معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
سب یاد رکھا جائے گا
اگرچہ دکھ اور افسوس کا وقت ہے لیکن کیا کروں انسان ہوں‘ اس دکھ کی گھڑی میں بھی ایسی بات پڑھ لیتا ہوں کہ ہنسی نکل جاتی ہے۔
آج کل میرے سرائیکی وسیب کے نوجوان سیلاب سے ہونے والی تباہی اور پنجاب حکومت کی بے حسی پر فیس بک اور ٹوئٹر پر مزاحیہ قسم کی پوسٹیں لگا رہے ہیں۔ ان میں جو سب سے زیادہ مزاحیہ تھی‘ جس پر میری بھی ہنسی چھوٹ گئی وہ ہے کہ ” سب یاد رکھا جائے گا‘‘۔ ان دکھی نوجوانوں کا مطلب ہے کہ اس وقت مشکل وقت میں جس بے حسی کا مظاہرہ سرائیکی وسیب کے ساتھ روا رکھا گیا‘ یہاں کے لوگوں کو ڈوبنے دیا گیا‘ ان کا سب کچھ بہہ گیا اور اب ان کا والی وارث کوئی نہیں‘ وہ یہ سب کچھ یاد رکھیں گے۔ یہ سوچ ان نوجوانوں کے دکھ کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک ماہ پہلے عمران خان لیہ‘ مظفرگڑھ اورڈیرہ غازی خان کے علاقوں سے ضمنی الیکشن جیتے‘ جس کی بنیاد پر پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے‘ مگر ان علاقوں میں سیلاب سے تباہی مچی تو پنجاب حکومت کہیں نظر نہیں آئی‘ نہ عمران خان کو سرائیکی علاقے یاد رہے جہاں ایک ماہ پہلے تک وہ روزانہ ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر آ جاتے تھے‘ اب وہ یہاں آنے سے انکاری ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ روزانہ جلسے کرکے قوم کو عظیم بنانا ضروری ہے نہ کہ سیلاب میں برباد لوگوں کے پاس جاکر‘ ان کا حوصلہ بڑھانا یا ان کی بحالی کا کام۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک دفعہ یہ قوم عظیم بن گئی تو نہ یہاں سیلاب آئیں گے اور نہ ہی بربادی ہوگی۔
پرویز الٰہی کی بھی گجرات میں مصروفیات سمجھ میں آتی ہیں کیونکہ اگلے الیکشن میں انہوں نے وہاں سے خود کو اور اپنے بچوں کو جتوانا ہے۔ وہ دور گیا جب چوہدریوں کا گجرات میں ڈنکا بجتا تھا‘ اب وہ الیکشن نہیں جیت سکتے جب تک وہ عمران خان کے کندھوں پر سوار نہ ہوں۔ 2018ء میں بھی عمران خان کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو سیٹیں نہ نکال پاتے۔ اب اگلے الیکشن کے لیے بھی وہ عمران خان کے محتاج ہیں۔ یوں چوہدریوں کی ساری سیاست اب عمران خان کی مرہونِ منت ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کو گجرات بلوا کر جلسہ رکھوا دیا جہاں سے وڈیوز سامنے آرہی ہیں کہ حلوہ پوری پک رہی ہے‘ پکوان تیار ہورہے ہیں‘ کھابے کھائے جارہے ہیں اور لگتا ہے ایک جشن ہے‘ میلے کا سماں ہے۔ کہیں سے پتہ نہیں چلتا کہ سینکڑوں لوگ اس ملک میں سیلاب سے مرگئے‘ لوگوں کے بچے دریا بہا کر لے گیا‘ لوگ برباد ہوگئے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پرپڑے ہیں۔ یقینا یہ پکوان اور حلوہ پوری پکتے دیکھ کر ان کے دل پر چھریاں چلتی ہوں گی۔ جس وقت وزیراعلیٰ پنجاب کو عمران خان کے ساتھ اپنے ان ووٹرز کے پاس ہونا چاہیے تھا جن کے ووٹوں سے وہ وزیراعلیٰ بنے‘ وہ اس وقت گجرات میں جلسہ کرکے لوگوں کو حلوہ پوری کھلا رہے ہیں‘ لنگر کھل گئے ہیں‘ روٹی چل رہی ہے‘ ناچ گانا ہورہا ہے۔
اس تناظر میں سرائیکی علاقوں کے نوجوان یہ تحریک چلائے ہوئے ہیں کہ سب یاد رکھا جائے گا۔میرا خیال ہے یہ جذباتی باتیں ہیں‘ کچھ یاد نہیں رکھا جائے گا۔دوسری طرف جو خوفناک حالات ہیں ان کا نقشہ ایک ڈاکٹر صاحبہ نے کھینچا ہے جسے پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ لکھتی ہیں ”میں نے 2005ء والا زلزلہ بھی دیکھا اور 2010ء والاسیلاب بھی مگر حالیہ سیلاب نے تو مجھے واقعی دہلا دیا ہے۔ ساری دنیا میں ڈیزاسٹر آتے ہیں اور ان کی مینجمنٹ کا سسٹم ہوتا ہے۔میں نے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا ہوا ہے‘ پنجاب میں میڈیکل کی کسی ایڈمنسٹریٹو پوسٹ پر کوئی ایسا بندہ نہیں رہ سکتا جس نے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز نہ کیا ہو ۔میں حیران ہوں اس ملک میں پلاننگ نام کی کوئی چیز نہیں۔میں بہت پریشان ہوں کہ اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد بھی اربابِ اختیار کس قدر بے حس ہیں۔ہم نے بارہا بذریعہ روڈ سندھ میں سفر کئے ‘ ہم سندھ کے حالات پر روتے کہ کسی شہر کی سڑکیں سلامت نہیں ‘ انفرا سٹرکچر نہیں ‘میں اکثر کہتی تھی کہ نواب شاہ اور لاڑکانہ چھوٹے سے شہر ہیں ‘ دونوں میں سرکاری میڈیکل کالج ہیں ‘ پیپلز پارٹی چاہتی تو بہت کم خرچ میں ان دونوں شہروں کو ماڈل سٹی بنا دیتی ‘ مگر گڑھی خدا بخش کو جانے والی سڑک تک سلامت نہیں۔اب دیکھیں سیلاب نے کیا حال کر دیا ‘ ایک کروڑ سے زیادہ لوگ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں ‘ حکومتوں کو کوئی پروانہیں ۔ ابھی تک مزید سیلاب کا خطرہ موجود ہے ‘ پانی کی نکاسی ہو گی تو آبادکاری کا بھی سوچا جائے گا ‘رضا کار کہاں تک جائیں ؟ امداد حقداروں تک پہنچ نہیں رہی‘وڈیرے‘ سردار اور سرکاری نوکر اپنے گودام بھر رہے ہیں۔حکومتیں اپنی مستیوں میں ہیں۔ کتنا بہترین موقع تھا مریم اور بلاول کیلئے‘ سیلاب زدہ علاقوں میں جاکر بیٹھ جاتے اپنے کچھ ممبر اسمبلی کے ساتھ۔خود ڈونیشن کرتے ‘ لوگوں سے مانگتے اور موجود رہتے لوگوں کے ساتھ۔پنجاب حکومت اور خان صاحب نے تو نالائقی کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں ‘ ان جیسے بے حس… اس قابل ہی نہیں ہیں کہ ان پر اپنے الفاظ ضائع کئے جائیں ‘‘۔ آپ ان الفاظ سے اندازہ لگا لیں کہ حالات کس قدر خراب ہیں اور اس سے زیادہ بے حسی حکمرانوں کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو نعرہ لوگ آج لگا رہے ہیں اگر پہلے لگاتے تو کیا ہوتا؟آپ لوگوں کو عمران خان نے پہلے سو دنوں میں الگ صوبہ دینا تھا۔آپ نے ایک دن بھی بھول کر اس کا ذکر نہ کیا‘ خان بھی بھول گیا۔ اگر آپ خان کو نہ بھولنے دیتے‘ یاد رکھتے تو آج آپ کا صوبہ خود آپ کا خیال رکھتا اور آپ کو سنٹرل پنجاب کی طرف نہ دیکھنا پڑتا جہاں وزیر اعلیٰ صاحب کے ہاں گجرات میں حلوہ پوری پک رہی ہے‘ جب آپ لوگ سڑکوں پر بیٹھے امداد کے منتظر ہیں۔
خان صاحب نے اپنا ہر ایک وعدہ توڑا ۔کوئی ایک بات بھی نہ تھی جس پر وہ قائم رہے کیونکہ انہیں علم تھا کہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔ یہ کچھ یاد نہیں رکھتے‘ نہ ان میں صلاحیت ہوتی ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم اور وعدہ خلافیوں کو یاد کرکے کسی کو سبق سکھا سکیں۔ لیڈروں کو یہ بات سمجھ میں آ چکی ہے کہ عوام گھاس کھاتے ہیں‘ یہ ان کے چنگل سے نہیں نکل پائیں گے۔ سندھ کو ہی دیکھ لیں کہ پیپلز پارٹی وہاں بارہ سال سے لگاتار حکومت میں ہے۔ وہاں کے حالات دیکھ لیں۔ سندھی بھائی پورے پانچ سال زرداری صاحب کا شکوہ کرتے رہتے ہیں لیکن ووٹ والے دن وہ بھٹو کے نام پر اسی پارٹی کو ووٹ ڈال آتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی کو علم ہے کہ وہ کام کریں یا نہ کریں سندھی ووٹ بھٹو کا ہے تو وہ کیوں محنت کر کے ووٹ کمائیں‘ کام کریں۔ یہی کام ہمارے سرائیکی علاقوں میں ہوا۔ عمران خان کو علم ہے کہ اب عوام کے پاس پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ پیپلز پارٹی فارغ ہوچکی اورنواز لیگ کو ان علاقوں میں کم پذیرائی ملتی ہے اس لیے اسے جی ٹی روڈ کی پارٹی سمجھا جاتا ہے۔ آ جا کے عمران خان رہ جاتے ہیں لیکن خان صاحب نے سرائیکی علاقوں کو ترجیح نہیں دی۔ عثمان بزدار جیسے بندے کو وزیراعلیٰ بنا کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی گئی۔ اگر عمران خان یا پرویز الٰہی کو ووٹرز کے ردعمل کا خوف ہوتا تو دونوں اس وقت سرائیکی علاقوں میں پائے جاتے نہ کہ گجرات میں حلوہ پوری کھا رہے ہوتے‘ لہٰذا وہ نوجوان جو سرائیکیوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ نعرہ مار رہے ہیں کہ سب یاد رکھا جائے گا وہ تسلی رکھیں یہ سارے لوگ اسی تنخواہ اور پیکیج پر ووٹ ڈالتے رہیں گے اور کچھ یاد نہیں رکھا جائے گا۔
اگر سب یاد رکھتے تو اس حالت کو نہ پہنچتے جو اِن کی ہو چکی ہے۔