(1) This is a sad story

ممکن ہے میرا خیال غلط ہی ہو مگر پھر بھی خیال کا اظہار کرنے میں کیا حرج ہے؟ میرا خیال ہے کہ کتاب پڑھنے کا شوق بچپن میں لگ جائے تو بہت ہی پختہ ہوتا ہے اور ساری عمر چلتا ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ اگر یہ شوق کسی کو بچپن میں نہ لگے تو پھر اس کا لگنا ممکن نہیں لیکن بچپن والا شوق پھر زندگی بھر آپ سے لپٹا رہتا ہے۔ استثنا تو کسی بات پر بھی ممکن ہے؛ تاہم اس شوق کی تکمیل میں کئی چیزیں اور بھی ہیں جو اسے مہمیز دیتی اور دوآتشہ کرتی رہتی ہیں۔ کتاب کے شوق کو نبھانے میں حالات کا سازگار ہونا ایک ضروری اور اضافی سہولت ہے۔ کتاب کی دستیابی، والدین کی جانب سے کتاب بینی کی حوصلہ افزائی، کتاب تک رسائی کی سہولت، لائبریری تک دسترس، سکول میں کتاب کلچر کی موجودگی، اساتذہ کی جانب سے اس سلسلے میں ہمت دلانا اور معاشرے میں کتاب بینی کی روایت ایسی چیزیں ہیں جو اس عادت کے پروان چڑھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کو ان میں سے چند چیزیں بھی مل جائیں۔ ہمارے ہاں ان میں سے بہت سی چیزیں اور عادتیں تو باقاعدہ ناپید ہو چکی ہیں۔
ایک روز میں ملتان میں برادر عزیز شاکر حسین شاکر کی دکان پر گیا تو دیکھا کہ اس کے چہرے پر سدا دکھائی دینے والی مسکراہٹ نظر نہیں آ رہی اور وہ ملول دکھائی دے رہا ہے۔ پوچھا کہ خیر ہے کچھ رنجیدہ سے دکھائی دے رہے ہو۔ کہنے لگا: ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک بچہ اپنے والد کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ اس بچے نے یہاں سے ایک آدھ گفٹ خریدنے کے بعد ایک چھوٹی سی کتاب پسند کی اور اپنے والد سے کہا کہ وہ یہ کتاب لینا چاہتا ہے۔ اس کے باپ نے‘ جو پجیرو گاڑی پر آیا تھا، جس نے ہاتھ میں رولیکس گھڑی باندھی ہوئی تھی اور دس بارہ ہزار روپے کی شال اوڑھی ہوئی تھی‘ اپنے بیٹے کی فرمائش سن کر اسے سرزنش کرتے ہوئے کہنے لگا: ابھی راستے میں تم نے چار ہزار کی جرسی خریدی ہے اور اب کہتے ہو یہ دو سو روپے والی کتاب لینی ہے‘ پیسے بھلا درختوں پر لگتے ہیں جو ان فضول چیزوں میں اڑائے جائیں۔ بس میں تبھی سے یہ سوچ سوچ کر دکھی ہو رہا ہوں کہ کتاب کی خریداری کا شمار بھی اب فضول کاموں میں ہونے لگا ہے۔
بات پھر وہی گزشتہ ہفتے لکھے جانے والے کالم کے آغاز پر آن ٹھہرتی ہے۔ بات شروع ہوئی تھی سیفان کی کتاب سے محبت سے اور پھر گیٹلن برگ تک چلی گئی۔ بعض قارئین نے تو اس آغاز کو خاندانی پروجیکشن قرار دے کر اپنے خیال کے گھوڑے بھی دوڑائے اور طنز کے چابک بھی برسائے؛ تاہم میں سیفان کی کتاب سے محبت کو دراصل ایک بچے کی کتاب دوستی کی نظر سے دیکھتا ہوں اور یہ بچہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بچہ دراصل ایک استعارہ ہے جس کا نام صرف نام کی حد تک سیفان ہے اور یہ میرا نواسہ ہے لیکن اس بچے کا حال کسی بھی بچے کی صورتحال پر منطبق ہو سکتا ہے۔ آپ اس بچے کا کوئی بھی نام فرض کر لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مطلب تو اس کتاب کلچر سے ہے جو ہمارے ہاں پہلے بھی کم تھا مگر اب تو بالکل ہی ناپید ہوتا جا رہا ہے ایسے میں کسی بچے کی کتاب سے محبت کو نظرانداز کرنے کے بجائے اگر اس کی وجوہات پر غور کیا جائے تو بھلا اس میں کیا حرج ہے؟
میں نے اس کالم کے آغاز میں ہی لکھا تھا کہ خدا جانے اسے یہ شوق وراثت میں ملا ہے یا یہ شوق سکول کی لائبریری اور استانیوں کی رہنمائی کے باعث پیدا ہوا ہے تو میرا گمان ہے کہ اس محبت کے پیچھے تین بنیادی وجوہات کا عمل دخل ہے۔ پہلی یہی کہ کچھ شوق جینز میں پائے جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ اس کی ماں بھی اسے میری ماں کی طرح رات کو سونے سے پہلے کہانیاں سناتی ہے۔ کہانی سننے کا شوق ہی بچے کو از خود کہانیاں پڑھنے کی عادت ڈالتا ہے اور بچہ کتاب کی جانب راغب ہوتا ہے۔ تیسری بات سکول کی لائبریری اور بچوں کو کتاب کی جانب راغب کرنے کی وہ کاوشیں ہیں جو اس عادت کو پختہ کرنے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ یہاں امریکہ کے سکولوں میں بچوں کو ابتدائی کلاسوں سے ہی کتاب بینی کی عادت ڈالی جاتی ہے اور اس کیلئے بچوں کو مختلف اقسام کے لالچ بھی دیے جاتے ہیں۔ مجھے اس کا اندازہ امریکہ آنے کے تین دن بعد ہوا۔ ایمانداری کی بات ہے یہ میرے لئے نہ صرف حیران کن تھا بلکہ باعثِ حسرت بھی کہ بچوں میں کتاب بینی کو فروغ دینے کیلئے کیا شاندار طریقہ اپنایا گیا ہے۔ کاش ہمارے ہاں بھی اس قسم کی کوئی روایت ڈالی گئی ہوتی۔ لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب آپ کی ترجیحات میں کتاب بینی کو فروغ دینا شامل ہو وگرنہ تو سب کچھ بیکار ہے۔
مجھے امریکہ آئے تیسرا دن تھا کہ سیفان سکول سے واپسی پر خوشی سے کودتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور اپنی ماں سے کہنے لگا کہ اسے سکول سے مفت پیزا کا کوپن ملا ہے۔ میں نے سیفان سے پوچھا کہ اسے یہ مفت والے پیزا کا کوپن کس خوشی میں ملا ہے؟ سفیان بتانے لگا کہ اس نے سکول کی لائبریری سے اس مہینے تیس کتابیں لی تھیں اور انہیں پڑھا تھا۔ سکول کی جانب سے جو بچہ مہینے میں تیس کتابیں پڑھے اسے ایک عدد مفت پرسنل پیزا کا کوپن ملتا ہے جو وہ پیزا ہٹ سے جا کر خود لے سکتا ہے اور گھر پر مفت ڈلیوری بھی کروا سکتا ہے۔ پہلے تو دل چاہا کہ اپنی بیٹی سے پوچھوں کہ یہ کوپن صرف پیزا ہٹ کیلئے کارآمد ہوتا ہے یا پایا جونز والے بھی یہ پیزا فراہم کر سکتے ہیں مگر پھر سوال پوچھنے کا ارادہ محض اس لئے ترک کر دیا کہ وہ اسے اپنے والد صاحب کی جانب سے شرپسندی نہ سمجھ لے۔ میری بیٹی نے بتایا کہ ان کے سکول اور پیزا ہٹ والوں کے مابین کوئی باہمی معاہدہ ہے اور اس میں پیزا ہٹ والے بھی اس مفت پیزا سکیم میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ سیفان کو اس مفت ملنے والے پیزا کی اتنی خوشی تھی کہ لگتا تھا‘ اس نے اپنے اس مفت والے پیزا سے لذیذ اور اعلیٰ پیزا شاید کبھی زندگی میں نہیں کھایا۔ ظاہر ہے سات سال کے بچے کو اپنی محنت سے کمایا ہوا پیزا لطف نہیں دے گا تو پھر کیا شے لطف دے گی؟
گزشتہ ماہ سیفان اور ضوریز کے سابقہ اسلامک سکول آف گریٹر ٹولیڈو میں‘ جہاں اب وہ صرف سنڈے کلاسز لینے جاتے ہیں‘ ایک بک فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا تھا اور وہاں تمام کتابیں پچاس فیصد یا اس سے بھی زیادہ رعایت پر دستیاب تھیں۔ سیفان نے پہلے تو وہاں سے بیس ڈالر میں ایک اچھی خاصی موٹی کتاب Become a Knowledge genius خرید لی پھر والدہ سے ضد کرکے مزید بیس ڈالر لئے کہ اس نے ایک اور کتاب‘ جو ڈائناسارز کا باتصویر انسائیکلوپیڈیا تھا‘ خریدنی ہے۔ گھر پہنچنے پر ضوریز نے رولا ڈال دیا کہ ان میں سے ایک کتاب وہ لے گا۔ اس پر ڈائناسارز والا انسائیکلوپیڈیا اسے دے دیا گیا۔ میں نے میز پر پڑی ہوئی اس کتاب کو دیکھ کر کومل سے پوچھا کہ یہ کتاب اس نے ضد میں آکر بھائی سے ہتھیا تو لی ہے کیا اس نے پڑھی بھی ہے؟ کومل نے کہا: اس سے کتاب میں سے ٹیسٹ لے لیں آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ اسے کچھ آتا جاتا ہے یا نہیں۔ میں بھلا اس سے زبانی کلامی کیا امتحان لیتا کہ مجھے تو خود کسی ڈائناسار کا نام سوائے ڈائناسار کے نہیں آتا تھا۔ کتاب کھول کر مختلف ڈائناسارز کی تصاویر پر انگلی رکھی تو اس نے سارے نام ٹھیک ٹھیک بتا دیئے۔ سچ پوچھیں تو میں نے تو ٹی ریکس بھی پہلی بار سنا تھا اوپر سے کہنے لگا کہ اس کا پورا نام دراصل Tyrannosaurus ہے۔ (جاری)