حبس کے موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا

امریکہ سے تقریباً دو ماہ بعد جب جنوری کے آخر میں واپسی ہوئی تو آسٹریلیا سے آئی ہوئی منجھلی بیٹی واپسی کے لیے تیاری کر رہی تھی۔ میرے پیچھے اس نے گھر کا حتی المقدور دھیان رکھا۔ اسد، انعم اور سارہ مجھے لینے لاہور پہنچے ہوئے تھے۔ رات گئے میں لاہور پہنچا اور ایئر پورٹ سے نکلتے نکلتے صبح ہو گئی۔ ایئر پورٹ سے میں نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور ملتان روانہ ہو گئے۔ بچوں کو پتا تھا کہ میں پاکستان واپس آتے ہی گاڑی کا سٹیرنگ پکڑ لوں گا۔ شام کو میں نے کھانے کا پوچھا تو سارہ کہنے لگی: آج ہم کھانا درباری کباب پراٹھہ پر جا کر کھائیں گے۔
درباری کباب سے میری پہلی شناسائی تقریباً پچاس برس پرانی ہے۔ پہلی بار میں نے یہ کباب شاید 1972 میں اپنے کزن ڈاکٹر ریاض احسن صدیقی کے گھر کھائے تھے۔ پھر میری اور منیر چودھری کی جوڑی نے یہاں ان گنت بار کھانا کھایا۔ جب بھی جیب میں اتنے پیسے ہوتے کہ درباری پر جا کر کھانا کھا سکیں، ہم پیدل وہاں پہنچ جاتے۔ تب سلیم درباری خود کباب لگایا کرتے تھے۔ ان کے بعد نشست تسلیم نے سنبھال لی۔ اسی دوران سلیم درباری کے بھائی وسیم اور بیٹوں نے علیحدہ علیحدہ درباری کباب پراٹھہ کی دکانیں کھول لیں۔ ان میں سے دو تو میرے گھر کے بالکل قریب ہیں‘ لیکن میں اپنی پرانی روایت کو نبھاتے ہوئے اسی دکان پر جاتا ہوں جو سلیم درباری نے اپنے بڑے بیٹے تسلیم کے سپرد کی ہے۔ اب بھلا اس عمر میں پرانے ٹھیے کہاں چھوڑے جاتے ہیں؟
پسند اپنی اپنی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو ایک علیحدہ اکائی کے طور پر تخلیق کیا ہے؛ تاہم مجھے اور میرے بچوں کو شاید درباری کے کباب سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی کباب اچھے نہیں لگتے۔ میرا درباری سے تعلق قریب پانچ عشرے پرانا ہے اور بچے تو اپنے بچپن سے ہی درباری کے کباب، تکے اور پراٹھوں کے شیدائی ہیں۔ اس رات درباری سے واپسی پر جب ایس پی چوک سے گزرے تو میری چھوٹی بیٹی نے‘ چوک کے درمیان میں بنے ہوئے خوبصورت ستون جس پر دھات سے ڈھلائی کیے ہوئے کلمہ طیبہ کے پس منظر میں دمکنے والی روشنی نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی‘ اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ شہر کا پہلا چوک ہے جو اتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ اس کا یہ تبصرہ ایک گرافک ڈیزائنر کا تبصرہ تھا۔ منجھلی بیٹی‘ جو بنیادی طور پر ایک آرکیٹیکٹ انجینئر ہے‘ کہنے لگی: صرف خوبصورت ہی نہیں، پائیدار، مضبوط اور Sustainable بھی ہے۔ میں نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے چوک پر نظر دوڑائی۔ یہ میرے امریکہ جانے کے بعد بنا تھا اور میں بھی اسے پہلی بار ہی دیکھ رہا تھا۔ سچ پوچھیں تو چوک ایک انگریزی لفظ کے مطابق Aesthetically یعنی جمالیاتی طور پر دلکش تھا ہی لیکن شہر میں پہلے بننے والے ایسے چوکوں کے برعکس پائیدار اور مضبوط بھی دکھائی دے رہا تھا۔
قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے آخر یہ بات تین ساڑھے تین ماہ بعد کیوں یاد آ رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ رات لاہور سے ملتان آتے ہوئے جب میری بس مخدوم رشید انٹرچینج پر موٹروے سے اتر کر بابر چوک پہنچی تو چوک روشنیوں سے دمک رہا تھا اور درمیان میں ایک خوبصورت اور بلند و بالا سنگی ستون ان روشنیوں میں جگمگا رہا تھا۔ واپس آ کر ایک دوست سے پتا کیا تو معلوم ہوا کہ ایس پی چوک اور بابر چوک کے علاوہ ایک دو اور چوک بھی اسی طرح سنوارے جا رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے ان پر سرکار کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ ضلعی انتظامیہ اور خاص طور پر ڈپٹی کمشنر ملتان یہ سب کچھ شہر کے مخیر حضرات اور کاروباری اداروں کے تعاون سے کر رہے ہیں۔ شہر کے مختلف چوراہوں کی تزئین و آرائش یقینا قابل تحسین کام ہے لیکن سچ پوچھیں تو ڈپٹی کمشنر ملتان نے اس پانچ ہزار سال سے زیادہ قدامت کے حامل شہر کے مشاہیر، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، کھلاڑیوں، موسیقاروں، گلوکاروں، دستکاروں، تن سازوں، پہلوانوں اور ہنر مندوں کے اعترافِ فن کے سلسلے میں اس دنیا سے رخصت ہو جانے والے اور زندہ مشاہیر کے گھروں پر سرکاری طور پر اعترافی اور تعریفی تختیاں لگانے کا جو قابلِ قدر کام شروع کیا ہے‘ وہ ایسا ہے کہ نہ صرف پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا بلکہ اسے تا دیر یاد بھی رکھا جائے گا۔
آج سے چند سال قبل ملتان کے ڈپٹی کمشنر زاہد سلیم گوندل نے ملتان کے ادیبوں اور لکھاریوں کے لیے بیٹھنے کی با عزت جگہ کے طور پر ملتان ٹی ہائوس تعمیر کروایا اور آج ملتان کے ادیب، شعرا، قلم کار اور علم دوست حضرات اس شاندار عمارت میں بیٹھتے ہیں اور اس خطے کے ادیب انہیں اس وقت تک یاد رکھیں گے جب تک یہ عمارت انہیں اپنے دامن میں پناہ دیئے رکھے گی۔ اسی طرح مشاہیر کے گھروں کے باہر لگنے والی تختیاں صرف صاحب خانہ کی عزت و توقیر کا باعث نہیں ہوں گی بلکہ اس شہر کی موجودہ نسل کو یہاں رہائش پذیر ان لوگوں سے متعارف کروانے کا باعث بنیں گی‘ جو آج ہم میں نہیں ہیں اور آنے والی نسل کو ان لوگوں سے متعارف کروائیں گی جو آج تو موجود ہیں لیکن تب ہماری تاریخ کا حصہ ہوں گے۔ اس سلسلے میں ملتان سے تعلق رکھنے والے وہ بڑے لوگ جو آج ہم میں نہیں ان میں ن م راشد، علامہ عتیق فکری، عرش صدیقی، علامہ طالوت، ابن حنیف، مظہر کلیم، جابر علی سید، عبدالمجید خان ساجد، امیر ملتانی، فرخ درانی، پروفیسر حسین سحر، منشی عبدالرحمان، صادق علی شہزاد، زوار حسین، ابن کلیم، استاد محمد عالم، سہیل اصغر، سلیم گردیزی، عابد بٹ، ماکھا پہلوان، مشتاق نانی والا، زمن خان، بخشی سلامت، طفیل نیازی، اقبال بانو، استاد سلامت علی، استاد نزاکت علی، استاد منشی خان، استاد معشوقے خان، استاد کوڑے خان، استاد چھوٹے غلام علی اور ماسٹر کریم بخش خاں کے علاوہ بھی کئی لوگ شامل ہیں۔ اسی طرح صاحب حیات مشاہیر میں ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر اسد اریب، ڈاکٹر حنیف چودھری، اصغر ندیم سید، حمید رضا صدیقی، ڈاکٹر مختار ظفر، پروفیسر حفیظ الرحمان خان، پروفیسر اے بی اشرف، نوشابہ نرگس، سید ضمیر ہاشمی، استاد صغیر احمد، ثریا ملتانیکر، ناہید اختر اور انضمام الحق کے علاوہ بھی کئی لوگ شامل ہیں۔
تیئس مارچ کا تاریخی دن اس کام کے آغاز کے لیے منتخب کیا گیا اور پہلی تختی پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کے دولت خانے پر لگائی گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری ایک شاندار استاد کے علاوہ بہت ہی اعلیٰ پائے کے شاعر، ادیب اور نقاد بھی ہیں۔ ان کی بے شمار غزلیں زبان زدِ عام ہیں۔ دو شعر بطور تبرک پیش خدمت ہیں:
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
ان کی شہرہ آفاق نظم میرے عزیزو تمام دکھ ہے (گوتم کا آخری وعظ) کو پٹنہ کی خدا بخش اوریئنٹل لائبریری نے اردو کی سو عظیم ترین نظموں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ دوسری اعزازی تختی ڈاکٹر اسد اریب کے گھر کی زینت بنی۔ انیس اپریل کو ڈاکٹر اسد اریب کے گھر کے باہر نصب کی جانے والی یہ تختی تادیر اپنے اس اعزاز پر نازاں رہے گی کہ اس کو ایک صاحب طرز ادیب، نقاد، لغت نویس اور ایک بے بدل استاد کے دروازے پر جگہ ملی۔ سیاسی دھماچوکڑی کے حبس بھرے موسم میں یہ تختیاں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی ہیں اور اہالیان ملتان کے باعث فخر بھی۔
ملتان ما بہ جنت اعلیٰ برابر است
آہستہ پا بنہ کہ ملک سجدہ می کند