عمران خان سے ایک ملاقات

وزیر اعظم ہائوس سے فون تھا کہ وزیر اعظم آپ اور عامر متین سے ملنا چاہ رہے ہیں۔ ہم کچھ حیران ہوئے کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں کبھی نہ بلایا گیا تھا بلکہ یہ بتایا گیا کہ پچھلی ملاقاتوں میں جو سوالات کیے گئے وہ وزیر اعظم کو پسند نہیں آئے تھے۔ اس کے بعد ہمیں بھی اس فہرست میں ڈال دیا گیا جو وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے پسندیدہ صحافیوں کی فہرست سے نکل چکے تھے۔ خان صاحب اپوزیشن کے دنوں میں جلسوں میں ہمارا نام لے کر تعریف کرتے تھے‘ لیکن جونہی حکومت آئی اور ہم نے اس کی غلطیاں اور سکینڈلز ڈھونڈنے شروع کیے تو خان صاحب ناراض ہوگئے۔ عامر متین نے ہمیشہ ایک بات کی ہے کہ تم روٹھے ہم چھوٹے۔ بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کوئی وزیر اور وزیر اعظم ہم سے ناراض رہے تاکہ ہم بغیر کچھ خیال کیے اپنی رپورٹنگ کرتے رہیں۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنے اوپر تنقید کے باوجود ناراض نہ ہوئے‘ نہ تعلقات خراب کیے‘ لیکن خان صاحب وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد‘ پہلی ہی ملاقات میں ناراض ہو گئے تھے جب میں نے ایک سوال پوچھ لیا۔ اس کے بعد چند ملاقاتوں میں نہیں بلایا گیا۔ پھر بلایا تو اس وقت تک ان کے ایک قریبی دوست کا سکینڈل بریک کر چکا تھا اور اس پر وہ ناراض تھے۔ میٹنگ میں محمد مالک، میری اور عامر متین کی طرف دیکھ کر کہا: اگر آپ دونوں کا شو تین ماہ بند ہو جائے تو ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ کاشف عباسی نے فوراً کہا: ان دونوں کا شو تو بند ہو چکا‘ محمد مالک کا بھی کرا دیں۔
پھر ایک دفعہ بلایا گیا تو اس میں ایک اور سوال پر ناراض ہوگئے۔ یوں ہم دونوں کو ڈیڑھ سال تک نہیں بلایا گیا‘ نہ ہم نے کبھی کوشش کی۔ اب ان حالات میں جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ میں محض ایک دن باقی تھا‘ دعوت ملی تو پہلے کچھ ہچکچاہٹ تھی کہ آخری دن ایک ناراض وزیر اعظم سے مل کر کیا کرنا تھا۔ سب کچھ تو وہ بول چکے ہیں۔ پھر سوچا‘ اس سے بہتر دن کیا ہوگا جب وزیراعظم کا آخری دن آفس میں ہے اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت وزیراعظم آفس کا کیا ماحول ہے اور غلام گردشوں میں کیا چل رہا ہوگا۔ شہباز گل نے یہ ملاقات ارینج کرائی تھی۔ خیر وزیراعظم آفس کا ماحول اچھا خاصا تھا۔ چہل پہل تھی۔ ٹی وی کیمرے‘کریو اور وزیراعظم آفس کے سٹاف ارکان۔ جونہی وزیراعظم آفس میں داخل ہوئے خاں صاحب نے میرے اور عامر متین کے ساتھ ہاتھ ملایا اور پوچھا: رئوف کیسے ہو؟ میٹنگ میں علی زیدی کے علاوہ شہباز گل، فواد چوہدری، شوکت ترین، اسد عمر، رزاق دائود، حماد اظہر، فرخ حبیب، فیصل جاوید بھی شامل تھے۔ وزیراعظم کچھ بدلے ہوئے تھے۔ کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں تو میں نے اور عامر متین نے سوچا کہ اب کچھ سوال و جواب کئے جائیں۔
میں نے پوچھا: خان صاحب ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں‘ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ نے ان تین سالوں میں کچھ غلطیاں کی ہیں؟ خان صاحب بولے: جی میں انسان ہوں۔ غلطیاں ہر انسان کرتا ہے۔ میں نے بھی غلطیاں کی ہیں۔ میں نے پوچھا: سب سے بڑی غلطی کیا تھی جس پر آپ آج regret کرتے ہوں۔ خان صاحب نے ایک غیرمتوقع جواب دیا۔ بولے: میرا خیال ہے سب سے بڑی غلطی میں نے 2018 میں حکومت بنا کر کی تھی‘ جب میرے پاس اکثریت نہیں تھی۔ مجھے اپنے اتحادیوں اور دیگر سے بلیک میل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مجھے فوری طور پر دوبارہ الیکشن میں جانا چاہئے تھا۔ ایسا ہوتا تو میں جیت جاتا۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ مجھے اس طرح حکومت نہیں بنانی چاہئے تھے۔ اب میرے ساتھ یہ ہورہا ہے کہ سب بلیک میل کررہے ہیں۔ میرے اور عامر متین کیلئے یہ بڑی خبر تھی کیونکہ آج تک عمران خان نے کبھی اپنی غلطی نہیں مانی تھی۔ وہ ہمیشہ خود کو درست کہتے رہے اور اپنے تمام فیصلوں کا دفاع کرتے رہے۔ اب وہ اپنے آخری دن اس بات کا اعتراف کررہے تھے کہ بڑی غلطی اقتدار لینا تھا جب ان کے پاس اکثریت نہ تھی۔ عامر متین فوراً بولے: بینظیر بھٹو کو بھی یہی بڑا شدید احساس تھا کہ انہوں نے 1988 میں کمپرومائز کرکے حکومت لے کر بہت بڑی غلطی کی تھی‘ وہ ساری عمر اس پر پشیمان رہیں۔ عامر متین کی اس بات سے یہ واضح ہوا کہ جب اقتدار آرہا ہوتو اس وقت بینظیر بھٹو ہوں یا عمران خان‘ ان چیزوں کا خیال نہیں کرتے کہ وہ اصولوں کو قربان کرکے حکومت لے رہے ہیں‘ تو یہ عمل ان کیلئے عمر بھر کی پشیمانی بن جائے گا۔
میں نے پوچھا: خان صاحب‘ آپ نے آرمی چیف کی سکیورٹی ڈائیلاگ پر تقریر سنی جس میں انہوں نے آپ کی امریکہ پر کی گئی تنقید یا سازش سے خود کو دور رکھا‘ اور بتایا کہ امریکہ پاکستان کیلئے کتنا اہم ہے۔ انہوں نے روس کے یوکرین پر حملے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ اس پر عمران خان صاحب نے ایک لمحے کیلئے میری طرف دیکھا اور بولے: میں نے ان کی تقریر نہیں سنی۔ پھر بولے‘ ہاں کسی نے ان کی تقریر کا کوئی کلپ بھیجا ہے‘ وہ بھی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کے حق میں ہیں لیکن یہ تعلقات برابری پر ہونے چاہئیں۔
میں نے کہا: خان صاحب‘ آپ پچھلے ایک سال میں کسی امریکی عہدے دار سے نہیں ملے جب اس نے اسلام آباد کا وزٹ کیا۔ وہ ملنا چاہتے تھے جیسے وہ دیگر اعلیٰ فوجی‘ سول حکام اور اپوزیشن ممبران سے ملتے رہے۔ اور تو اور سی آئی اے چیف اسلام آباد آیا اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے افسران بھی ملنا چاہ رہے تھے‘ لیکن آپ کسی سے نہیں ملے۔ آپ اگر ان سے ملتے اور اپنا نقطہ نظر بیان کرتے تو آج امریکہ اور پاکستان کے وزیراعظم کے تعلقات زیادہ بہتر نہ ہوتے؟ وہ بولے کہ امریکی سینیٹرز آئے تھے تو انہوں نے ان سے ملاقات کی تھی۔ فواد چوہدری نے بھی کسی کا نام لیا۔ پھر عمران خان کہنے لگے کہ وہ اب یہ پسند نہیں کرتے کہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن ان سے بات کرنا چاہے‘ بہتر ہے وہ شاہ محمود قریشی سے بات کرے۔
عامر متین نے بتایا کہ وہ واشنگٹن میں رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔ وہاں امریکی عہدے دار اس بات پر پاکستانی حکمرانوں سے خوش رہتے تھے کہ وہ اس طرح پروٹوکول کے چکر میں نہیں پڑتے‘ جیسے بھارتی کرتے تھے۔ پاکستانی حکمران ان سے مل لیتے تھے جس سے وائٹ ہائوس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار اور افسران ان سے مل کر باہر نکل کر پاکستان کے حق میں باتیں کرتے پائے جاتے تھے۔ عامر متین کا کہنا تھا کہ خودداری اچھی بات ہے لیکن بعض دفعہ عجز اور انکساری بھی مخالفوں کے دل جیتنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر وزیر اعظم نرمی دکھاتے تو اس کے بہتر رزلٹ نکل سکتے تھے۔
عمران خان اور عامر متین کے مابین راوی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ پر بھی اچھی خاصی بحث ہو گئی کیونکہ اس ایشو پر میرا اور عامر متین کا ایک ویو رہا ہے اور ہم اس پروجیکٹ کے نقصانات پر بات کرتے رہے ہیں۔ عامر متین نے کہا: کبھی آپ صحافیوں سے مل کر دوسری سائیڈ کی باتیں سن لیتے تھے اور آپ کو کچھ اور موقف مل جاتا تھا‘ وہ راستہ بھی آپ نے خود پر بند کر لیا تھا۔
اتنی دیر میں اے ڈی سی کھڑے ہو گئے کہ کچھ اور لوگوں کی ملاقات ہونی تھی۔ پاکستان کے شاندار ایکٹر شان اور مشہور ڈرامہ لکھاری خلیل الرحمن قمر بھی بلائے گئے تھے۔ ہم چلنے لگے تو عامر متین کی کسی بات پر عمران خان کہنے لگے: آپ دیکھتے جائیں‘ ہم اتوار کو قومی اسمبلی میں بڑا سرپرائز دیں گے۔ عمران خان کے اس اعتماد پر عامر متین اور میں نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر وزیر اعظم عمران خان کو دیکھا اور ڈھلتی شام مارگلہ پہاڑیوں میں گھرے وزیراعظم آفس سے نکل آئے۔