ایک شخص جسے ضائع کر دیا گیا!

گزشتہ سے پیوستہ روز ہمارے محترم اور بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی کے دل کا آپریشن تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں صحتِ کاملہ عطا کرے۔ ہمارے ہاں کی سیاست کا چلن ہے کہ جسے پارٹی لیڈر کسی بھی وجہ سے مسترد یا نظر انداز کر دے اس کو کارکنان بھی پارٹی پالیسی سمجھتے ہوئے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جس طرح شکاری حضرات بندوق سے فائر کرنے کے بعد خالی کارتوس کو بندوق کے چیمبر میں سے نکال کر زمین پر پھینک کر اگلا کارتوس لوڈ کر کے چل پڑتے ہیں‘ اسی طرح چلا ہوا سیاسی کارتوس بھی پیچھے پڑا رہ جاتا ہے اور لیڈر اپنے چمچوں کڑچھوں سمیت اس پرانے ساتھی کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ جاوید ہاشمی‘ جو اس خطے کا سب سے بڑا سیاسی نام تھا‘ آج کل اسی المیے سے دوچار ہے۔ آپ اسے ایک چلا ہوا سیاسی کارتوس کہہ سکتے ہیں۔

جاوید ہاشمی اگر تحریکِ انصاف کے شہرہ آفاق دھرنے کے دوران عمران خان کے ریڈ زون میں داخل نہ ہونے کے اعلان کے باوجود ریڈ زون میں داخل ہونے پر اختلاف نہ کرتے اور خاموشی اختیار کر کے بیٹھے رہتے تو میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ آج عارف علوی کی جگہ صدر پاکستان ہوتے‘ لیکن ہماری سیاسی حرکیات میں سیکنڈ لائن کے سیاسی رہنمائوں کے انفرادی فیصلے کسی گنتی میں نہیں آتے اور ایسے لوگوں کو کسی پارٹی میں بھی ایک حد سے آگے نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ایسے لوگوں کو آہستہ آہستہ سائیڈ لائن کرکے کسی کونے میں لگا دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ دوسرے لوگوں کیلئے باعث تنبیہ ہوتے ہیں اور زیادہ سر اٹھانے والوں کیلئے مثال بنا کر ان کی اوقات میں رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست اصولوں، ورکروں اور مخلص کارکنوں کے زور پر نہیں لیڈر کے حکم کی تابعداری سے چلتی ہے۔

مجھے وہ دن یاد ہے جب جاوید ہاشمی پی ٹی آئی کے کراچی کے جلسے میں شرکت کرنے کیلئے ملتان سے اپنے کینٹ والے گھر سے نکلے تو مسلم لیگ (ن) کے کارکن ان کی جیپ کے آگے کھڑے ہو گئے تھے اور بعض جذباتی کارکن تو گاڑی کے آگے لیٹ گئے‘ مگر میاں نواز شریف کی بے اعتنائی سے دلبرداشتہ جاوید ہاشمی فیصلہ کر چکے تھے اور جب وہ کوئی فیصلہ کر لیتے تھے تو اسے تبدیل کروانا ناممکنات میں سے ہوتا تھا۔ ڈنڈے، لاٹھی، جیل اور صعوبتیں بھی اگر انہیں ان کے راستے سے نہیں ہٹا سکی تھیں تو بھلا وہ اب اپنا فیصلہ کیسے تبدیل کر لیتے؟

جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ (ن) کو خوشی سے نہیں چھوڑا تھا۔ وہاں اس کے دوست تھے، چاہنے والے تھے اور وہ وہاں سیاسی حوالے سے بڑے کمفرٹ زون میں تھے‘ لیکن برا ہو ان کی بہادری اور دلیری کا جس نے انہیں مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کی بے پایاں محبت بخشی۔ میاں صاحب پرویز مشرف سے ڈیل کرکے چپکے سے اپنے نوکروں اور سو صندوقوں سمیت سعودی عرب کھسک گئے۔ پارٹی بے یارو مددگار تھی اور آمر مطلق اپنے ہر مخالف کی طبیعت صاف کرنے پر تلا ہوا تھا۔ ایسے میں لاوارث پارٹی کو جاوید ہاشمی نے سنبھالا اور ایک نہایت ہی مختصر سی اپوزیشن کے ساتھ اسمبلی میں حکمرانوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ بغاوت کے جرم میں برسوں قید بھگتی اور جب میاں نواز شریف ڈیل کے تحت ملنے والی رعایت کے بعد پاکستان واپس آئے تو ان کے استقبالیہ جلوس میں جس شخص کے نام کے نعرے سب سے بلند تھے وہ جاوید ہاشمی تھا۔ برسوں پہلے پارٹی کو بے یارو مددگار اور لاوارث چھوڑ کر بھاگ جانے والے پارٹی لیڈر کیلئے یہ بات بڑی اذیتناک تھی کہ اس کی واپسی پر استقبالیہ جلوس میں اس کے نام کے علاوہ کسی اور کے نام کے نعرے اس کیلئے لگنے والے نعروں سے زیادہ بلند ہوں۔ میاں نواز شریف نے اسی روز جاوید ہاشمی کو کٹ ٹو سائز کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اور پھر میاں صاحب کے چند قریبی ساتھیوں نے جاوید ہاشمی کو باقاعدہ گالیاں نکالیں اور بے عزت کیا۔ بقول میاں نواز شریف جاوید ہاشمی کے ساتھ ہونے والے اس توہین آمیز سلوک میں ان کی اشیرباد شامل نہ تھی مگر یہ بات سفید جھوٹ کے علاوہ اورکچھ نہیں کیونکہ میاں نواز شریف نے اس ساری مہم کے دوران ایک بار بھی ان لوگوں کو نہ روکا جو جاوید ہاشمی کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کر رہے تھے۔ کہاوت ہے کہ خاموشی بھی رضامندی ہوتی ہے۔ نواز شریف کی خاموشی ہی ان کی رضامندی تھی۔

جاوید ہاشمی تحریک انصاف میں چلے گئے۔ عمران خان کے جمہوری روایات اور اخلاقی اقدار کے بارے میں بھاشن سن کر سچ سمجھ لینے والے جاوید ہاشمی کو آہستہ آہستہ پتا چلا کہ یہ پارٹی بھی قواعد و ضوابط یا جمہوری روایات کی نہیں بلکہ پارٹی لیڈر کی شخصی غلام ہے اور یہاں بھی معاملہ مسلم لیگ (ن) جیسا ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے‘ سو دھرنے میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے اعلان اور روزانہ کی بنیاد پر لیے جانے یُوٹرن اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئے اور جاوید ہاشمی اسلام آباد کا دھرنا چھوڑ کر نہ صرف واپس ملتان آگئے بلکہ انہوں نے اس دھرنے کی غرض و غایت پر بھی سوال اٹھا دیئے۔ سدا کا باغی جاوید ہاشمی اس ایک لمحے میں باغی سے داغی بن گیا۔ وہی کارکن‘ جوایک روز پہلے ان پر جان چھڑکنے کیلئے تیار تھے اگلے ہی روز ان کی کردار کشی پر اتر آئے۔ یہ ہماری سیاست کا وہ تلخ باب ہے جو جمہوری پارٹیوں میں شخصی آمریت سے فروزاں ہے۔

جاوید ہاشمی نے اعلیٰ سیاسی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا اور آزاد امیدوار کے طور پر ملتان شہر سے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ تحریک انصاف والے تب جاوید ہاشمی صاحب پر بڑے تپے ہوئے تھے اور تن‘ من‘ دھن سے ان کو ہرانے کیلئے کوشاں تھے۔ اس خاص ضمنی الیکشن سے قبل عمران خان نے بذات خود ملتان میں جلسہ کیا اور آزاد امیدوار عامر ڈوگر کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے بھی ہاشمی صاحب کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ملتان شہر کے حلقہ این اے 149 کو پیدائشی طور پر اپنا حق سمجھنے والے مسلم لیگ (ن) کے پرانے امیدوار طارق رشید نے جاوید ہاشمی کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہوئے ان کی بھرپور مخالفت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی رکن قومی اسمبلی احسان الدین قریشی اور سابق صوبائی وزیر عبدالوحید ارائیں نے بھی جاوید ہاشمی کے خلاف پورا ٹِل لگایا؛ تاہم اس سب کے باوجود جاوید ہاشمی نے میرے اندازے کو بھی کُلی طور پر غلط ثابت کرتے ہوئے این اے 149 (موجودہ حلقہ نمبر 155 ملتانII) سے اندرونی مخالفت اور تحریک انصاف کی طرف سے خصوصی ردعمل کے باوجود اڑتیس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ جاوید ہاشمی مسلم لیگ (ن) میں ہیں لیکن اس طرح ہیں کہ گویا نہیں ہیں۔ انہیں بھی شاید اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ اب مسلم لیگ (ن) کیلئے چلا ہوا کارتوس ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس ملتان شہر کے دو اور ایک نیم شہری قومی حلقے میں کوئی بھی کام کا امیدوار نہیں ہے اور جاوید ہاشمی اب بھی واحد ایسا امیدوار ہے جو مسلم لیگ (ن) کو شہر سے ایک سیٹ دلوا سکتا ہے؛ تاہم شہر میں موجود میاں نواز شریف کے منظور نظر لیکن نالائق امیدوار کسی کی دال نہیں گلنے دیں گے۔ سیاست میں ایک غلط فیصلہ آپ کے مستقبل کا تعین کر دیتا ہے اور جاوید ہاشمی سے تو کئی سیاسی غلطیاں ہوئی ہوں گی۔ وہ آئیڈیل شخص نہ بھی سہی، مگر سیاستدانوں کی موجودہ لاٹ پر نظر دوڑائیں توسمجھیں کہ وہ ایک ہیرا آدمی ہے‘ جسے ضائع کر دیا گیا۔