اقتدار نہیں تو کچھ بھی نہیں!

ہم لوگوں نے آزادی کی قدر نہیں کی، منہ زبانی محبت کی بات کرتے رہے مگر عملی طور پرہمارے مختلف طبقات اس کی رگوں میں کرپشن کا زہر گھولتے رہے اور یوں اس کی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ہم آدھا ملک گنوابیٹھے اور اب ایک ایسی جماعت ہمارے درمیان ہے جس کا سابق وزیر اعظم پاکستان ’’اگر میں نہیں تو کچھ نہیں‘‘ کی گردان کرتا پاکستان کو برباد کرنے کے در پے ہے، اس کے کارکنوں نے پہلے فوجی تنصیبات پر حملے کئے، شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی اور پھر چودہ اگست کو یوم پاکستان کی تقریبات کو ایک اور رنگ دینے کی بھرپور کوشش کی گئی تاہم پاکستان سےباہر ایک دو ملکوں میں ان کی کوشش کامیاب ہوسکی۔

میں نے ایک ویڈیو کلپ دیکھا ہے جس میں پی ٹی آئی کا ایک جلوس لندن میں میاں نواز شریف کے گھر کے باہر ایک آدھ پاکستان کا جھنڈا اور سارے لوگ پارٹی کا جھنڈا اٹھائے نوازشریف کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، صاف پتہ چل رہا تھا کہ پاکستان ڈے کی اہمیت سے انہیں کوئی غرض نہیں بلکہ معاملہ ’’روندی یاراں نوں، ناں لےلے کر بھراواںدا‘‘ سے ملتا جلتا ہے، نہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ سنائی دیا نہ ان کے چہروں پر اس دن کے حوالے سے خوشی کی کوئی رمق تھی۔ اسی شہر میں مسلم لیگ (ن) کی ایم پی اے حنا پرویز بٹ کو ان کے بیٹے کی موجودگی میں ہراساں کیا گیا، ان پر بوتلیں پھینکی گئیں، گندی گالیاں دی گئیں، مگر بدتمیزی اور بے ہودگی کی یہ پہلی اور واحد مثال نہیں، اس سے پہلے بار ہا مخالف جماعتوں کے رہنمائوں کو ریستوان میں ان کے گھروں کے باہر اور سرِ راہے اپنے لیڈر کے سکھائے ہوئے ذلالت کے رویوں کے تحت ہر غلیظ حرکت کی گئی۔ مگر دوسری طرف میں نے لاہورمیں پاکستانیوں کا جوش و خروش اور ولولہ دیکھا تو لگا کہ پی ٹی آئی کے دل کی بات دل ہی میں رہ جائے گی۔ لاہور کی ہر سڑک یوم پاکستان کے جشن کے حوالے سے ہزاروں پاکستانیوں کو اپنی بانہوں میں لئے ہوئی تھی، لوگ موٹر سائیکلوں، کاروں اور پیدل ،جوش سے تمتاتے چہروں کے ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں نے ان کے درمیان پی ٹی آئی کا ایک پرچم بھی نہیں دیکھا۔ چودہ اگست ہی کو ایک شاپنگ مال میں لاہوری پاکستانی پرچم کے لباس اپنے بچوں کو پہنائے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے کہ انتظامیہ کو وزیٹرز کی تعداد محدود کرنا پڑی۔ اس سے ملتے جلتے مناظر میں نے ٹی وی چینلز پر مختلف شہروں کے بھی دیکھے اور یوں منفی سوچ کی حامل جماعت اور اس کے حامیوں کو منہ کی کھانا پڑی۔

ایک اور بات جو عمران خان کی گرفتاری کے بعد دیکھنےمیں آئی کہ ان کے نابینا حامیوں کو پاکستان ٹوٹتا دکھائی ہی نہیں دے رہا بلکہ یہ ان کی خواہش بھی نظر آ رہی ہے۔ ان دنوں ان کو فوج کی کرپشن، 85فیکٹریاں، انڈیا کے سامنے ہتھیار ڈالنا اور ہزاروں طرح کی خرابیاں نظر آ رہی ہیں، مگر یہ خرابیاں صرف اس وقت سے دکھائی دے رہی ہیں ، جب اس جماعت کو اقتدار میں لانے والی اسٹیبلشمنٹ ان کی مدد کو نہ آئی جب عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی جس کے نتیجے میں اقتدار سے محرومی ان کا مقدر بنی ،تاہم فوج کے خلاف ان کی زہرافشانی صرف اس وقت تک ہے جب تک انہیں دوبارہ اقتدار میں لانے کا وعدہ نہ کیا جائے، اُس وقت جنرل باجوہ کے قصیدے پڑھے گئے تھے، بعد میں گالیاں دی گئیں، اِن دنوں آرمی چیف عاصم منیر کو ’’بددعائیں‘‘ دی جارہی ہیں۔ یہ کیا لوگ ہیں؟۔

میں سیاسی کالم بہت کم لکھتا ہوں کہ یہ میرا شعبہ نہیں ہے، چنانچہ موجودہ کالم بھی غیر سیاسی ہے کہ مجھے یہ لوگ ملک کو بہت بڑی تباہی کی طرف لے جانے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں، دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کو تو اس تباہی کی فکر نہیں کہ وہ تو یہ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں، اگر اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی یہ سازش کامیاب ہوتی ہے، جو ان شاء اللہ نہیں ہوگی تو سب کچھ صرف انہیں بھگتنا ہوگا جو اس پاک سرزمین میں اپنے بیوی بچوں،بھائی بہنوں اور والدین کےساتھ رہ رہے ہیں، چنانچہ پاکستان میں موجود پی ٹی آئی کے حامیوں کو اس زاویئے سے بھی سوچنا چاہیے اور بیرون ملک رہنے والوں کو اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ جس لیڈر کے لئے وہ سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں اس لیڈر کے دونوں بیٹے ان کے ہمسائے میں کہیں رہتے ہیں اور اس ساری صورتحال سے بے نیاز پرتعیش زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ بچے تو اپنے پاپا سے جیل میں ملاقات کیلئے بھی نہیں آئے، یہ سڑکوں پر کہاں آئیںگے۔ بہرحال پاکستان میں تمام تر برائیاں انہیں اقتدار سے محرومی کے بعد یاد آ رہی ہیں، انہیں شاید علم نہیں کہ پی ٹی آئی کے اس رویہ سے ، 9 مئی اور اس کے بعد کے واقعات کے حوالے سے اقتدار کی منزل دور بہت دور جا رہی ہے، انہیںکسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ عثمان جامی کی ایک منفرد غزل

کیسے منزل ملی، کیسے رستہ کٹا،

آپ کو کیا پتا، آپ تو گھر پہ تھے

کس کی دنیا لٹی، کون جاں سے گیا،

آپ کو کیا پتا، آپ تو گھر پہ تھے

کیسے گھربار تھے جن کو چھوڑا گیا،

وہ زمیں سے جو ناطہ تھا توڑا گیا

کیسے دامن چُھٹے، کیسے گھر گھر بٹا،

آپ کو کیا پتا، آپ تو گھر پہ تھے

وہ کہانی نہیں، ہم پہ بیتی ہے وہ،

جنگ تھی آپ کی، ہم نے جیتی ہے جو

آپ نے کہہ دیا، جو ہوا سو ہوا،

آپ کو کیا پتا، آپ تو گھر پہ تھے

ہم نے دیکھے ہیں خوں سے رنگے کارواں،

آپ کو کیا خبر، آپ تھے ہی کہاں

آگ تھی اور دھواں، مل رہی تھی سزا،

آپ کو کیا پتا، آپ تو گھر پہ تھے

اس فسانے کا ہم ہی تو کردار تھے،

ہم ہی مصلوب تھے، ہم سرِ دار تھے

ہم نے ہی جان کا اپنی سودا کیا،

آپ کو کیا پتا، آپ تو گھر پہ تھے