معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
خوش نصیب کون؟
’’چوہدری صاحب آپ کہاں پھر رہے ہیں؟‘‘ میں نے چونک کر آواز کی طرف دیکھا‘سامنے گیٹ تھا اور وہاں ایک باریش شخص کھڑا تھا‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’واک کر رہا ہوں‘ آپ یہاں کیا کرتے ہیں؟‘‘
اس نے خوش دلی سے جواب دیا ’’میں اس فارم ہاؤس کا کیئر ٹیکر ہوں‘‘ میں نے فارم ہاؤس پر نظر دوڑائی‘ وہ باہر سے رقبے اور تعمیر دونوں لحاظ سے بڑا دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے پوچھا ’’یہ کس کا فارم ہاؤس ہے؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’مالک کراچی رہتے ہیں اور ٹیکسٹائل کا بزنس کرتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا صاحب آتے رہتے ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’سال میں ایک آدھ بار آتے ہیں اور وہ بھی دو یا تین دن کے لیے‘‘ اس نے مجھے اندر چلنے کی دعوت دی اور میں نے وہ دعوت قبول کر لی‘ گیٹ کھلا تو اندر کی دنیا ہی اور تھی‘ وسیع لانز‘ جنگل جیسا گھنا باغ‘ پھل دار پودے اور ان پر منوں کے حساب سے پھل‘ سوئمنگ پول بھی تھا اور پول کے ساتھ حویلی نما طویل وعریض عمارت تھی‘ پیچھے تین آسٹریلین گائیں بھی بندھی ہوئی تھیں‘ فارم ہاؤس پورا محل تھا‘ مجھے عمارت‘ لانز اور باغوں نے اپنے سحر میں لے لیا اور میں دیر تک اس جگہ کی تعریف کرتارہا‘ مجھے ساتھ ساتھ مالک کی بدقسمتی پر بھی افسوس ہو رہا تھا‘ اس نے اتنے چاؤ سے ایسی خوب صورت پراپرٹی بنائی لیکن وہ اس کو انجوائے نہیں کر سکا‘ وہ سال میں ایک آدھ بار آتا ہے اور دو تین بے آرام راتیں گزار کر چلا جاتا ہے‘ بے چارہ‘ میں نے کیئر ٹیکر سے پوچھا ’’آپ کے صاحب کیسے لوگ ہیں؟‘‘
اس نے خوش دلی سے جواب دیا ’’سر بہت اچھے ہیں‘ صاحب نے رہائش کے لیے بہت آرام دہ کوارٹر دے رکھا ہے‘ اس میں اے سی تک لگا ہوا ہے‘ میرا پورا خاندان یہاں رہتا ہے‘ صاحب بچوں کے اسکول کی فیس بھی دیتا ہے‘ دوائی اور ڈاکٹر کی سہولت بھی ہے‘ گائیں صاحب کی ہیں لیکن دودھ ہم پیتے ہیں‘ فارم ہاؤس کا اناج اور پھل بھی ہم ہی استعمال کرتے ہیں‘ میرے بچے سوئمنگ پول میں تیر بھی لیتے ہیں اور صاحب ہر مہینے راشن بھی بھجوا دیتا ہے چناں چہ اللہ کا بڑا کرم ہے‘‘۔
میں نے اس سے پوچھا ’’تم نے یہ نوکری کیسے حاصل کی تھی؟‘‘ اس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’یہ سب میرے اللہ کا کرم ہے‘ میں اپنے گاؤں میں پرائمری اسکول ٹیچر تھا‘ تنخواہ کم تھی‘ گزارہ نہیں ہو تا تھا‘ میں نے ایک دن دعا کی یاپروردگار آپ نے اتنی خوب صورت دنیا بنائی ہے‘ کیا اس دنیا میں میرے لیے تھوڑی سی بھی جگہ نہیں‘ اللہ نے میرا شکوہ سن لیا‘ صاحب کا ڈرائیور ہمارے گاؤں میں رہتا تھا‘ وہ چھٹی پر آیا‘ مجھے ملا اور مجھے آفر کی ہمارے صاحب نے نیا فارم ہاؤس بنایا ہے‘انھیں ایک ایمان دار چوکی دار کی ضرورت ہے‘ کیا تم یہ کام کرو گے؟
میں نے فوراً ہاں کر دی‘ وہ مجھے اپنے ساتھ صاحب کے پاس لے گیا‘ صاحب نے مجھے ایک نظر دیکھا اور نوکری پر رکھ لیا‘ چوہدری صاحب آپ یقین کریں میں جب یہاں آیا تو مجھے یہ فارم ہاؤس زمین پر جنت محسوس ہوا چناں چہ میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور اس دن سے اس جگہ کو انجوائے کر رہا ہوں‘‘۔
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’چوہدری صاحب آپ یقین کریں مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ نے یہ فارم ہاؤس شاید بنوایا ہی میرے لیے تھا‘ میں نے زندگی میں اﷲ سے جو کچھ مانگاوہ اس فارم ہاؤس میں موجود ہے‘ میں نے کہانیوں کی کتابوں میں پڑھا تھا امیر لوگوں کے گھر بڑے ہوتے ہیں‘ ان میں باغ اور لان ہوتے ہیں اور وہ لوگ سوئمنگ پول میں نہاتے ہیں‘ میں یہ پڑھتا تھا تو اللہ سے عرض کرتا تھا پروردگار کیا یہ نعمتیں میرے نصیب میں بھی ہیں؟ اور پھر اﷲ نے وہ ساری نعمتیں اکٹھی کر کے میرے حوالے کر دیں۔
وہ بول رہا تھا اور میرے دماغ میں روشنی کے گولے پھٹ رہے تھے‘ یہ زندگی کا ایک نیا تصورتھا کہ ہم جس سہولت‘ جس چیز کو استعمال کرتے ہیں وہ ہماری ہویا نہ ہو اس سے فرق نہیں پڑتا ‘دنیا کی ہر چیز بس اﷲ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور وہ ہمیں اپنی ملکیت عارضی طور پر لیز کرتا ہے‘ ہم اس سہولت کو انجوائے کرتے ہیں اور جب لیز کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو اﷲ وہ ہم سے لے کر کسی اور کے حوالے کر دیتا ہے‘دنیا میں زمینیں‘ پلاٹس‘ فارم ہاؤسز‘ گھر‘ گاڑیاں یا کچن کس کے نام درج ہیں یہ اہم نہیں ہوتا‘اہم یہ ہوتا ہے ان سہولتوں کو استعمال کون کر رہا ہے۔
آپ گاڑی ہی کو لے لیں‘ آپ پانچ کروڑ روپے کی گاڑی خریدتے ہیں لیکن یہ سہولت استعمال کون کرتا ہے‘ آپ کا ڈرائیور لہٰذاہم کہہ سکتے ہیں اﷲ تعالیٰ نے ڈرائیور کو ایک پیسہ لگائے بغیر پانچ کروڑ روپے کی گاڑی بھی دے دی اور اسے گاڑی کے پٹرول اور مینٹیننس کے خرچ سے بھی آزاد کر دیا‘ گاڑی کو انجوائے وہ کرتا ہے اور اس میں پٹرول آپ ڈلواتے ہیں‘آپ اسی طرح دس پندرہ بیس کروڑ روپے کا گھر بناتے ہیں لیکن اسے انجوائے آپ کا کرایہ دار کرتا ہے یا پھر آپ کے ملازمین‘ کچن آپ کا ہوتا ہے‘ اس کے لیے سودا سلف بھی آپ خریدتے ہیں لیکن کھانا آپ کے ملازمین انجوائے کرتے ہیں‘ پچاس ساٹھ کروڑ روپے کا فارم ہاؤس آپ بناتے ہیں لیکن اس کا فائدہ آپ کے ملازمین اٹھاتے ہیں اور امریکا اور لندن سے کپڑے آپ خریدتے ہیں۔
جرمن اور سوئس کمپنیوں کے جوتے آپ لاتے ہیں لیکن انھیں استعمال وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں ان کی ویلیو تک معلوم نہیں ہوتی اور دن رات محنت آپ کرتے ہیں مگر اس محنت کا اصل فائدہ ان لوگوں کو پہنچتا ہے جن کا اس محنت میں ذرا برابر عمل نہیں ہوتا‘ آپ کی محنت کا اصل فائدہ آپ کے چوکی دار‘ ڈرائیور‘ خانساماں اور ہیلپر اٹھاتے ہیں‘ آپ نے کبھی سوچا ایسا کیوں ہوتا ہے؟
یہ سب اﷲ کا کرم ہے‘ وہ کسی نہ کسی کی دعا سن کر اسے ہماری ذمے داری میں دے دیتا ہے اور ہم اس کے لیے دن رات کام کرتے رہتے ہیں‘ ہم اس کے لیے دھڑا دھڑ مہنگی چیزیں خریدتے رہتے ہیں‘آپ ذرا سوچیے دنیا کی وہ تمام سہولتیں جو ہمارے کھاتے میں درج ہیں‘ ان کے مالک ہم ہیں یا پھر وہ لوگ جو سہولتوں سے لطف اٹھا رہے ہیں؟ کام میں کرتا ہوں‘ بجلی کا بل میں دیتا ہوں لیکن پنکھے‘ ہیٹر اور فریج کو انجوائے میرا چوکی دار‘ ڈرائیور‘ ہیلپر اور کک کرتا ہے‘ گھر میں بناتا ہوں لیکن اس میں رہتے دوسرے لوگ ہیں اور وہ اس سہولت کے لیے ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرتے‘ جہاز جہانگیر ترین خریدتے ہیں‘ وہ اس کے لیے گالیاں بھی کھاتے ہیں‘ جرمانے بھی ادا کرتے ہیں اور مینٹیننس کاسٹ بھی برداشت کرتے ہیں لیکن اس جہاز کو انجوائے کیپٹن اور کریو کرتا ہے۔
آپ نے کبھی سوچا گاڑی کی سب سے اچھی‘ مضبوط اور آرام دہ سیٹ کون سی ہوتی ہے؟ جی ہاں ڈرائیونگ سیٹ اور اس سیٹ پر بیٹھتاکون ہے؟ صاحب کا ڈرائیور اور ڈرائیور کی کوالی فکیشن‘ تنخواہ اور مراعات کتنی ہوتی ہیں؟ چند ہزار جب کہ صاحب گاڑی خریدتے خریدتے کھپ چکا ہوتا ہے‘ وہ گاڑی کی مینٹیننس کاسٹ پوری کرنے کے لیے بھی دن رات کام کرتا ہے‘ بالکل اسی طرح صاحب کے کمرے میں ہیٹر ہو یا نہ ہو لیکن چوکی دار کے کیبن میں ضرور ہوتا ہے۔
صاحب خود آرام کرے یا نہ کرے لیکن وہ ڈرائیور کی نیند ضرور پوری کرائے گا‘ وہ اس کے کھانے اور رہائش کا بندوبست ضرور کرتا ہے اور وہ سفر کے دوران اس سے واش روم کے بارے میں بھی پوچھتا رہتا ہے اور اسی طرح صاحب کو کھانا بعد میں ملتا ہے لیکن اس کھانے کو کک پہلے چکھتاہے اور اس کو انجوائے اس کے ملازمین کرتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ صاحب لوگ کھانا صرف دیکھتے ہیں کھانا کھانا ان کے نصیب میں نہیں ہوتا لہٰذا آپ پھر ایک سوال کا جواب دیں‘ خوش نصیب کون ہیں؟ آپ یا آپ کے ملازمین؟۔
آپ یقین کریں کمانا اور کمائی کو انجوائے کرنا یہ دونوں مختلف چیزیں ہوتی ہیں‘ یہ ضروری نہیں ہوتا ہم کما رہے ہیں تو اﷲ نے ہمارے نصیب میں اسے انجوائے کرنا بھی لکھ دیا ہے‘ اﷲ تعالیٰ اکثر اوقات گاؤں یا کچی بستی میں بیٹھے کسی غریب کی دعا سن لیتا ہے اور وہ ہمیں کمانے اور بنانے پر لگا دیتا ہے اور ہمارے بنائے اور کمائے ہوئے کو کوئی دوسرا انجوائے کرتا رہتا ہے اور وہ جب انجوائے کر کے تھک جاتا ہے تو ہمارے ذہن میں ایک چھوٹا سا خیال آتا ہے اور ہم اپنے محل بیچ کر آگے چل پڑتے ہیں اور ان محلوں میں پھر کوئی اور اللہ دتہ‘ محمد بشیر یا نوردین بس جاتا ہے چناں چہ میرا مشورہ ہے آپ جب بھی دعا کریں پانے یا کمانے کی نہ کریں‘سہولت کو استعمال کرنے کی کریں‘ آپ زیادہ فائدے میں رہیں گے‘ آپ خوش نصیب ہو جائیں گے۔