بشیرا کہاں گیا؟

وہ ایک دکان پر سیلز مین تھا گھر کے قریب ہونے کی وجہ سے میں سودا سلف خریدنے اکثر اسی دکان پر جایا کرتا تھا۔اس کا نام بشیر تھا لیکن سب اسے بشیرا بشیرا کہتے تھے۔ وہ ہمیشہ ایک ہی جوڑا پہنے رکھتا میں نے اسے کبھی نئے لباس میں نہیں دیکھا تھا۔ اس کی عمر پچیس چھبیس سال کے لگ بھگ تھی مگر اس کے چہرے پر زردی سی چھائی رہتی تھی۔ وہ ایک انتہائی صابر و شاکر نوجوان تھا۔ اس کی زبان سے کبھی کوئی شکوہ شکایت سننے کو نہیں ملا تھا میں جب رسمی طور پر اس کا حال پوچھتا تو وہ جواب میں کہتا”اللہ کا شکر ہے، بہت اچھی گزر رہی ہے“ اور لگتا تھا وہ یہ جملہ دل کی گہرائیوں سے ادا کررہا ہے۔جب کبھی دکان کامالک بھی موجود ہوتا تو وہ اسے میرا خریدا ہوا سامان میری گاڑی میں رکھنے کے لئے کہتا اور ایسا کرنے کے بعد وہ فوراً واپس جانے کی کرتا چنانچہ میں ہمیشہ اسے رکنے کے لئے کہتا اور ٹپ کے طور پر کچھ رقم ادا کرتا۔ تاہم مجھے کبھی اس سے زیادہ بات چیت کا موقع نہیں ملا تھا۔ مجھے یہ صابر و شاکر اور خود دار نوجوان اچھا لگنے لگا تھا۔

ایک دن وہ دکان پر اکیلا تھا اور مجھے بھی واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں تھی میں نے اس سے پوچھا”سنا بھئی بشیرے کیسی گزر رہی ہے؟“ اس کے چہرے پر اس کی سدا بہار مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے پورے یقین سے اپنا معمول کا جملہ دہرایا اللہ کا شکر ہے جی بہت اچھی گزررہی ہے۔ میں نے اس سے شادی کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے شرماتے ہوئے کہاجی پچھلے برس میری شادی ہوئی ہے اب خیر سے میری ایک بچی بھی ہے۔ میں نے پوچھاتمہاری تنخواہ کتنی ہے؟ بولاساڑھے چار ہزارروپے ملتے ہیں جی، اس پر مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ساڑھے چار ہزار روپے تنخواہ ہے اور یہ خوش کتنا ہے۔ چنانچہ میں نے پوچھاصرف ساڑھے چار ہزار؟ بولابہت ہیں جی، میں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا ہوا ہے اس میں ایک غسل خانہ بھی ہے اس کے کونے میں ہم نے چولہا رکھا ہوا ہے جوہمارا باورچی خانہ ہے اللہ کا شکرہے کوئی مسئلہ نہیں ۔مجھے اس کی اس نوع کی قناعت پسندی پر شدید غصہ آیا میں نے پوچھا اتنے تھوڑے پیسوں میں تم گھر کا بجٹ کیسے بناتے ہو؟ اس نے بتایا کہ2200روپے گھر کا کرایہ ہے جس میں ہمارے ایک پنکھے اور ایک بلب کا بل بھی شامل ہے۔1800روپے میں گھر کا سودا سلف آجاتا ہے باقی جو500روپے بچتے ہیں وہ دکان پر آنے جانے کے کرائے میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ میں نے پوچھا جب تم یا تمہاری بیوی یا بچی بیمار پڑتے ہو، کوئی شادی بیاہ آجاتا ہے، کوئی عزیز رشتہ دار بھی کبھی مہمان کے طور پر تمہارے ہاں آتا ہوگا ،انسان نے کوئی کپڑا لیرا بھی سلانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اخراجات ہوتے ہیں تو تم یہ اخراجات کہاں سے پورے کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا میں گاہکوں کا سامان ان کی گاڑی تک چھوڑنے جاتا ہوں تو آپ کی طرح وہ بھی مجھے کچھ نہ کچھ ٹپ دیتے ہیں، چنانچہ اللہ کا فضل ہے جی، بہت آرام سے گزر رہی ہے۔

اس کی اس قناعت پسندی پر میرا دماغ پھٹنے والا ہوگیا تھا میں نے کہا بشیرے جب تم سارا دن کام سے تھکے ماندے گھر پہنچتے ہو تو کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ تم اپنی بیوی اور بچی کو لے کر باہر جاؤ یا تم لوگوں کی ساری تفریح صرف یہ ہے کہ تمہاری عدم موجودگی میں تمہاری بیوی ٹی وی دیکھتی رہتی ہے اور واپس گھر جاکر تم بھی بیوی کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہو۔ اس پر اس نے ہنس کر کہا ہمارے گھر میں کوئی ٹی وی نہیں ہے جی، ہم میں بہت محبت ہے ہم بس ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ یہ سن کر اللہ جانے میرے دل پر کیوں چوٹ سی لگی، میں خاموش ہوگیا۔ بڑے سائز کا نیا ٹی وی خریدنے کے بعد پرانا ٹی وی میرے پاس بیکار پڑا تھا میں نے اسے گاڑی میں رکھا اور بشیرے کی دکان پر گیا اسے باہر بلا کر میں نے ٹی وی اس کے سپرد کیا تو وہ سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگا۔ میں اس کی الجھن سمجھ گیا میں نے کہا یہ میری طرف سے تحفہ ہے تم نے اس کے لئے کچھ ادا نہیں کرنا میں نے محسوس کیا کہ فرط مسرت سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا ہے کچھ دیر تک اس سے بولا نہ گیا، پھر وہ اس وقت تک میرا شکریہ ادا کرتا رہا جب تک میں نے اسے مزید شکریہ اداکرنے سے روک نہیں دیا۔ دوچار دنوں بعد اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ خوشی سے اس کی بیوی کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے ، اب میری عدم موجودگی میں بھی وہ بور نہیں ہوتی ہم نے گھر میں کیبل بھی لگوالی ہے اس کا ہمیں صرف ڈیڑھ سو روپے ماہوار ادا کرنا پڑرہا ہے۔ مالک مکان نے کرائے کے دو سو روپے بڑھادئیے ہیں وہ کہتا ہے ٹی وی بجلی بہت کھینچتا ہے کیبل کا خرچہ اس کے علاوہ ہے لیکن کوئی بات نہیں اللہ رازق ہے جس نے پیدا کیا ہے وہ ہمیں ہمارے حصے کا رزق بھی دے گا۔میری ایک بہت عجیب عادت ہے اور وہ یہ کہ میں جب کسی پر مہربان ہوتا ہوں تو پھر مہربان ہوتا ہی چلا جاتا ہوں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ مجھے اپنے کسی رویے سے شدید مایوس نہیں کرتا، چنانچہ اب بشیرا میرے اس رویے کی ’’زد‘‘ میں آگیا تھا۔ ایک دن میں نے سوچا کہ ہمارے ہاں اب ہر کوئی موبائل فون اٹھائے پھرتا ہے حتیٰ کہ ایک خاکروب بھی گٹر کی صفائی کے دوران دوسرے گٹر میں موجود خاکروب سے بات کررہا ہوتا ہے مگر بیچارا بشیرا جدید دور کی اس سہولت سے محروم ہے۔ میرے پاس ایک پرانا موبائل بیکار پڑا تھا وہ میں نے بشیرے کو دے دیا۔ اسکا معاوضہ بشیرے کی بے پناہ مسرت کی صورت میں مجھے ملا۔ اسی طرح شدید گرمیوں کے موسم میں میں نے اسے ایک سستا سا ڈیزرٹ کولر بنوادیا ۔ایک اور موقع پر ریفریجریٹر کے کمپریسر میں کوئی نقص پیدا ہوا تو الیکٹرانکس کا کاروبار کرنے والے میرے ایک دوست نے مجھے مشورہ دیا کہ اب یہ فریج آپ کو بار بار تنگ کریگا لہٰذا بہتر ہے کہ آپ نیا خرید لیں، چنانچہ میں نے نیا فریج خریدا اور پرانے فریج کا کمپریسر ٹھیک کراکے بشیرے کو دے دیا اور اس نوع کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔

اس دوران مجھے دو سال کیلئے ملک سے باہر جانا پڑا میں واپس آیا تو بشیرے سے ملنے اس کی دکان پر گیا مجھے یقین تھا کہ زندگی کی بیشتر ضروریات کے حصول کے بعد اب اس کی زندگی آسان ہوگئی ہوگی اور یوں میں پہلے سے زیادہ خوش و خرم بشیرے کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا مگر بشیرا وہاں نہیں تھا، میں اس کے مالک کے پاس گیا اور پوچھا’’بشیرا کہاں ہے؟‘‘مالک نے کہا’’اس کے اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے تھے کہ قلیل آمدنی میں پورے نہیں ہوسکتے تھے اس نے قسطوں پر موٹر سائیکل بھی خریدی اور اسی طرح دوسری چیزیں بھی وہ گھرلاتارہا ،وہ چھوٹا موٹا جوا بھی کھیلنے لگا تھا، ا س نے اپنا گھر بھی بدل لیا تھا، وہ کہتا تھا اس میں دم گھٹتا ہے اس نے اپنے سب جاننے والوں سے باری باری قرض لیا جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہنے لگا تھا جب زیادہ عرصے تک لوگوں کو اپنا دیا ہوا قرض واپس نہ ملا تو انہوں نے اس کا جینا حرام کردیا اور یوں اس کی پریشانی عروج پر پہنچ گئی وہ اس دوران دکان میں بھی ہیر پھیر کرنے لگا تھا، چنانچہ میں نے اسے ملازمت سے برطرف کردیا ۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے جسم میں جان نہ رہی ہو، میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا’’ پھر کیا ہوا؟‘‘ وہ بولا پرسوں اس نے پنکھے کے ساتھ لٹک کر خود کشی کرلی ہے آج اس کے قل ہیں میں تھوڑی دیر بعد وہیں جا رہا ہوں۔