بجلی کے بل

ان دنوں ہر شخص پریشان ہے اور یہ غم جاناں نہیں، غم دوراں ہے مہنگائی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے روز مرہ ضرورت کی اشیاء بھی عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔لوگ سبزی خریدنے جاتے ہیں تو انہیں یہ بھی آمدنی سے متناسب نہیں لگتی تاہم اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بجلی کے بلوں کا ہے عوام تو درکنار خواص بھی بلبلا اٹھے ہیں۔ ہزاروں میں تنخواہ لینے والوں کا بل بھی ہزاروں میں آتا ہے تو وہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں چنانچہ اس کے نتیجے میں لوگ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ایک خاندان کے سربراہ نے شدید پریشانی کے عالم میں پہلے اپنے بچوں کو جان سےمارا اور اس کے بعد خودکشی کر لی۔ تاہم یاد رکھیں اور اس وقت سے ڈریں جب لوگ خود کو نہیں ماریں گے بلکہ ان کا ٹارگٹ کوئی اور ہو گا!

میں نے جو بات کی ہے اس کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں لوگ بجلی کے محکمے سے وابستہ افراد کی پٹائی کرنے لگے ہیں حالانکہ ان بیچاروں کا کوئی قصور نہیں یہ بھی عوام ہی سے ہیں اور یہ خود بھی اس ابتلا سے گزر رہے ہیں۔ روز افزوں مہنگائی لوگ کسی نہ کسی طور برداشت کر رہے تھے مگر بجلی کے بلوں نے ان کی قوت برداشت ختم کر دی ہے۔ چنانچہ اب مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں آپ جان لیں یہ ابھی ابتدا ہے لوگ جتنے بھرے پڑے ہیں مقتدر طبقہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ عوام کا یہ غصہ کتنی خوفناک شکل اختیار کرسکتا ہے، مختلف شہروں میں مظاہرے ہوں گے اور ایک وقت آئے گا جب صورتحال سنبھالے نہ سنبھلے گی۔ حال ہی میں ارجنٹائن میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے صرف مظاہرے نہ رہے ، لوٹ مار بھی شروع ہو گئی اور لوگوں نے راستے میں پڑنے والی سب دکانیں لوٹ لیں اور اس کے بعد لوٹ مار کا یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا۔

ان دنوں جتنی شدید گرمی پڑ رہی ہے اور حبس کا جو عالم ہے اس کے مداوے کیلئے گھر میں اگر دو پنکھے بھی چلتے ہیں اور ایک دو بلب بھی روشن ہوتے ہیں تو اس کا بل بھی پندرہ بیس ہزار ماہوار تنخواہ لینے والے کیلئے یہ پہاڑ ہے جو اس کے لئے سر کرنا ممکن نہیں۔ اس طرح جن لوگوں کی ماہانہ آمدنی ڈیڑھ دو لاکھ روپے ہے اور ان کے گھر میں ایک ایئرکنڈیشنر ہے اس کا بل کسی بھی صورت پچاس ہزار سے کم نہیں ہوتا، پٹرول مہنگا ہوا تو اتنا شور شرابا نہیں ہوا جتنا بجلی کے بلوں میں بے پناہ اضافہ کی وجہ سے ہو رہا ہے ان دنوں ایک بہت بڑی فرم کا اشتہار ٹی وی چینلز پر دیکھنے میں آ رہا ہے جس میں بائیس ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے افراد کے کم سے کم اخراجات کی تفصیل بیان کی جاتی ہے اور پھر اخراجات اور آمدنی کے تناسب سے بجا طور پر یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ اس آمدنی اور اس تنخواہ میں گزارہ ہی ممکن نہیں۔ مجھے اس فرم کی یہ دلسوزی بہت اچھی لگی اور میں نے دل ہی دل میں اس مفروضے پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس فرم میں کام کرنے والوں کی تنخواہیں اتنی ضرور ہوں گی جو گزارے کے لائق نہیں بلکہ جینے کے لائق ہوں گی اگر میرا یہ مفروضہ درست ہے تو کمپنی کو مبارک باد اور اگر ایسا نہیں ہےتو صرف اسے نہیں بلکہ کروڑوں اربوں میں کھیلنے والے تاجروں اور صنعت کاروں کو خدا کا خوف کرنا چاہئے، کتنا اچھا ہو اگر وہ اپنے کارکنوں کی تنخواہوں پر نظرثانی کریں!

میں یہ مطالبہ حکومت سے بھی کرنا چاہتا ہوں کہ نہ صرف بجلی کے بلوں بلکہ روز مرہ استعمال کی تمام اشیاء کی قیمتیں اعتدال میں لائے اور صرف یہ نہیں بلکہ تنخواہوں میں بھی اضافہ کرے مگر میں اپنا یہ مطالبہ خود ہی واپس لے رہا ہوں کہ جانتا ہوں کہ الزام فوراً آئی ایم ایف پر عائد کر دیا جائے گا اور آئی ایم ایف کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اور اس اقدام کو ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے اس کی ضرورت پر بھی اصرار کیا جائےگا ، چلیں مان لیتے ہیں مگر جن لوگوں کو بجلی کے بل ہی نہیں آتے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے متقدر طبقوں کی آسائش کیلئے خرچ کئے جاتے ہیں کم از کم وہی ختم کر دیں مگر مجھے اپنا یہ مطالبہ بھی واپس لینا پڑ رہا ہے کہ جانتا ہوں ایسا نہیں ہوگا پارلیمنٹ میں ہزاروں کسانوں اور دوسرے محنت کش طبقوں کا کوئی نمائندہ موجود نہیں جو ان کیلئے آواز اٹھاسکے اور یوں یہ لوگ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب تاج اچھالے جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے!

آخر میں قمر رضا شہزاد کی ایک غزل!

یونہی تو مرے ہاتھ میں کاسہ نہیں آیا

مجھ تک مرے اجداد کا ترکہ نہیں آیا

پہنچے تھے بہت لوگ سردشت محبت

کوئی بھی مگر لوٹ کے زندہ نہیں آیا

کچھ دن تو تمہیں جشن منانے میں لگیں گے

تخت آیا ہے تم تک ابھی تختہ نہیں آیا

مت سمجھو کہ تلوار مری زنگ زدہ ہے

بس یہ کہ ابھی جنگ کا لمحہ نہیں آیا

کچھ دیر تو رک جائیں مرے ماتمی شہزاد

مقتل سے ابھی میرا جنازہ نہیں آیا