب اسے احتیا طیوں کا راہنما اعظم کا خطاب مل چکا ہے۔ ڈرپوک اتنا کہ کسی نا محرم کا سوچ کر ہی فورا غسل کرنے چلا جاتا۔ لاحول پڑھتے پڑھتے تھکتا ہی نہیں تھا۔ بزدل ۔۔۔ ازلی بزدل ۔۔۔ آج بھی اپنی پہلی پسند کی یاد سینے سے لگائے کوکا کولا کو جنم دینے والے امریکی شہر میں ایویں ۔۔ ایویں آوارہ گردی کرنے چلا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کسی پارک ، سڑک کنارے یا پھر کسی شاپنگ مال میں وہ پری ورش نظر آ جائے۔۔۔ لیکن ۶۰ کو چھوتی اس پری ورش کو ڈھونڈے کی بجائے اس کی یاد ہی باقی رہے تو یک طرفہ عشق بھی بچا رہے گا۔ لیکن یہ بات اب احتیاط اعظم کو کون سمجھائے کہ ۶۰ کو پہنچنے کے بعد دل کے داغ ہوں یا پھر کپڑوں کے داغ ۔۔۔ جوانی سے زیادہ ذلیل کرتے ہیں۔

ہاں وہ ایک لڑکی بھی تو تھی۔۔۔ جس نے ۲۵ سال تلاش کے بعد مجھے ایک دن دھڑکتے دل سے فون کر لیا۔

ہیلو۔۔۔ جی کون ؟

۔۔۔ میں ہوں کوئی جو آپ کو جانتی ہے۔ آپ ۲۵ سال پہلے بہت سمارٹ تھے۔ آپ جب بھی نظر آتے دل رک سا جاتا تھا۔۔۔

ارے بھائی کون ہو تم ۔۔۔۔ ؟؟؟

میں ہوں بس۔۔۔ اب آپ کے شہر میں آ بسی ہوں ۔۔۔ کبھی ملاقات کریں۔ کیا آپ اب بھی ویسے ہی سمارٹ ہیں۔۔۔ ؟

میرا نمبر کہاں سے ملا۔۔۔؟

اگر بتا دیا تو آپ مجھے پہچان جائیں گے۔۔۔۔

میں ملاقات تک اس بات کو راز میں رکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ ملاقات میں میرے خاوند بھی ساتھ ہونگے۔ آپ گھبرائیں نہیں۔۔۔

سنو بی بی ۔۔ تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔ اپنی چشم تصور میں وہی پرانی تصویر ہی سجائے رکھو۔۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ تصویر مٹ جائے۔ میں آپ سے نہیں مل سکتا۔ یہ احتیاط اس تصور اور لمحے کو مرنے سے بچانے کے لئے ہے جو ۲۵ سال سے آپ نے سنبھال رکھے ہیں ۔

احسن ملک کو میری یہ کہانی بھی اسے اپنی تلاش کی جستجو سے باز نا ۔۔۔رکھ سکی۔۔!

یار احتیاط سے کیا حاصل کیا۔۔۔ عمر بھر کی نا آسودگی۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟

اب چار بیٹیاں بیاہ کر تمھیں اپنے حاصل کن میں خسارہ ہی خسارہ نظر آ رہا ہے تو اس احتیاط سے جوانی میں ہی پیچھا چھڑا لینا تھا۔۔۔میرے مربّی احسن ملک۔۔۔

یار سب لوگ تم جیسے بہادر تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔۔۔!

لیکن یہ کیا۔۔۔ آج میں بھی احتیاط میں احسن ملک کو مات دینے پر تلا ہوا ہوں۔۔۔ آج کوئی داغ لگے بغیر میں برگر کھا کر ثابت کر دونگا۔۔۔ کہ میں کوئی ’’بچہ ْ“ نہیں! ہاں ، آہو۔۔میں بچہ نہیں ہوں۔۔۔

ارے سارے ٹشو تو جیکٹ کی جیب میں رکھ دئیے ۔۔۔ دو نکال کر سامنے رکھ لیتا ہوں تاکہ کسی بھی داغ کے اچانک حملے کی صورت میں اپنا موثر دفاع کر سکوں۔۔۔۔

لو جی چھوٹی چھوٹی بائٹ ۔۔۔چھوٹی چھوٹی بائٹ۔۔۔۔۔

برگر کو اگر عمودی پکڑ کر چھوٹی چھوٹی بائٹ لی جائیں تو داغ کی کیا مجال۔۔۔۔ جو قریب بھی پھڑک سکے!

اگر بائٹ لینے کے بعد ہاتھ میں پکڑا برگر جو بائٹ کے دوران تھوڑا سا اگلی طرف جھک گیا تھا کو بائٹ کے بعد تھوڑا پچھلی جانب جھکا لیا جائے تو برگر کے اندر لگے کسی بھی سیال مادے کا باہر گرنے کا چانس مزید کم ہو جاتا ہے۔۔۔۔

اپنے تمام افقی و عمودی زاویے بروئے کار لا کر جب میں نے برگر ختم کیا تو ۔۔۔ میں بہت خوش تھا۔۔۔۔۔

میں بچہ نہیں ہوں۔۔۔۔!

اب گود میں رکھے سارے کاغذ احتیاط سے سمیٹ کر واپس محفوظ بنائے جا چکے تھے۔ میں نے پیپسی کے آخری دو گھونٹ لئے۔۔۔ اور سارا کچرا ہیڈ ٹریک پر رکھنے کے لئے اٹھا۔ کچرا رکھنے کے بعد حسب عادت اپنی جیکٹ کو سامنے سے جھاڑا۔ کوئی داغ نہیں ہے۔۔۔۔

لیکن میری خوشی دیر پا نہیں تھی۔۔۔ نظر جب جیکٹ سےنیچے پینٹ کے آسن کے بائیں جانب عین مرکز سے دو انچ دور اور بیلٹ سے پونے دو انچ نیچے پڑی ۔۔۔برگر سے نکلے ایک چھوٹے سے سیال مادے کا داغ لگا ہوا تھا۔۔۔۔

میں دھڑام سے اپنی نشت پر آ گرا۔۔۔۔۔

میری ساری کوشش اور احتیاط رائیگاں گئی۔ کیا داغ اور بڑھاپا لازم و ملزوم ہیں؟ میرے ابا تو برگر نہیں کھاتے تھے۔ میرے سسر بھی برگر سے سخت نفرت کرتے تھے۔ تو ان کے حصہ میں بھی تو ہر بزرگ کی طرح چھوٹے موٹے داغ آئے۔ کیا داغ واقعی بڑھاپے کی مجبوری ہیں ؟ کیا داغ واقعی اچھے ہوتے ہیں؟ کیا کوئی داغوں سے بچ پایا ہے؟ کوئی بھی انسان ۔ مرد اور کوئی سی بھی عورت؟ اور شائد مردوں کو دوبارہ بچہ بننا اس لئے بھی سوٹ کرتا ہے کہ ۔۔۔

بچوں کی پوشاک اور منہ پر لگے داغ قابل معافی ہوتے ہیں!