وزیر خزانہ سے ایک سوال

کیا فیک نیوز پر سزائوں کے نافذ ہونے والے ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق حکومتی وزرا کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار اور بیانات پر بھی ہو گا یا اس آرڈیننس کا ڈنڈا یکطرفہ اپنی صوابدید کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اپوزیشن اور صحافیوں کی طبیعت صاف کرنے کے کام آئے گا؟

فیک نیوز صرف یہ نہیں کہ وزیر اعظم کی عائلی زندگی کے بارے میں افواہ اڑا دی جائے۔ فیک نیوز صرف یہی نہیں کہ غیرملکی سربراہوں کی جانب سے ملنے والے تحائف کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کی خبریں اڑائی جائیں۔ فیک نیوز صرف یہ نہیں ہوتی کہ کون کس کو گھر کے خرچے کیلئے ماہانہ پچاس لاکھ روپے ادا کرتا رہا ہے۔ فیک نیوز تو یہ بھی ہے کہ پاکستان دنیا کے ایک سو انتالیس ممالک میں سب سے سستا ملک ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ خبر از خود فیک نیوز کے زمرے میں آتی ہے بلکہ اس کو درست ثابت کرنے کیلئے جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں وہ خود حقائق سے کوسوں دور ہیں‘ اور جو شے حقیقت سے کوسوں دور ہو وہ فیک کہلاتی ہے اور جب یہی غیرحقیقی شے خبر بنا کر پیش کی جائے تو اسے فیک نیوز کہا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے ماہرِ معاشیات ضرب بینکار مساوی شوکت ترین صاحب یعنی ہمارے وزیر خزانہ نے فرمایا کہ پاکستان میں دنیا کے ایک سو انتالیس ممالک کے مقابلے میں سب سے کم مہنگائی ہے۔ ان کی اس بات سے کم از کم اور کچھ ہو یا نہ ہو، ان کی معیشت کے بارے میں مہارت اور دسترس کھل کر سامنے آگئی ہے۔

انہوں نے اپنی بات کو درست ثابت کرنے کیلئے بڑا دھانسو قسم کا بندوبست کرتے ہوئے اپنی آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر نمبیو (NUMBEO) کے کاسٹ آف لیونگ انڈیکس کا حوالہ دیا۔ اس انڈیکس کے مطابق ایک سو انتالیس ممالک پر مشتمل لسٹ میں پاکستان کا نمبر سب سے سستے ملک میں ہوتا ہے اور پاکستان روانڈا، یوگنڈا، صومالیہ، منگولیا، گھانا، کولمبیا، نکاراگوا، زمبابوے حتیٰ کہ ایتھوپیا سے بھی سستا ملک ہے۔ ایمانداری کی بات ہے یہ پڑھ کر نہ صرف ازحد خوشی ہوئی بلکہ حیرانی بھی کہ ہم لاعلم اور نالائق لوگ اتنے بڑے اعزاز سے نہ صرف بے خبر تھے بلکہ محض اس حقیقت سے لاعلمی کے باعث اپنے اس سستے پن سے مستفید بھی نہیں ہورہے تھے۔ ظاہر ہے جب قوم کو علم ہی نہیں کہ یہ ملک دنیا بھر میں سب سے سستا ملک ہے تو بھلا قوم اس ارزانی سے لطف اندوز ہی کیسے ہوسکتی ہے؟

اب میں اس بات پر بڑا کنفیوژ ہوں کہ وزیراعظم کی بات مانوں یا اپنے گرائیں شوکت ترین کے دعوے پر یقین کروں۔ وزیر خزانہ کا فرمانا ہے کہ یہ ملک سستا ترین ہے’ دوسری طرف وزیراعظم نے کچھ عرصہ قبل فرمایا تھاکہ مہنگائی کا احساس ہے‘ میری تنخواہ دو لاکھ روپے ماہانہ ہے اور اس تنخواہ میں ہم دو لوگوں کا گزارہ بمشکل ہو پاتا ہے۔ بھلا وہ ملک دنیا کا سستا ترین ملک کیسے ہو سکتا ہے جس کے وزیراعظم کی دو افراد پر مشتمل فیملی دو لاکھ میں بمشکل گزارہ کرتی ہو جبکہ ان کو دفتر آنے جانے کیلئے ہیلی کاپٹر کی سواری مفت میسر ہو‘ گھر اپنا ہو اور کرایہ بھی نہ دینا پڑتا ہو۔ فیک نیوز کے نئے نئے نافذ کردہ قانون کی موجودگی میں ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کا گھر‘ جو ظاہر ہے ملک کے وزیراعظم کی رہائش گاہ ہے‘ کی بجلی اور گیس وغیرہ کا بل بھی سرکاری کھاتے سے جاتا ہوگا؛ تاہم گمان تو کیا جا سکتا ہے کہ ان کے بنی گالہ والے گھر کے یوٹیلٹی بلز سرکار کے کھاتے سے جاتے ہوں گے۔ اب اس موقع پر یہ وضاحت نہایت ضروری ہے کہ خوش قسمتی سے اس فیک نیوز والے ترمیمی آرڈیننس میں گمان، خوش گمانی اور بدگمانی کے بارے میں سزا کا تعین نہیں کیا گیا‘ اس لئے میں صرف گمان کرنے پر ہی اکتفا کر رہا ہوں۔ خیر ان بجلی اور گیس کے بلوں کو چھوڑیں اور نمبیو کے تازہ ترین کاسٹ آف لیونگ یعنی روزمرہ کے اخراجات کے حوالے سے دنیا کے سب سے سستے ملک کے دعوے پر بات کرتے ہیں۔
قبلہ شوکت ترین نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر ہم کم علم اور نالائق لوگوں کو بتایا کہ پاکستان میں امریکہ کی نسبت مہنگائی بہت کم ہے‘ پاکستان میں رہنے کی لاگت امریکہ کی نسبت 71.52 فیصد کم ہے اور پاکستان میں رہائش کا کرایہ امریکہ کی نسبت 90.64 فیصد کم ہے۔ ہمارے پیارے وزیر خزانہ نے یہ نہیں بتایاکہ امریکہ اور پاکستان میں کم از کم تنخواہوں کے درمیان کیا نسبت ہے۔ عام آدمی کا ذکر بعد میں کریں گے‘ فی الحال پاکستان اور امریکہ میں امیر ترین تنخواہ لینے والے ایگزیکٹو کا موازنہ کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا شخص ایک بینک کا صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے۔ اس کی سالانہ تنخواہ اکیس کروڑ نوے لاکھ روپے ہے، یعنی ماہانہ تقریباً ایک کروڑ تراسی لاکھ روپے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کی ٹیسلا کمپنی کا سی ای او ایلون مسک سالانہ چھ اعشاریہ سات ارب ڈالر تنخواہ لیتا ہے‘ یعنی پچپن کروڑ تراسی لاکھ ڈالر ماہانہ، اس رقم کو روپوں میں تبدیل کریں تو بندے کا تراہ نکل جاتا ہے۔ یہ تنخواہ پاکستانی روپوں میں تازہ ترین ڈالر ریٹ کے مطابق اٹھانوے ارب روپے ماہانہ بنتی ہے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے کی امریکہ کے سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے سے نسبت اعشاریہ صفر ایک آٹھ فیصد بنتی ہے‘ یعنی امریکی سی ای او ہمارے پاکستانی سی ای او سے پانچ ہزار تین سو پچپن گنا زیادہ تنخواہ لیتا ہے اور ترین صاحب مقابلہ کر رہے ہیں مہنگائی اور سستے پن میں 71.52 فیصد کے فرق کا۔ یہ موازنہ تو امریکہ اور پاکستان کے امیر ترین تنخواہ داروں کا تھا‘ اب ذرا عام آدمی کا موازنہ کرکے دیکھ لیتے ہیں۔ پاکستان میں سرکاری طور پر کم از کم تنخواہ بیس ہزار روپے ماہانہ ہے جو پچیس ورکنگ دن کی بنیاد پر مبلغ آٹھ سو روپے یومیہ بنتی ہے جبکہ امریکہ میں کم از کم اجرت فی گھنٹہ پندرہ ڈالر ہے جو آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے حساب سے ایک سو بیس ڈالر یومیہ بنتی ہے‘ یعنی پاکستانی روپوں میں تقریباً بائیس ہزار روپے یومیہ۔ پاکستانی ورکر اور امریکی دیہاڑی دار کی آمدنی میں نسبت ایک اور ستائیس کی ہے۔ پاکستانی مزدور کی آمدنی امریکی مزدور کی آمدنی کا محض 3.7 فیصد ہے۔ اگر اسے الٹ کروں تو یوں سمجھیں کہ امریکہ میں عام آدمی کی آمدنی پاکستان کے عام آدمی کی آمدنی سے 2750 فیصد زائد ہے جبکہ دونوں کے روزمرہ کے اخراجات میں فرق محض 71.52 فیصد ہے۔ اب آپ خود بتائیں کہ نمبیو کے ڈیٹا کو کس کوڑے کے ڈرم میں پھینکا جائے؟

دنیا کے سب سے بڑے لاگت سے متعلقہ ڈیٹا بیس کے اخذکردہ نتائج کا دارومدار جن اعدادوشمار پر ہے اگر ان پرغور کیا جائے تو اس سارے ڈیٹابیس کی ثقاہت ہی صفر ہو جاتی ہے۔ اس ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان میں چار افراد پر مشتمل گھر کا خرچہ ایک لاکھ 71 ہزار 783 روپے ماہانہ (بغیر کرائے کے) ہے۔ اسی ڈیٹا بیس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک فرد کے ماہانہ اخراجات کا تخمینہ 51798 روپے ہے۔ اب اگر امریکہ اور پاکستان کی مہنگائی میں موازنے کیلئے نمبیو نے پاکستان میں فی کس ماہانہ اخراجات کو بنیاد بنایا ہے تو پھر یقینا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میں اوسطاً چارافراد پر مشتمل وہ خاندان‘ جس کی کل آمدنی بیس ہزار روپے ماہانہ ہے‘ کیسے گزارہ کرتا ہوگا؟ نمبیو کے ڈیٹابیس کی بنیاد پر پاکستان کو سستا ترین ملک قرار دینے والے وزیر خزانہ اگر اس سوال کا جواب دے دیں تو یہ عاجز ان کا احسان مند ہوگا۔ سوال تو اور بھی بہت ہیں مگر فی الحال اس ایک سوال کا جواب ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔