معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
کل اور آج
ہمیں ماننا ہوگا عمران خان نے ساڑھے تین برسوں میں اپنے آپ کو ریاست سے زیادہ مضبوط بنا لیا تھا‘ اس نے میڈیا کو تقسیم کر دیا اور سوشل میڈیا پر اپنے انفلوئنسرز کے ذریعے تمام سیاسی قیادت کو کرپٹ‘ چور اور ڈاکو ثابت کر دیا‘اس نے ملک کے ٹاپ بزنس مین‘ بیوروکریٹس‘ ججز اور افواج پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں کے بچوں اور خواتین کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا لہٰذا آج مقتدر اداروں کے سربراہان کی خواتین اور اولادیں عمران خان کے ٹائیگرز ہیں اور یہ سپوت تاریخ سے واقف ہیں اور نہ حقائق سے چناں چہ فیصلہ ساز عہدیدار گھروں سے دباؤ میں ہیں۔
چوہدری برادران تک کی خواتین لبرٹی چوک کے دھرنے پر جاتی تھیں اور چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کو عمران خان کے خلاف بات کرنے کے لیے گھر سے باہر جانا پڑتا تھا‘ جنرل باجوہ کے دونوں صاحب زادے عمران خان سے ہمدردی رکھتے ہیں‘ جنرل فیض کی بیگم بشریٰ بی بی کی مرید بن چکی تھیں جب کہ ججوں کے بچے اور بچیاں‘ بزنس ٹائیکونز کی فیملیز اور اہم بیوروکریٹس کے چشم وچراغ بھی عمران خان کے رنگ میں رنگ چکے ہیں‘ عمران خان یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا سرکار میں شخصیات کے بجائے کرسی اہم ہوتی ہے۔
اس نے اس کم زوری کا بھی خوب فائدہ اٹھایا‘ اس نے ہر اہم ادارے میں ولی عہدوں کی پوری فوج تیار کر لی اور ہر شخص کو یہ امید دلا دی تم بھی آرمی چیف‘ چیف جسٹس اور وزیراعلیٰ بن سکتے ہو لہٰذا لوگ عہدوں کے لالچ میں بھی اس کے ساتھ جڑتے چلے گئے اور یوں عمران خان وِن اور ملک لوز پر لوز کرتا چلا گیا یہاں تک کہ 2021 آ گیا اور پاکستان کے دوست ملکوں نے اشرافیہ کو قمیض سے پکڑکر جھٹکے دینا اور یہ بتانا شروع کر دیا ’’اوئے آگے کھائی ہے‘ تم لوگ کس طرف جا رہے ہو‘‘ اشرافیہ کو جھٹکا لگا‘ اس نے آنکھ کھولی اور گھبرا کر بریک لگا دی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی لہٰذا اس بریک کا وہی نتیجہ نکلا جو ایمرجنسی میں بریک کا نکلا کرتا ہے‘ ملک سیدھا کھائی میں جا گرا۔
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ ہماری اسٹیبلشمنٹ دنیا کی بہترین اسٹیبلشمنٹ کہلاتی ہے‘ ہم بھارتی وزیراعظم کے دفتر کی سرگوشی تک سن لیتے ہیں اور ہم نے چالیس سال روس اور امریکا کو افغانستان میں پھنسائے رکھا لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے عزائم کا بروقت اندازہ کیوں نہیں لگا سکی؟اس کا جواب ایکسٹینشن ہے‘ جنرل باجوہ نے ایکسٹینشن کی وجہ سے آنکھیں بند کر لی تھیں اور یہ جنرل فیض حمید کے ہاتھوں یرغمال بن گئے تھے۔
عمران خان نے19 اگست 2019 کو جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دی لیکن جان بوجھ کر اپنے دستخطوں سے لیٹر جاری کیا اور یوں ایکسٹینشن میڈیا اور سوشل میڈیا پر ذلیل ہونے لگی‘ سپریم کورٹ نے بھی تھیٹر لگا دیا‘ عمران خان کے اہم وزراء اس زمانے میں دعویٰ کرتے تھے جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی تین سال ایکسٹینشن لینا چاہتے تھے لیکن چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافے کے لیے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت چاہیے تھی اور میاں نواز شریف نے صاف انکار کر دیا تھایوں جسٹس کھوسہ کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور انھوں نے انتقاماً جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن بھی متنازع بنا دی۔
بہرحال قصہ مزید مختصر جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن مل گئی جس کے بعد انھوں نے پلڑے کو بیلنس کرنا شروع کر دیا اور یہ اپوزیشن کو بھی ریلیف دینے لگے‘ یہ ملاقاتیں رنگ لائیں اور 2021 میں اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل ہونے کا اعلان کر دیا‘ اس دوران جنرل فیض حمید کی پوسٹنگ کا ایشو بھی بن گیا‘ عمران خان اپنے رائٹ ہینڈ کو دور نہیں کرنا چاہتے تھے‘ ان کی خواہش تھی جنرل باجوہ آرمی ایکٹ میں تبدیلی کر کے جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی کی حیثیت ہی میں آرمی چیف کے قابل سمجھ لیں۔
فوج اس کے لیے رضامند نہیں ہوئی چناں چہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان خوف ناک لڑائی شروع ہو گئی اوراس لڑائی میں عمران خان کم زور ہو گئے اور اقتدار کی ریت ان کے ہاتھ سے سلپ ہونے لگی تاہم عمران خان چالاک انسان ہیں‘ انھوں نے جان بوجھ کر اپنی میٹنگز میں مشورے کرنا شروع کر دیے ’’میں اگر جنرل باجوہ کو ڈی نوٹی فائی کر دوں تو کیا ہوگا؟‘‘ ان مشوروں کا واحد مقصد جنرل باجوہ کو پریشان کرنا ہوتا تھا‘ دوسری طرف عمران خان کی کوشش تھی یہ 2022 کے شروع تک آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو‘ مولانا فضل الرحمن‘ حمزہ شہباز‘ شہباز شریف اور مریم نواز کے خلاف عدالتوں سے فیصلے کرا کر انھیں مستقل طور پر ڈس کوالی فائی کرا دیں اور انھیں دس دس سال کے لیے جیلوں میں بند کر دیں یوں 2022 کا آغاز ہوا تو اپوزیشن کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ جیلوں میں جائیں یا پھر جنرل باجوہ عمران خان اختلافات کا فائدہ اٹھائیں‘ جنرل باجوہ کو بھی عمران خان سے ڈی نوٹی فکیشن کا خطرہ تھا اور ’’خطرات‘‘ کا یہ کامن گراؤنڈ اپوزیشن اور جنرل باجوہ کو قریب لے آیا اور اس قربت کا نتیجہ عدم اعتماد کی صورت میں نکلا۔
عمران خان نے عدم اعتماد سے بچنے کے لیے بے تحاشا ہاتھ پیر مارے‘ یہ ایم کیو ایم اور چوہدریوں کے گھر بھی گئے‘ پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ بھی پیش کر دی‘ جنرل باجوہ کو تاحیات ایکسٹینشن اور ڈی جی آئی کو صدر کے ذریعے ۔۔۔۔۔کی آفر بھی کر دی لیکن یہ کام یاب نہیں ہو سکے اور 9 اپریل 2022 کو حکومت تبدیل ہو گئی جس کے بعد عمران خان کی زندگی کے دو مقصد رہ گئے‘ اول میں نے حکومت نہیں چلنے دینی خواہ اس کے لیے مجھے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘ دوم جنرل فیض حمید کو اگلا آرمی چیف بنانا‘ عمران خان اس مقصد کے لیے میدان میں کود پڑے‘ پی ڈی ایم کی حکومت اس گیم میں کم زور پچ پر تھی۔
یہ لوگ تیاری کے بغیر میدان میں کود پڑے تھے چناں چہ انھوں نے خوف ناک حماقتیں کیں‘ پہلی حماقت میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا تھا‘ شہباز شریف ن لیگ کا اثاثہ تھے‘ اسٹیبلشمنٹ اور عوام انھیں بڑی توپ سمجھتے تھے‘ ن لیگ اگر ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال یا خواجہ آصف کو وزیراعظم بنا دیتی اور شہباز شریف پنجاب چلے جاتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی لیکن ن لیگ نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنا کر اپنا قیمتی مہرہ ضایع کرا لیا جس کے بعد پارٹی اور شہباز شریف دونوں کا مستقبل تباہ ہو گیا۔
دوسری غلطی حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانا تھا‘ اس غلطی نے اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر دیا اور جنرل باجوہ نے شہباز شریف کو ٹھیک ٹھاک سنائیں‘ اس دوسری غلطی کا یہ نتیجہ نکلا سپریم کورٹ نے 63 ون ایف کا معاملہ اٹھایا تو اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کی کوئی مدد نہیں کی‘ 17 جولائی 2022کے ضمنی الیکشن میں بھی ن لیگ کو غیبی مدد نہیں ملی چناں چہ یہ پنجاب کی جنگ ہار گئی اور اس کے بعد جب عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کا مہرہ آگے بڑھایا تو اسٹیبلشمنٹ اس معاملے میں بھی نیوٹرل رہی اور یوں پنجاب عمران خان کی جھولی میں آگیا اور خان نے لاہور میں بیٹھ کر پی ڈی ایم کی چولیں ہلا دیں۔
حکومت کی تیسری حماقت اکانومی تھی‘ مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار کی لڑائی شروع ہو گئی اور اس نے اکانومی کا جنازہ نکال دیا‘ اسحاق ڈار آئے اور یہ دوسرے شہباز شریف ثابت ہوئے اور ملک کے ساتھ ساتھ ن لیگ کا مستقبل بھی تاریک ہو گیا‘ عمران خان نے سوشل میڈیا کا کھل کر استعمال کیا‘ اللہ تعالیٰ نے اسے بیانیہ گھڑنے کا ملکہ دے رکھا ہے۔
یہ روز نیا بیانیہ بناتا رہا جب کہ دوسری طرف کسی پارٹی اور شخصیت میں ’’کاؤنٹر نیریٹو‘‘ کی صلاحیت نہیں تھی‘ مریم نواز نے اسے ٹف ٹائم دیا لیکن پھر یہ خاندانی اختلافات کی وجہ سے باہر چلی گئیں اور میدان خالی ہو گیااور عمران خان ملک کی سب سے بڑی سیاسی طاقت بنتا چلا گیا یوں اس کا ایک مقصد پورا ہو گیا‘ اس نے پی ڈی ایم اور حکومت کو ناک سے لکیریں نکلوا دیں‘ اب دوسرا مقصد باقی تھایعنی جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنوانا‘ عمران خان نے اگست اور ستمبر میں جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں کیں۔
ان ملاقاتوں کے دو مقصد تھے‘ جنرل باجوہ حکومت توڑ کر الیکشن کرا دیں اور اس کے لیے یہ ایکسٹینشن بھی لینا چاہیں تو یہ لے لیں اور جنرل فیض کو اگلا آرمی چیف بنا دیں تاہم یہ دوسری ملاقات میں جنرل فیض حمید سے بھی پیچھے ہٹ گئے اور انھوں نے جنرل عاصم منیر کی جگہ ایک اور جنرل کا نام دے دیا‘ جنرل باجوہ ان کے یہ دونوں کام نہیں کر سکے اور یوں عمران خان کھل کر جنرل باجوہ کے خلاف میدان میں آ گئے۔
یہ میجر فیصل نصیر کو بھی ڈی جی سی کی پوزیشن سے ہٹوانا چاہتے تھے مگر ان کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہو سکی بہرحال قصہ مزید مختصر جنرل عاصم منیر آرمی چیف بن گئے اور عمران خان نے اپنے دوستوں اور صدر کے ذریعے نئے آرمی چیف سے ملاقات اور رابطے کی کوششیں شروع کر دیں مگر یہ کوششیں بارآور نہ ہوئیں لہٰذا خان نے فوج کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے جنوری میں پنجاب اور کے پی کی حکومتیں توڑ دیں مگر فوج نے اس کے باوجود عمران خان سے رابطہ نہیں کیا۔
عمران خان نے اپنا آخری اثاثہ عدلیہ بھی سیاسی تنور میں جھونک دیا‘ اس کا مقصد بھی فوج کو رابطے پر مجبور کرنا تھا لیکن یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے مذاکرات تک کا آپشن کھول دیا‘ اس کا مقصد بھی فوج کو درمیان میں لانا تھا لیکن یہ کارڈ بھی نہ چل سکا اور یوں عمران خان 9مئی پر مجبور ہو گئے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا عمران خان ریاست کے اندر ریاست بنانے میں کام یاب ہو چکے ہیں‘ ان کے پاس حالات سے ناواقف نوجوانوں کی پوری فوج ہے‘ عمران خان جس طرف اشارہ کرتا ہے یہ نوجوان اٹھ کر چل پڑتے ہیں اور اس کا مشاہدہ پوری دنیا نے 9 مئی کو کیا‘ اس سیاہ ترین دن کو جی ایچ کیو پر بھی حملہ ہوا‘ کور کمانڈر لاہور کا گھر بھی جلا ‘میانوالی میں جہاز کے ماڈل کو بھی آگ لگا دی‘قلعہ بالاحصار پشاور پر بھی حملہ ہوا‘سرگودھا میں یادگار شہداء بھی توڑ دی ‘پشاور ریڈیوا سٹیشن اور سوات ٹول پلازہ بھی جلا دیا گیا۔
کراچی میں رینجرز کی چوکی بھی جلا دی گئی اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ بھی ہوگیا‘ریاست شاید یہ بھی برداشت کر جاتی لیکن جب 11مئی کو سپریم کورٹ نے عمران خان کو بلا کر اپنا مہمان ڈکلیئر کیا اور اگلے دن انھیں ان کیسز میں بھی ضمانتیں مل گئیں جن میں انھوں نے درخواست بھی نہیں دی تھی توقوم اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی برداشت جواب دے گئی‘ اس میں کوئی شک نہیں عمران خان کی گرفتاری بری خبر تھی لیکن اس کی رہائی اس سے بھی بری خبر تھی اور اس خبر نے محب وطن لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ (جاری ہے)