ایک انسان دوست!

کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جو جتنے دور ہوں اتنے ہی زیادہ یاد آتے ہیں، اپنے اسکول کے زمانے میں ایک امتحانی سوال کے آگے لکھا ہوتا تھا ’’اپنی بات مثالوں سے واضح کریں‘‘ سو مثال کے طور پر احسان شاہد ،جو ربع صدی سے بھی پہلے میاں چنوں سے لندن گیا تھا اور آج بھی وہیں ہے مگر اس کے دل میں میاں چنوں بھی اب تک آباد ہے۔ اس کا دل بہت وسیع ہے، اس میں پورے پاکستان کی محبت اور اس ملک سے بھی محبت ،جس نے اس کی شخصیت کو مزید نکھارا ہےپوری طرح موجود ہے۔ دوستوں سے اس کی محبت بھی غیر معمولی ہے۔ میں بہت دفعہ مشاعروں اور تقریبات کے حوالے سے لندن گیا ہوں، ایئر پورٹ پر احسان اپنے چند ’’عوام‘‘ کے ساتھ میرے استقبال کیلئے کھڑا ہوتا ہے، وہ مجھے میرے ہوٹل لے کر جاتا ہے، جہاں اس نے پہلے سے تازہ پھل، میو ہ جات، چاکلیٹ اور دوسری ’’الم غلم‘‘ چیزیں سجا کر رکھی ہوتی ہیں۔ میں جتنے دن لندن میں رہوں مجھے اس کی رفاقت میسر ہوتی ہے۔ میں ہوتا ہوں اور اس شہر خوباں کی روشن اور چمکتی دمکتی سڑکیں ہوتی ہیں جن پر احسان رفتار کی پابندی کرتے ہوئے مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا رہا ہوتا ہے۔

میں احسان کی کمپنی کو بہت انجوائے کرتا ہوں، وہ ایک لمحہ بھی بور نہیں ہونے دیتا، وہ بہت خوش آواز ہے اپنی خوبصورت آواز میں کبھی کوئی لوک گیت سناتا ہے اور کبھی اپنی خوش گلوئی سے نعت رسولؐ پڑھنے لگتا ہے۔ وہ ایک کھلنڈرا سا ’’بچہ‘‘ ہے اور اسے دیکھ کر مجھے نجیب احمد کا یہ شعر ہمیشہ یاد آتا ہے؎

کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا

سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے

اور یہ ’’بچہ‘‘ کسی عرب ملک میں ہو تو عربی لباس میں، اٹلی میں اطالوی لوگوں کے قدیم لباس میں، میکسیکو میں وہاںکے لباس ہی میں ملبوس نہیں ہوتا بلکہ وہاں کی مخصوص وکیبلری کے جملے بھی بولنے لگتا ہے۔ ایک زمانہ تھا بلکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے کہ میں دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود ہوں احسان کو بس اطلاع ملنے کی دیر ہوتی ہے وہ لندن ہی سے وہاں اپنے لئے کسی ہوٹل میں اپنا کمرہ بک کراتا ہے اور اتنے دن میرے ساتھ ہی گزارتا ہے۔ میرے ہر سفر میں عذیر احمد بھی میرے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کمال کا کریکٹر ہے، احسان اس کی کمپنی بھی بہت انجوائے کرتا ہے مگر اس کو تنگ بھی کرتا رہتا ہے اور یہ کمال عذیر احمد کا ہے کہ وہ محبت سے کہی گئی کڑوی سے کڑوی بات پر بھی ہنستا رہتا ہے۔

میری ان باتوں سے یہ نہ سمجھیں کہ احسان صرف دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے وہ بے حد ’’گھریلو مخلوق‘‘ بھی ہے ۔وہ اپنی بیوی اور بیٹی سے بے حد محبت کرتا ہے اور اکثر کسی ملک کے سیاحتی مقام پر ان کے ساتھ کئی ہفتے گزارتا ہے اور یہ سیاحتی ٹور مہنگا ترین ہوتا ہے۔ کیا گوروں نے ان مقامات پر اپنی ہالیڈے انجوائے کرنی ہے جن مہنگے ترین مقامات پر یہ اپنی فیملی کو لے جاتا ہے۔ تاہم اس کی شخصیت کا یہ صرف ایک رخ ہے، اس نے کئی برسوں سے ہانسلو (لندن) میں ’’اوپن کچن‘‘ کے شریک بانی کی حیثیت سے بے پایاں انسانی خدمات انجام دی ہیں چنانچہ ’’جیو‘‘ کے نمائندہ مرتضیٰ علی شاہ کے بقول ’’پاکستانی نژاد برطانوی چیریٹی ورکر احسان شاہد چوہدری کو آنر آف برٹش ایمپائر میڈل سے نوازا گیا ہے، یہ اعزاز انہیں مغربی لندن میں گزشتہ کئی برس سے چلائے جانے والے ’’کھلے باورچی خانے‘‘ کے ذریعے ہزاروں بے گھر اور ضرورت مندوں کو مفت کھانا فراہم کرنے پر دیا گیا ہے‘‘ تاہم میں احسان شاہد کی ان خدمات کا عینی گواہ بھی ہوں، میں نے یہ اوپن کچن دیکھا ہے اور سینکڑوں مسلم، غیر مسلم ، ہم وطن یا تارکین وطن کوبھی قطاروں میں کھڑے باری باری کھانا اپنی پلیٹوں میں ڈال کر لے جاتے دیکھا ہے، مجھ سے اپنی وہ خوشی بیان نہیں ہو رہی جو ان افسردہ چہروں پر خوشی کی چمک دیکھ کر میں نے محسوس کی اور اس میں ایک خوشی یہ بھی شامل تھی کہ ہمارے ہاں پائے جانے والے بے شمار ’’دیندار‘‘ لوگوں کے برعکس احسان انسانوں کی خدمت اور دیانت و امانت کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہے۔ مجھے ایک دفعہ یاد نہیں رہا کہ لندن میں اس وقت کیا ٹائم ہوگا میں نے احسان کو فون کردیا اس نے اسی وقت فون اٹھالیا، مجھے یہ احساس جلدی ہوگیا تھا کہ میں نے غلط ٹائم پر فون کیا ہے کہ لندن میں یہ فجر یاتہجد کا وقت تھا اور مجھے اس ’’کھلنڈرے سے بچے‘‘ پر حیرت ہوئی کہ وہ اس وقت اپنے خدا کو یاد کر رہا تھا۔

مجھے ابھی احسان شاہد کے بارے میں بہت سی باتیں کرنا تھیں مثلاً انجمن ترقی پسند برطانیہ کے صدر بخش لائلپوری مرحوم جو شاعری میں اس کے استاد تھے ان کی وفات کے برس ہا برس بعد بھی احسان ان کی فیملی کے ساتھ رابطے میں ہے اور ان کی ہر خوشی اور غم میں اسی طرح شریک ہوتا ہے جیسے اپنے استاد کی زندگی میں ہوتا تھا، اسی طرح اعجاز احمد اعجاز کو بھی وہ ابھی تک نہیں بھولا اور اس کا رابطہ ان کی فیملی سے برقرار ہے۔ چنانچہ اسے اس شاندار برٹش ایوارڈ ہی کی مجھے مبارکباد نہیں کہنی بلکہ اس کے سارے رویّے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وہ انسانوں سے محبت کرتا ہے، پسے ہوئے لوگوں سے بھی اور ان دوستوں سے بھی جو اس سے بچھڑ گئے۔ میں احسان کے اس شاندار ریکارڈ پر اسے دلی مبارکباد اور یہ تجویز کرتا ہوں کہ برطانیہ میں اپنی خدمات کے حوالے سے پاکستان کا نام روشن کرنے والے اس شخص کو خود پاکستان بھی تو اسے ایوارڈ سے نوازے۔ اللہ کرے یہ دستک ان کو سنائی دے، جنہوں نے بعض دفعہ یہ ایوارڈ ریوڑیوں کی طرح بانٹے ہیں۔ کیوں نا اس دفعہ کوئی ’’انوکھا‘‘ کام کر دکھائیں تاکہ ان کے سابقہ گناہوں کی معافی کی کوئی صورت نکل سکے۔