مغل کہاں جائیں؟ انڈیا میں نصاب کی کتاب سے اخراج کے بعد اب ذات کی فہرست سے بھی باہر

انڈیا میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی 12ویں کلاس کی نصابی کتابوں سے مغلوں کو ہٹائے جانے کے بعد اب بہار کی ذات پر مبنی مردم شماری کے فہرست سے بھی ’مغل‘ غائب ہیں۔

’مغل‘ کو یوں تو انڈیا میں مسلمانوں کی اعلی ذات میں شمار کیا جاتا ہے لیکن 15 اپریل سے شروع ہونے والی ذات پر مبنی مردم شماری کے دوسرے مرحلے سے یہ نام غائب ہے۔

بہار کے دربھنگہ ضلعے کے بینی پور اسمبلی کے ایم ایل اے ونے کمار چودھری اور سیتامڑھی ضلعے میں باج پٹی اسمبلی سے ایم ایل اے مکیش کمار یادو نے بھی اس تناظر میں بہار اسمبلی سکریٹری کو خط لکھا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جے ڈی یو کے ایم ایل اے ونے کمار کا کہنا ہے کہ ’دربھنگہ ضلعے میں ہی ان کی آبادی تقریباً دس ہزار ہو گی۔ انھیں مغل ذات کے نام سے ہی ذات کا سرٹیفکیٹ، زمین کے کتھیان (قبالے) سب کچھ ملتے رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جالے بلاک کے عہدیداروں نے متعلقہ محکمہ کو مغل ذات کا نام شامل کرنے کی کوئی رپورٹ نہیں دی تھی، اسی وجہ سے میں نے بہار قانون ساز اسمبلی میں ایک درخواست پیش کی ہے، جسے قبول کر لیا گیا ہے اور درخواست کمیٹی کو بھیج دی گئی ہے۔’

دربھنگہ کے ضلع مجسٹریٹ راجیو روشن نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ معاملہ میرے نوٹس میں ہے اور فی الحال متعلقہ محکمے کے ساتھ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مردم شماری میں مغل ذات کا نام ’دوسروں‘ کے زمرے میں درج کیا جائے گا اور بعد میں۔ ان کی تعداد شمار کی جائے گی۔‘

سیتامڑھی ضلعے کی نانپور پنچایت میں بھی مغلوں کا ایک گاؤں ٹھنگول آباد ہے جہاں مغلوں نے اپنے ایم ایل مکیش کمار یادو کے توسط سے یہ پیغام دارالحکومت پٹنہ میں سیکریٹری تک پہنچایا ہے۔

کیا مسئلہ ہے؟
بہار میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ اس مرحلے میں حکومت کاسٹ کوڈنگ کر رہی ہے۔ اس کے لیے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ نے ریاست کی 214 ذاتوں کو کوڈ جاری کیے ہیں، جب کہ باقیوں کے لیے دیگر کا کوڈ نمبر 215 ہے۔

ذاتوں کی اس کوڈنگ میں ’مغل’ ذات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اگر ماہرین کی مانیں تو دربھنگہ، سمستی پور، سیتامڑھی، سیوان کے ساتھ سیمانچل کے کئی اضلاع میں ان کی آبادی ہے۔

تعلیم کے شعبے سے وابستہ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے سہرسہ ریجنل سینٹر کے ڈائریکٹر مرزا نہال احمد بیگ اسی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بہار کے سرحدی علاقے میں ان کی موجودگی اورنگزیب کے عہد سے ہے اور ان کے کئی گاؤں آباد ہیں جو اپنے رہن سہن اور بول چال میں علاقے سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔

ان کی انھی چند گاؤں میں آپس میں شادیاں ہوتی ہیں اور ان کے اپنے رواج ہیں یہ ذات سے کہیں زیادہ قبائل کی شکل میں موجود ہیں اور بہت حد تک اپنی شناخت برقرار رکھی ہوئی ہے۔

مغل ذات کے لوگ ’مرزا‘ اور ’بیگ‘ کو اپنی کنیت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

دربھنگہ کے جالے بلاک جہاں ان کی اچھی آبادی ہے وہیں اطہر امام بیگ بھی مغل ہیں۔ وہ جے ڈی یو کی جالے یونٹ کے بلاک صدر ہیں۔

بی بی سی سے بات چیت میں اطہر امام بیگ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے کھتیان (جائیداد کے کاغذات یا قبالے)، ذات پات کے سرٹیفکیٹ سب پر مغل لکھا ہوا ہے، لیکن اب خود حکومت نے انھیں شامل نہیں کیا ہے۔‘

ایسی صورتحال میں ہمیں خوف ہے کہ معاشی طور پر پسماندہ ہونے کی وجہ سے جو 10 فیصد ریزرویشن اعلی ذاتوں کو ملتا ہے اس سے مغل محروم ہو جائيں گے۔

’بے ضرورت رائی کا پہاڑ بنانا‘
ان لوگوں کے پرانے قبالوں یا کھاتوں میں (بطور کھتیان) ان کی ذات کو ’مغل‘ لکھا گیا ہے، جو بعد کے ذات کے سرٹیفکیٹ میں ’مغل‘ ہے۔

اسی طرح بہار کے مونگیر شہر میں ’مغل بازار‘ ہے۔ مونگیر کے بہت سے محلوں اور بازاروں کے تاریخی نام ہیں جیسے توپخانہ، بیلن بازار، چوا باغ (بندوق کے بٹ بنانے کے لیے چوا کی لکڑی کا استعمال کیا جاتا تھا) وغیرہ۔

اسی طرح بہار کے معروف شمالی شہر مظفرپور کے چندوارہ محلے میں مدرسہ دارالتکمیل کے سامنے ایک معروف مغل مسجد ہے۔

تاہم مغل ذات کے کچھ لوگ نام نہ شامل کرنے کو ایک غیر ضروری تنازع بھی قرار دے رہے ہیں۔ مغل ذات سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ سرکاری اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا ہے کہ ’یہ غیر ضروری ہے، حکومت نے کہا ہے کہ انھیں ديگر میں شامل کرکے گنتی کی جائے گی، تل کا تاڑ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟‘

مغل نسل کی اصل
مشہور مورخ امتیاز احمد کہتے ہیں کہ ’قرون وسطیٰ میں تاجکستان اور ازبکستان سے آباد ہونے والے لوگ مغل کہلانے لگے۔ ان میں بابر سب سے اہم تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جو لوگ اپنے آپ کو ان لوگوں سے متعلق سمجھتے تھے، وہ بھی مغل کہلانے لگے۔ یعنی پہلے مغل ایک ذات نہیں تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذات بن گئے۔‘

دربھنگہ کی تاریخ، جہاں مغلوں کو ذات کی مردم شماری میں شامل نہ کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے، وہ مغلیہ سلطنت کے حوالے سے بھی اہم ہے۔

وہاں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا محمد رئیس بخت زبیر الدین ’گورکن‘ کا مقبرہ ہے۔ زبیر الدین مرزا محمد دارا بخت کا بیٹا تھا جو بہادر شاہ ظفر کے بڑے بیٹے تھے۔

زبیر الدین نے ملک کے مختلف حصوں کا سفر کیا، لیکن دربھنگہ مہاراجہ لکشمیشور سنگھ کی انکساری اور مہمان نوازی سے متاثر ہو کر انھوں نے دربھنگہ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان تمام باتوں کا ذکر زبیر الدین نے اپنی کتاب ’موجۂ سلطانی‘ میں کیا ہے۔

دربھنگہ کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے منظر سلیمان کہتے ہیں ’یہ لوگ دو مرحلوں میں بہار آئے۔ پہلا پلاسی کی جنگ کے بعد اور دوسرا 1857 کے انقلاب میں مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد۔‘

سلیمان کہتے ہیں: ’لوگ یہاں آکر پرانے دربھنگہ، بھال پٹی، سمستی پور کے قریب بیگم پور کے آس پاس آباد ہوگئے۔ میں نے خود ان لوگوں کے گھروں میں 80 کی دہائی تک تلواریں، نیزے وغیرہ دیکھے ہیں، جو کسی جنگجو کے ہتھیار ہوا کرتے تھے، لیکن ان لوگوں نے اپنی تاریخ رقم نہیں کی۔‘

اس کے علاوہ یہ لوگ دربھنگہ میں جالے تھانے کے تحت گرڑی، مرزا پور اور سیتامڑھی کے نانپور بلاک کے ٹھنگول میں آباد ہیں۔

ٹرانس جینڈرز بھی ناراض
ایسا نہیں ہے کہ مسلم سماج میں یہ غصہ صرف مغل ذات تک محدود ہے۔

’بھارت کے دلت مسلمان‘ کے مصنف محمد ایوب رائن بتاتے ہیں: ’مسلمانوں کی بہت سی او بی سی ذاتیں، جن کا سچر کمیٹی میں ذکر کیا گیا ہے، انھیں بھی ذات کی مردم شماری کی فہرست میں نہیں رکھا گیا ہے۔‘

اس کے ساتھ اس ذات پر مبنی مردم شماری میں کاسٹ کوڈنگ سے ٹرانس جینڈرز بھی ناراض ہیں۔ حکومت نے کنر/کوتھی/خواجہ سرا/ٹرانس جینڈر کو ایک ذات کے طور پر درجہ بند کیا ہے جس کو 22 نمبر کوڈ دیئے گئے ہیں۔

ریشما پرساد ایک طویل عرصے سے خواجہ سراؤں کے مسئلے پر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’حکومت نے صنفی شناخت کو ذات کی شناخت بنا دیا ہے جو کہ آئین ہند کی آرٹیکل 14، کے ٹرانسجینڈر پروٹیکشن رائٹ ایکٹ 2019 کی خلاف ورزی ہے۔ جب خاتون اور مرد کوئی ذات نہیں تو ٹرانسجینڈر ذات کس طرح ہو سکتی ہے۔‘

دہلی سے بی بی سی اردو کے نمائندے مرزا اے بی بيگ کے ان پٹ کے ساتھ