ہمت، محنت اور جہدِ مسلسل کا ایک استعارہ

چار جنوری کو ہیوسٹن میں مقیم میرے بہت ہی پیارے دوست ڈاکٹر آصف ریاض قدیر کی والدہ محترمہ انتقال کر گئیں۔ اب جہاں امر واقعہ یہ ہو کہ خود ہمارے دوست آہستہ آہستہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرکے ابدی زندگی کی طرف لوٹ رہے ہوں تو بھلا ایسے میں اس قسم کے تعزیتی کالم کی نوبت کہاں آتی ہے جبکہ آصف ریاض قدیر کی والدہ ایک سو ایک سال پر مشتمل ایک بھرپور اور شاندار زندگی گزار کر رخصت ہوئی ہوں۔ اپنی اولاد کی کامیابی، اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کے تعلیمی مدارج اور ان کی شادیوں تک میں بھرپور شرکت بھی کی ہو۔ بھلا اس سے بڑھ کر شاندار اور بھرپور زندگی کیا ہو سکتی ہے کہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے سے چند دن پہلے تک ہفتہ وار معمول کے مطابق اتوار کا دن اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ گزارا ہو۔ بیگم انور قدیر نے ایسی ہی بھرپور، مطمئن اور خوشگوار زندگی گزاری۔ مگر میرا آج کا کالم اپنے دوست ڈاکٹر آصف ریاض کی والدہ کے بارے میں نہیں بلکہ ایک ایسی خاتون کے بارے میں ہے جو صنفی جدوجہد کا استعارہ ہے، جس نے اس زمانے کے تمام تر برخلاف حالات اور راہ میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی زندگی کا مقصد حاصل کیا۔ اپنی ثابت قدمی سے ناممکن کو ممکن بنایا۔
بیگم انور ریاض قدیر 25 دسمبر 1920 کو گوجرانوالہ میں رحیم بخش کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ محض تعلیم کے حصول کی خاطر گوجرانوالہ سے لاہور آئیں اور لاہور کالج برائے خواتین میں داخلہ لیا۔ یہ تب کا ذکر ہے جب خواتین پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے عمومی طور پر اور مسلمان گھرانے کی خواتین کیلئے خصوصی طور پر بند ہی سمجھے جاتے تھے مگر اللہ کرم کرے ان کے والدین پر، کہ انہوں نے حصول علم کی شوقین اپنی بیٹی کو دوسرے شہر بھیج دیا اور اس لڑکی نے اپنے والدین کے تعاون پر ان کو یہ تحفہ دیا کہ اپنی تعلیم کے چوتھے سال انور ریاض قدیر (تب ان کا نام انور رحیم بخش تھا) نے نہ صرف کالج کی بہترین طالبہ، بہترین کھلاڑی اور مقررہ کا اعزاز حاصل کیا بلکہ کالج میں مسلمان طالبات کی انتہائی قلیل تعداد کے باوجود کالج کی ہیڈ گرل منتخب ہوئیں۔ ان تمام تر ہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے ساتھ انہوں نے گوجرانوالہ سے لاہور آنے کا اپنا بنیادی مقصد یعنی تعلیم کو کسی صورت فراموش نہ کیا اور بی اے کے انگلش آنرز کے امتحان میں پورے پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یاد رہے کہ تب صوبہ پنجاب کی حدود آج کے ہمارے صوبہ پنجاب کی نسبت کہیں زیادہ بڑی تھیں۔ تب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر خان بہادر افضل حسین نے ایک مسلمان لڑکی کے اس اعزاز پر انہیں اپنے ہاتھ سے ایک تہنیتی خط لکھا اور انہیں اس اعزاز پر اپنے لیے باعث فخروافتخار قرار دیا۔
بی اے کے بعد ان کی شادی گلانسی میڈیکل کالج امرتسر کے سرجن ڈاکٹر ریاض قدیر سے ہو گئی اور وہ لاہور سے امرتسر منتقل ہوگئیں لیکن حصولِ علم کا شوق ان کی راہ میں دیوار ثابت نہ ہو سکا۔ اسے محض ایک حسین اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ بیگم انور کو اپنے والدین کے بعد ایسا تعاون کرنے والا شوہر ملا جس نے انہیں نہ صرف مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی بلکہ لاہور کالج برائے خواتین میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لینے اور روزانہ صبح بذریعہ ٹرین امرتسر سے لاہور جانے اور شام کو لاہور سے واپس امرتسر آنے جیسا مشکل فیصلہ کرنے پر اپنی اہلیہ کو ہر طرح کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ بیگم انور ہفتے میں تین چار دن اسی مشقت سے گزریں اور وہ بھی اس طرح کہ جب انہوں نے ایم اے انگلش کا امتحان پاس کیا وہ تب تین بچوں کی ماں تھیں۔
آپ یقین کریں‘ بیگم انور کی زندگی کے اس پہلو نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان پر کالم لکھوں وگرنہ اب تو یہ عالم ہے کہ اس عمر میں جبکہ ہم خود اپنے مالک کے ہاں حاضری دینے کیلئے قطار میں لگے باری کے منتظر ہیں‘ ہماری عمر کے لوگوں کے والدین کی رخصتی ایک رشتے کے جدا ہونے سے یقیناً دکھ اور غم کا باعث تو ہے حیرانی یا اچنبھے کی بات بہرحال نہیں؛ تاہم بیگم انور ریاض قدیر جیسی شخصیت کی رخصتی اس بات کا استحقاق رکھتی ہے کہ ان پر کچھ لکھا جائے اور بے شمار آسانیوں کے باوجود اپنی ناکامیوں اور نالائقیوں کا ملبہ زمانے اور حالات پر ڈالنے والوں کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر ہمت، جذبہ اور لگن ہو تو ہر رکاوٹ کو عبور کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو انور ریاض قدیر کو عام لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔
قیام پاکستان کے موقع پر ڈاکٹر ریاض قدیر اپنے اہل خانہ سمیت لاہور منتقل ہو گئے۔ ڈاکٹر ریاض قدیر نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں بطور پروفیسر اپنی نئی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ لاہور کالج برائے خواتین میں بھی تقسیم کے اثرات کافی نمایاں تھے۔ بیشتر اساتذہ‘ جو ہندو تھیں‘ بھارت چلی گئیں۔ ایسے میں لاہور کالج برائے خواتین کی پرنسپل مسز لال نے بیگم انور ریاض قدیر کو ان کی مادرِ علمی میں انگریزی زبان و ادب کی پروفیسرشپ کی آفر کی‘ جو انہوں قبول کر لی۔ بیگم انور کئی سال تک لاہور کالج برائے خواتین کے شعبہ انگریزی سے وابستہ رہیں جبکہ اسی ثنا میں ان کے شوہر ڈاکٹر ریاض قدیر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل بن گئے۔ 1961 میں بیگم انور ریاض قدیر نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری کے حصول کیلئے داخلہ لے لیا۔ 1963 میں جب انہوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری پہلی پوزیشن کے ساتھ حاصل کی تب وہ آٹھ بچوں کی ماں تھیں۔ بعد ازاں وہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن میں بطور سینئر انسٹرکٹر سول سروس آف پاکستان کے منتخب کردہ افسران کو پڑھاتی رہیں۔
میری بیگم انور سے دوسری اور آخری ملاقات آج سے قریب چھ سال قبل تب ہوئی جب میں امریکہ میں ہی تھا اور مجھے پتا چلا کہ ڈاکٹر آصف ریاض قدیر کے چھوٹے بھائی طارق قدیر المعروف گل جی کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں تعزیت کیلئے ہیوسٹن گیا تو آصف کے ساتھ ان کی والدہ کے گھر چلا گیا۔ آصف ریاض قدیر کا چھوٹا بھائی طارق ریاض قدیر اپنے بچوں سمیت اپنی والدہ کے ساتھ رہتا تھا۔ وہاں ڈاکٹر آصف ریاض قدیر کے سارے بہن بھائی موجود تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنی تمام تر تعلیمی اور پھر بعد میں پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود بیگم انور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے کسی طور غافل نہ ہوئیں۔ ان کے آٹھ بچوں میں سے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ڈاکٹر بنیں۔ ان کے ایک بیٹے ڈاکٹر عارف ریاض قدیر جماعت اسلامی کے بانی اور امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے داماد ہیں جبکہ ان کی ایک ڈاکٹر بیٹی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فرزند حسین فاروق مودودی کی شریکِ حیات ہیں۔ میری بیگم انور ریاض قدیر سے پہلی ملاقات ہیوسٹن میں ہی حسین فاروق مودودی کے صاحبزادے کی شادی کے موقع پر ہوئی تھی۔
بیگم انور ریاض قدیر پر یہ کالم لکھنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ روز بروز ہمت اور حوصلے سے محروم ہوتی ہوئی اس سوسائٹی کو بتایا جا سکے کہ مرحومہ معاشرے کے لیے عمومی طور پر اور خواتین کیلئے خصوصی طور پر ہمت، استقلال اور جہدِ مسلسل کا نمونہ تھیں۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ہم جیسے اپنی ناکامیوں کیلئے مختلف جواز تراشنے والوں کو ان سے سبق حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!