علامہ مغلوب، میں اور غالب!

علامہ غیاث الدین مغلوب دوسروں کے لئے علامہ ہو گا لیکن میرا تویارہے، ہم دونوں کے درمیان یاری غالب کی وجہ سے ہے۔ علامہ غالب سے اتنا مرعوب ہے کہ اس نے اپنا تخلص ’’مغلوب‘‘ رکھ لیا ہے، تخلص رکھنے کے بعد اب اس کا ارادہ شاعری کرنے کا بھی ہے۔ میں بھی غالب کا ’’پرلے درجے کا‘‘ مداح ہوں مگر شاعری کے صرف اس حصے کا جو مجھے سمجھ آتی ہے۔ غالب کے بہت سے شعر سمجھنے کیلئے میں غالب کے شاد حسین کو پڑھتا ہوں جو بہت مشقت کے بعد غالب کے ان اشعار کا مطلب بتاتے ہیں جنہیں کئی لوگ بے معنی کہتے ہیں۔ ان کی اس کاوش سے مجھے ان اشعار کی سمجھ تو آ جاتی ہے اور یہ بھی کہ اگر یہ شعر نہیں ہیں تو بھی مضمون آفرینی کی داد تو دینا بنتی ہے۔

میں علامہ سے بلاوجہ ہی چھیڑ خانی کرتا رہتا ہوں اور مزے کی بات یہ ہے کہ میرے اس ’’ماہر غالبیات‘‘ کو اندر کی بات سمجھ نہیں آتی۔ ایک دفعہ میں نے اسے کہا یار مجھ کو آج غالب کا ایک شعرسنا، دیکھتے ہیں یہ شعر بہت بے معنی لگتا ہے مگر مجھ کم فہم کو سمجھ نہیں آیا۔ مولانا کون سا شعر، میں نے اسے یہ شعر سنایا

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

کہ نا حق خون پروانے کا ہوگا

اگر ممکن ہو تو تم اس شعرکا مطلب سمجھا دو۔ یہ سن کر علامہ گہرے غور و غوض میں مبتلا ہو گیا۔ آدھے گھنٹے بعد اس نے گردن اوپر اٹھائی اور کہا ’’یار سیدھا سا شعر ہے۔ تمہیں غالب کا یہ شعر خواہ مخواہ مشکل لگتا ہے۔ غالب کہتا ہے کہ شہد کی مکھی کو باغ میں جانے نہ دینا، وہ وہاں پھولوں پر بیٹھے گی، جس سے چھتا بنے گا، چھتے میں سے شہد نکالا جائے گا اور چتھے کی موم سے موم بتی بنے گی، جب موم بتی جلائی جائے گی اس پر پروانے آئیں گے اور اس کا چکر لگاتے لگاتے موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ چنانچہ غالب کہتے ہیں کہ شہد کی مکھی کو باغ میں جانے نہ دوکہ اس کے نتیجےمیں ناحق پروانے کی جان جائے گی۔ میں نے ’’غالب‘‘ کے اس شعر کی ’’تشریح سن کر قہقہہ لگایا اور کہا اے میرے ماہر غالبیات دوست، یہ بے معنی شعر ہے اور غالب کا نہیں کسی نے یونہی جھک ماری ہے۔ اس پر علامہ بولا تم بہت غلط آدمی ہو، مجھے شک گزرا تھا کہ غالب شعر کہتا ہے ’’شمع معمہ ‘‘ حل نہیں کراتا‘‘

میں نے کہا علامہ یار یہ تو میں نے ایسے ہی مذاق کیا تھا، اب غالب کا ایک اصل شعر سنو، کیا کمال کا شعر ہے

جی تو کرتا ہے لگا دوں آگ کوہ طور کو

پر خیال آتا ہے موسیٰ بے وطن ہو جائے گا

علامہ نے یہ شعر سنا تو پھڑک اٹھا اور بولا یہ ہے اصلی غالب اور تم ہو کہ کہتے ہو کہ کسی بھی شعر کی اگر شرح لکھناپڑے تو یہ شعر نہیں ہوتا۔ اب بتائو ایسا شعر کسی اور نے کہا ہے۔ میں نے کہا نہیں، علامہ کہنے لگا تم ایسے جاہلوں کو مطلب بتانا پڑتا ہے ارے بے وقوف حضرت موسیٰؑ کوہ طور پرگئے تھے ناں؟ میں نے کہا ہاں، علامہ نے کہا انہوں نے اللہ سے دیدار کی خواہش کا اظہار کیا، مگر اللہ کی ایک تجلی سے کوہ طور جل گیا چنانچہ غالب غصے کے عالم میں کوہ طور کو آگ لگانے کی بات کرتا ہے مگر پھر اسے خیال آتا ہے کہ یہ تو موسیٰ کی دیدار گاہ ہے۔ میں نے آگ لگائی تو موسیٰؑ بے وطن ہو جائیں گے۔ میں نے یہ تشریح سنی تو علامہ کو مخاطب کیا ’’در فٹے منہ، یہ شعر بھی غالب کا نہیں ہے!‘‘

اب میں نے محسوس کیا کہ بات لمبی ہو رہی ہے۔ اس دن میں نے پہلی دفعہ علامہ کے سامنے غالب کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا غالب کے بڑا شاعر ہونے میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کی عظمت کے گواہ بھول بھلیوں والے شعر نہیں، یہ شعر ہیں!

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

…….

درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلائوں

انگلیاں فگار اپنی خامہ خوں چکاں اپنا

……..

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

……..

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

……..

کعبے کس منہ سے جائو گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

……..

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

……..

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

……..

بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پر وپیج و خم کا پیچ و خم نکلے

……..

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پہ رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

……..

عشق نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

……..

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

……..

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا تو میں کیا ہوتا

……..

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں

……..