معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
اوئے جا توں لنگ جا
’’تیری میں…‘‘ اس نے مجھے پنجابی میں گالی دی اور ڈنڈا لے کر تیزی سے میری طرف دوڑا‘ میں ذہنی طور پر بے عزتی اور مار کے لیے تیار تھا لہٰذا میں نہایت ہی بے شرمی سے کھڑا رہا‘ اس کا ڈنڈا میرے سر تک آ گیا لیکن اس سے پہلے ایک ہاتھ آگے بڑھا اور اس نے ڈنڈا ہوا میں پکڑ لیا۔
مجھے دائیں بائیں سے اوئے اوئے کی آوازیں آنے لگیں‘ ڈنڈے کو ہوا میں پکڑنے والے نے ڈنڈے والے کو پنجابی میں گالی دے کر کہا ’’میں نے جب تم سے کہا تھا‘ میری اجازت کے بغیر تم نے کسی گاڑی اور کسی بندے کو نہیں مارنا تو تم نے یہ کیوں کیا؟‘‘ ڈنڈے والے کی عمر بمشکل تیرہ چودہ سال تھی‘ وہ شکل اور حلیے سے ان پڑھ بھی دکھائی دیتا تھا اور دیہاتی بھی‘وہ دانت نکال کر مجھے دیکھنے لگا‘ وہ مجھے شکل اور نام سے نہیں پہچانتا تھا۔
میں اس کی نظر میں صرف غدار اور دشمن تھا‘ اس کا خیال تھا وہ لوگ ٹیپو سلطان ہیں اور سڑک پر دوسری طرف کھڑے تمام لوگ دشمن ہیں اور دشمنوں کی گاڑیوں اور سروں پر حملہ عین عبادت ہے‘ میں نے دائیں بائیں دیکھا‘ موٹروے کی چاروں سائیڈز پر دور دور تک گاڑیوں کی قطاریں تھیں اور سامنے صرف چار نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا کر کھڑے تھے‘ صرف چار لوگوں نے! جی ہاں صرف چار لوگوں نے پوری موٹر وے بند کر رکھی تھی۔
میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کے دوسرے دن لاہور پہنچا‘ مجھے شہر میں داخل ہونے کے لیے ساڑھے چار گھنٹے سٹرگل کرنا پڑی‘ ٹریفک سیالکوٹ روڈ پر ڈائی ورٹ ہوئی‘ وہاں سے رنگ روڈ پر آئی اور رنگ روڈ بھی ائیرپورٹ کے قریب بند تھی چناں چہ میں ایک طویل ترین ذلالت کے بعد تین لوگوں سے پٹرول مانگ کر بڑی مشکل سے ہوٹل پہنچ سکا‘ میری واپسی اتوار کو تھی‘ میں اتوار کو موٹروے کی طرف نکلامگر ٹھوکر نیاز بیگ پر سڑک پر ٹائر تھے اور ڈنڈا بردار نوجوان تھے‘ میں وہاں سے یتیم خانہ چوک کی طرف مڑا‘ سڑک وہاں سے بھی بند تھی۔
رنگ روڈ پر پہنچا‘ وہ بھی بند تھی‘ نہر پر واپس آیا‘ ٹھوکر کے قریب سائیڈ روڈ پر ٹرک کھڑے تھے‘میں ان کے درمیان سے گزر کر موٹروے کے قریب پہنچ گیا‘ سامنے دو نوجوان کسی مظلوم ٹرک ڈرائیور کو گالیاں دے کر اس سے سڑک بند کرا رہے تھے‘ میں گاڑی سے اتر کر ان کے پاس چلا گیا‘ میری یہ گستاخی دور کھڑے تیرہ چودہ سال کے لڑکے کو پسند نہ آئی اور وہ ڈنڈا اٹھا کر گالیاں دیتا ہوا میری طرف بڑھا لیکن ٹرک ڈرائیور کی مرمت کرنے والے بڑے لڑکے نے عین وقت پر درمیان میں آ کر مجھے بچا لیا۔
میں نے ان سے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا ’’میرا اسلام آباد جانا ضروری ہے‘ موٹروے میرے سامنے ہے‘ آپ مجھے تین گز آگے بڑھنے کا موقع دے دیں‘ میں باقی زندگی آپ کو دعائیں دے کر گزار دوں گا‘‘ وہ چار لڑکے تھے‘ وہ چاروں میرے گرد جمع ہو گئے اور اونچی اونچی آواز میں میری بے شرمی اور بے غیرتی کے ترانے پڑھنے لگے‘ ان کا کہنا تھا ملک میں حقیقی آزادی آ رہی ہے‘ کپتان عوام کی جنگ لڑ رہا ہے اور حکومت نے ان کو گولی مار دی ہے لیکن آپ لوگ اس کا ساتھ نہیں دے رہے۔
آپ سب امریکا کے ایجنٹ ہیں‘ میں خاموش کھڑا ہو کر ان کی تقریر سنتا رہا‘ مجھے محسوس ہوا ان میں سے کوئی بھی شخص مجھے نہیں جانتا‘ وہ اخبار بھی نہیں پڑھتے ہوں گے اور ٹی وی بھی نہیں دیکھتے ہوں گے ورنہ انھوں نے کہیں نہ کہیں میری شکل ضرور دیکھی ہوتی‘ میں نے محسوس کیا وہ کسی دور دراز علاقے سے براہ راست انقلاب پر آ گرے ہیں چناں چہ میں نے ان کی منتیں شروع کر دیں‘ میری منتوں سے ان کی انا کی تسکین ہو رہی تھی اور وہ بڑے فخر سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے جب کہ تیرہ چودہ سال کا لڑکا بتیسی نکال رہا تھا‘ میں نے جب محسوس کیا میری منتوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تو میں مایوس ہو گیا۔
میں نے گردن نیچے جھکائی اور گاڑی کی طرف مڑ گیا‘ میں گاڑی کے قریب پہنچا تو مجھے پیچھے سے آواز آئی ’’اوئے جا توں لنگ جا‘‘ اور وہ آواز میری انا اور میری عزت نفس دونوں کو چیر کر گزر گئی‘ میں وہاں کھڑے کھڑے اندر سے فوت ہو گیا‘ میں گاڑی کی سیٹ پر ڈھیر ہو گیا‘ ڈرائیور نے ان دریا دل لوگوں کا شکریہ ادا کیا‘ وہ سائیڈ پر ہٹے اور ہم موٹروے پر چڑھ گئے‘ موٹروے سے نیچے تین اطراف ہزاروں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان ہزاروں گاڑیوں کو چار لوگوں نے روک رکھا تھا۔
یہ ہے پاکستان‘ آج کا پاکستان‘ عمران خان اسپتال میں لیٹ کر اعلان کرتے ہیں‘ چند سو لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور پورا ملک بند ہو جاتا ہے‘ کیا ملک ایسے ہوتے ہیں اور کیا ملک اس طرح چل سکتے ہیں؟ یہ ملک ہے یا سرکس ہے؟ راولپنڈی میں سڑکوں کے عین درمیان ٹینٹ لگا کر ٹریفک بلاک کر دی جاتی ہے اور اس ٹینٹ میں سارا دن ایک درجن لوگ بھی نہیں ہوتے‘ وہ لوگ جو آج سے چھ ماہ پہلے تک وفاقی وزیر تھے‘ جو آج بھی سینیٹر اور ایم این اے ہیں وہ سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر (جی ہاں وہ ڈپٹی اسپیکر جو آئین اور قانون کا چوکی دار ہے) واثق عباسی موٹروے پر ٹائر جلا کر ٹریفک روک کر سڑک پر کرکٹ کھیل رہا ہے‘ غلام سرور خان ٹیکسلا کے قریب کے پی کے اسلام آباد روٹ بند کر کے بیٹھے ہیں اور جب کوئی مظلوم شہری کہتا ہے میری بیٹی اسپتال میں ایمرجنسی میں ہے اور میرے گھر کی خواتین گاڑی میں بیٹھی ہیں تو وہ بڑی نخوت سے جواب دیتے ہیں ہم سب ایمرجنسی میں ہیں یعنی اگر تمہاری بیٹی مرتی ہے تو مر جائے‘ سڑکوں کی اس بندش سے کتنے لوگوں کو تکلیف ہو ئی‘ کیا اس ملک میں کوئی ادارہ‘ کوئی شخص یہ سوچ رہا ہے؟
کتنے مریض ایمبولینسز میں مر رہے ہیں‘ کتنے اسٹوڈنٹس کالجوں اور یونیورسٹیوں تک نہیںپہنچ پا رہے‘ کتنے طالب علم امتحانوں سے محروم ہیں اور کتنے لوگ دفتروں‘ فیکٹریوں اور مزدوری کی جگہوں تک نہیں پہنچ پا ئے اور کتنے اربوں روپے کی مشینری‘ فروٹس‘ سبزیاں اور اجناس ٹرکوں میں خراب ہو گئیں اور ان سب سے بڑھ کر یہ بے یقینی قوم کی نفسیات پر کتنا اثر ڈال رہی ہے اور لوگ اندرونی اور بیرونی کس حد تک مریض ہو چکے ہیں‘ کیا کوئی سوچ رہا ہے‘ کیا کسی کو احساس ہے؟
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے ہم قومی سطح پر پاگل پن کا شکار ہیں‘ ریاست عملاً ختم ہو چکی ہے‘ ملک میں اس وقت انارکی کے علاوہ کوئی قانون نہیں چل رہا‘ وفاقی حکومت مع 12 تکبیروں سے صرف تماشا دیکھ رہی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ نئے چیف کا انتظار کر رہی ہے‘ وہ آئیں گے تو ملک کے مقدر کا فیصلہ ہو گا‘ عمران خان اپنی مرضی کا آرمی چیف چاہتے ہیں اور وہ اس کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
پنجاب 12 کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے‘ یہ چیف سیکریٹری کے بغیر چل رہا ہے جب کہ آئی جی نے تحریراً کام سے معذرت کر لی ہے اور کوئی پولیس افسر پنجاب میں آئی جی لگنے کے لیے تیار نہیں‘ چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہیں لیکن کیا یہ کل کے دن بھی چیف منسٹر ہوں گے‘ یہ نہیں جانتے‘ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے‘ پولیس بھی ان کے ماتحت ہے‘ پنجاب میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہو جاتا ہے‘ ان کا جاں نثار ابتسام ملزم کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا ہے۔
عمران خان ابتسام کو بلا کر شاباش بھی دیتے ہیں اور ان کے گھر جانے کا اعلان بھی کرتے ہیں‘ ملزم نوید ان کی پولیس اوران کی سی ٹی ڈی کے قبضے میں ہے‘ اس کی نشان دہی پر چار اور لوگ بھی گرفتار کر لیے جاتے ہیں لیکن ایف آئی آر سپریم کورٹ کے حکم پر درج ہوتی ہے اور پی ٹی آئی اس ایف آئی آر کو بھی نہیں مانتی‘ اعظم سواتی کا واقعہ ہوا‘ یہ ہول ناک واقعہ تھا‘ سواتی صاحب اس وڈیو کو اون کر لیتے ہیں لیکن سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے بھی پیش نہیں ہوتے‘ یہ کسی سرکاری ادارے کی تحقیقات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں‘ ارشد شریف کینیا میں قتل ہو گئے۔
حکومت نے کمیشن بنایا اور جسٹس(ر) عبدالشکورپراچہ کو اس کا سربراہ نامزد کر دیا لیکن جسٹس(ر) عبدالشکورپراچہ نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی اور ارشد شریف کی والدہ کمیشن کے خلاف عدالت چلی گئیں‘ سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے تو کبھی پی ٹی آئی فیصلے کو نہیں مانتی اور کبھی حکومت انکار کر دیتی ہے‘ الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر دونوں کو گالیاں پڑ رہی ہیں اور عمران خان گھر میں بیٹھ کر اعلان کر رہے ہیں ’’نواز شریف اپنا آرمی چیف لانا چاہتا ہے‘‘ لہٰذا پھر جواب دیجیے کیا اب ریاست کو ریاست کہنا چاہیے۔
ریاست رٹ کا نام ہوتا ہے اور اگر اس رٹ کو چار لڑکے ڈنڈا اٹھا کر چیلنج کر دیں یا درجن بھر لوگ روڈپر ٹینٹ لگا کر گھر چلے جائیں اور کسی ادارے میں ٹینٹ اکھاڑنے کی ہمت نہ ہو تو کیا وہ ریاست ‘ریاست رہ جاتی ہے اگر ہاں تو پھر آپ کو مبارک ہو اور اگر نہیں تو کیا پھر ہم پاکستان کو ڈیفالٹ سمجھ لیں‘ ہم اس کو آج سے ملک سمجھنا بند کر دیں؟ جواب دیجیے اور اگر جواب نہیں دے سکتے تو ایک لمحے کے لیے سوچ ضرور لیں۔