بجلی کے بلوں کا بحران!

حکومت اور مراعات یافتہ طبقہ کو ابھی تک پوری طرح اندازہ نہیں ہوا کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کیلئے بجلی کے بل ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔بہت کم ماہانہ آمدنی والے عوام ہی کیلئے نہیں متوسط طبقے کیلئے بھی اس بار گراں سے نبھا ممکن نہیں رہا۔ عوام کو سیاسی مسائل کے حوالے سے سڑکوں پر لانے کی کوشش کی گئی مگر وہ سڑکوں پر نہیں آئے اور اب یہ صورتحال ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کی کال کے بغیر لوگ اپنے طور پر گھروں سے نکل آئے ہیں بڑے اور چھوٹے شہروں میں آئے روز بہت جذباتی مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ہمارے ہاں کچھ لوگ پہلے سے چاہتے ہیں کہ انتشار کو ہوا دی جائے اور پاکستان جتنا غیر مستحکم ہو سکتا ہے اسے کیا جائے ،یہ کوشش اندرونی اور بیرونی حلقوں کی طرف سے کی جا رہی ہے مگر حکومت کو ابھی تک صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں اور وہ عوام کی چیخ وپکار سے بے نیاز روٹین کی سرگرمیوں میں مشغول ہے!

میں نے کالم کے آغاز میں حکومت کے ساتھ مراعات یافتہ طبقے کی بے حسی کا بھی ذکر کیا ہے، یہ طبقہ جانتا نہیں کہ عوام کو اگر جینے کی سہولت نہ دی گئی تو پھر یہ بھی چین سے نہیں رہ سکے گا ۔عوام کا ریلہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا ۔پاکستان کے مختلف طبقوں نے اپنے جتھے بنائے ہوئے ہیں تاجر، وکیل، ڈاکٹراور کچھ دوسرے حلقوں پر اگر ذرا سی آنچ آئے تو وہ ہڑتال پر چلے جاتے ہیں اور یوں معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں اس کا نتیجہ اگلے ہی روز مطالبات ماننے کی صورت میں سامنے آ جاتا ہے۔ اس دفعہ پہلی بار عوام بھی منظم ہو رہے ہیں اور لگتا ہے ان میں مزید ظلم سہنے کی سکت نہیں رہی۔حکومت کیلئے اس کے بغیر چارہ نہیں رہے گا کہ وہ مراعات یافتہ سے ان کی وہ مراعات واپس لے، جس کیلئے عوام کا خون چوسا جاتا ہے۔وہ ان طبقوں کی گردن پر ’’گوڈا‘‘ رکھ کر ان سے وہ سارے واجبات وصول کرے جن کی وجہ سے سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ حکومت بیوروکریسی، وزراء،قومی اورصوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان کو وہ سہولتیں نہ دے جن کی وجہ سے عوام کی شامت آتی ہے۔دفتروں میں صاحب کے آنے سے پیشتر ہی سارے اے سی آن کر دیئے جاتے ہیں تاکہ جب صاحب تشریف لائیں تو انہیں ’’تتی‘‘ ہوا نہ لگے، اسی طرح سارے مال سینٹر بھی ایئرکنڈیشنڈ ہیں، سرکاری عمارتیں ہمہ وقت ٹھنڈی ٹھار رہتی ہے۔انتہائی مہنگی کاریں ’’سستے‘‘ لوگوں کو دی جاتی ہیں بہت سے محکموں کے ملازمین کیلئےبجلی کے جتنے یونٹ فری ہیں اس کے بعد برائے نام ادائیگی باقی رہ جاتی ہے ۔انکم ٹیکس صرف سرکاری ملازمین ادا کرتے ہیں ان کے علاوہ بڑی بڑی مارکیٹوں میں جو ٹیکس ادا کیا جاتا ہے وہ کروڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہوتا ہے اگر اس غیرہموار نظام پر نظرثانی کی جائے تو عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے ورنہ ایک وقت آئے گا اور مجھے وہ زیادہ دور نہیں لگتا جب ان کی نیندیں چرانے والے خود بھی چین کی نیند نہیں سو سکیں گے۔

بجلی کے بلوں کے حوالے سے ابن عاصی صاحب نے کنٹرولر الیکٹرک سپلائی سے کچھ سوال پوچھے ہیں وہ سوال آپ بھی سن لیں۔

بجلی کی قیمت ادا کر دی تو اس پر کون سا ٹیکس؟

کون سے فیول پر کونسی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟

کس پرائس پہ الیکٹرسٹی پہ کون سی ڈیوٹی؟

کون سے فیول کی کس پرائس پر ایڈجسٹمنٹ؟

بجلی کے یونٹس کی قیمت (جو ہم ادا کر چکے) پر کونسی ڈیوٹی اور کیوں؟

ٹی وی کی کونسی فیس جبکہ ہم کیبل استعمال کرتے ہیں الگ سے پیسے دیکر؟

جب بل ماہانہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ بل کی کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟

کون سی فنانس کی کاسٹ چارجنگ

جب استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کر رہے ہیںتو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟

کس چیز کے اور کون سے FURTHER (اگلے)چارجز؟ودہولڈنگ چارجز کس شے کے ؟

میٹر تو ہم نے خود خریدا تھا اس کا کرایہ کیوں؟

بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟

میںنہیں جانتا یہ سوال کتنے اہم ہیں یا غیر اہم ہیں مگر ان سے عوام کی بے چینی کا اندازہ ضرور ہوتا ہے میری گزارش صرف اتنی ہے کہ جو ادارے خسارے میں جا رہے ہیں ان کے کئی سو ارب کا خسارہ عوام سے وصول نہ کیا جائے، عوام بھرے پڑے ہیں اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ عمران خان نے دھرنے کے دوران بجلی کا بل جلاتے ہوئے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ بھی بجلی کا بل ادا نہ کریں بل آئے تو اسے جلا دیا کریں مگر آج کسی لیڈر کی اپیل کے بغیر بہت سے شہروں سے بجلی کے بل جلائے جانے کی خبریں آ رہی ہیں ۔

اب آخر میں اسد اعوان کی ایک غزل:

جس گھڑی ہم سے شب وصل میں مہ رو بدلا

لذت ربط گئی ہم نے بھی پہلو بدلا

مشتعل نہر کے پانی کا بہائو ہے بہت

پیرہن کہیں اس نے آج لب جو بدلا

ہم کو درپیش رہی تیرہ شبی ہم نے مگر

چاند بدلا نہ دیا بدلا نہ جگنو بدلا

وقت پر وقت بدل دیتا ہے ملنے کا مگر

اپنی نیت کو نہیں اس نے سر مو بدلا

پہلے پانی تھا مگر آج لہو سے تر ہے

آنکھ تو بدلی نہیں ہجر میں آنسو بدلا

ایک شب ملنے مجھے آیا تھا تنہائی میں

رات بھر میں نے کہاں تکیہ بازو بدلا

ہم نے کوشش تو بہت کی ہے بدلنے کی اسے

شہر حیرت میں کہاں ہم سے تنک خو بدلا

وہ کہیں گزرا ہے جاگیر تصور سے اسد

اس لئے ہم نے بھی رخ جانب خوشبو بدلا