حالات اچھے نہیں

مہنگائی کے خلاف حالیہ مظاہروں کو EASY نہ لیں ابھی غریب عوام صرف دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں اور مشکل زندگی کو آسان بنانے کی کوشش میں مشغول ہیں مگر بہت جلد صورت حال میں تبدیلی آسکتی ہے، عوام کے غصے کو کوئی دوسرا فریق اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے، بلکہ گزشتہ روز کے ایک مظاہرے میں وہ لوگ بھی نظر آئے جن کا مسئلہ مہنگائی ہے ہی نہیں، وہ شکل و صورت اور لباس سے اس بے فکرے طبقے کے افراد لگ رہے تھے جن کے لئے بجلی کے بلوں میں اضافہ کوئی معنی ہی نہیں رکھتا چنانچہ وہ بلوں کو آگ لگاتے ہوئے ہنس بھی رہے تھے۔ مجھے ایک خطرہ یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ مہنگائی میں کمی کر بھی دی جائے تو بھی مظاہرے اب رکیں گے نہیں بلکہ دن بدن ان میں شدت لانے کی کوشش کی جائے گی اور اس میں جلائو گھیرائو اور خون خرابہ بھی شامل ہوگا، صورتحال اس درجہ خراب کی جا سکتی ہے کہ لوگوں کی جان اور مال کے تحفظ کے لئے گولی چلانے کی نوبت آ جائے اور بس عوام کے دکھوں سے بے نیاز طبقہ یہی چاہ رہا ہوگا کہ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اصل ایجنڈے کے ساتھ میدان میں کود پڑے گا۔

ہمارے ہاں شاید ہی کوئی ایسا درد مند ہو جس کے دل میں اس بوسیدہ نظام کو تہس نہس کرنے کی خواہش نہ ہو جس نے عوام کے خواب چرا لئے ہیں اور ان کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں، مگر انقلاب انقلابی لایا کرتے ہیں اور اس کے لئے ایک طویل جدوجہددرکار ہوتی ہے اور انقلاب کا ایک واضح نقشہ ذہنوں میں ہوتا ہے، مگر جس طبقے کے حوالے سے میں اپنے خدشات کا اظہار کر رہا ہوں ان میں وہ اندرونی اور بیرونی لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کے دلوں میں پاکستان کا وجود کھٹکتا ہے، پاکستانی عوام کا ان سے کوئی تعلق نہیں، وہ پاکستان کو ایک خوبصورت پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، جس میں استحصالی طبقات نہ ہوںاور ان طبقوں کے محافظ حکمراں نہ ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ موجودہ الارمنگ صورتحال کو اگر صحیح طریقے سے ہینڈل نہ کیا گیا تو متذکرہ طبقے کے لئے وہ عید کا دن ہوگا۔

بہرحال مجھے بہت خوشی ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد عوام جاگے ہیں اور انہوں نے اپنے حقیقی مسائل کے حل کے لئے ایک پرامن جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ اس وقت سچویشن یہ ہے کہ مہنگائی نے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے، پہلے لوگ روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارا کر لیا کرتے تھے اب تو یہ روکھی سوکھی بھی ان کی دسترس میں نہیں ہے، میرا شمار بھی ان پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو اس مہنگائی کے دور میں بھی اچھی گزر بسر کر رہے ہیں، مگر جب میری اہلیہ گروسری خریدنے مہینے کے آغاز میں گھر سے نکلتی ہے تو واپسی پر بہت پریشان نظر آتی ہے کہ روزمرہ استعمال کی کسی چیز کو ہاتھ لگائیں تو میرؔ کی بدحالی کا عکاس انہی کا یہ شعر یاد آتا ہے ۔؎

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ و گل سے میرؔ

بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے

عوام کو کبھی پرسکون زندگی میسر نہیں آئی، وہ ہر دور میں صبر کرتے رہے اور یہی سمجھتے رہے کہ ان کی مشکل زندگی کے لئے کوئی ذمہ دار نہیں، بس اللہ کی رضا یہی ہے اور ہر دور کے ظالموں نے عوام کو اس بات کا یقین ملائوں کے ذریعے دلایا، درمیان میں کچھ ایسے دور بھی آئے جب عوام کی مشکلات میں قدرے کمی آئی، مثلاً نواز شریف کے اقتدار کے آخری دنوں 2018 تک صورتحال یہ تھی کہ روٹی دو روپے میں ملتی تھی، بجلی چار روپے یونٹ تھی، پٹرول ساٹھ روپے کا لیٹر تھا، چینی پچاس روپے فی کلو تھی، آٹا پینتیس روپے فی کلو اور آئل ایک سو تیس روپے تھا جبکہ ڈالر ایک سو چار روپے پر آ کر روک گیا تھا، مگر اس دور میں ایک اسپانسرڈ دھرنے کے دوران ایک پارٹی کے سربراہ نے بجلی کے بل جلائے اور عوام کو سول نافرمانی پر ابھارا، ہمارے ملک کی بہت سی بدقسمتیوں میں سے ایک بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اقتدار میں آنے کے لئے اقتدار کے خواہش مند سب کچھ کر گزرتے ہیں وہ ہر وقت استعمال ہونے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور انہیں استعمال کرنے والے پہلے سے تیار نظر آتے ہیں۔

بہرحال صورتحال میں تبدیلی کے لئے عارضی حل تو یہ ہے کہ ممکن حد تک بجلی کے بلوں اور مجموعی طور پر مہنگائی میں کمی کےلئے ضروری اقدامات کئے جائیں تاہم دیرپا حل صرف یہی ہے کہ جاگیرداری سسٹم ختم کیا جائے، انڈیا نے آزاد ہوتے ہی یہ اقدام اٹھایا تھا مگر ہم نے انگریز کے ان مخبروںکو ابھی تک سر پر بٹھایا ہوا ہے اور وہ اسمبلیوں میں آ کر مزدوروں، کسانوں اور دوسرے محنت کش طبقوں کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔ پاکستان کی دوسری بدقسمتی یہاں مارشل لائوں کا مسلسل نفاذ اور بکائو عدلیہ رہی ہے، انڈیا نے آغاز ہی میں مارشل لا کا راستہ روک دیا تھا اور یوں آج تک وہاں عوام کے منتخب حکمران ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں، اب بھی وقت ہے کہ فوراً نہ سہی مگر آہستہ آہستہ ملک کو اصل جمہوریت کی پٹری پر لایا جائے اور آخر میں ایک بار پھر یاد دہانی کہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کی کوشش کی جائے گی اس کا سدباب ابھی سے کرلیں۔