قلعوں کا شوقین مسافر … (1)

بعض اوقات بندے کو اپنے شوق اور دلچسپی کی کوئی خاص وجہ سمجھ نہیں آتی۔ مجھے بھی بالکل سمجھ نہیں آتی کہ مجھے پرانے قلعوں سے کیا دلچسپی ہے۔ جہاں کہیں کوئی قلعہ دکھائی دیا اندر جانے کی پڑ گئی۔ ہمارے ہاں کے بعض قلعے بہت شاندار اور اچھی حالت میں ہیں لیکن بیشتر قلعوں کا حال خراب ہے۔ خستگی اور عدم توجہی نے بہت سے قلعے برباد کر دیے ہیں اور بقیہ جو بچے ہیں ان میں سے گنتی کے چند ایک کے علاوہ باقی اسی بربادی کی طرف گامزن ہیں جو پہلے قلعوں کا مقدر بن چکی ہے۔
صحرائے چولستان میں جابجا بنے ہوئے قلعوں میں سے صرف دراوڑ کا قلعہ اپنی زندگی کے آخری دن پورے کر رہا ہے وگرنہ دیگر قلعے جیسے موج گڑھ‘ اسلام گڑھ‘ میر گڑھ‘ مروٹ‘ خیر گڑھ اور نواں کوٹ وغیرہ میں سے بعض کے صرف آثار باقی رہ گئے اور چند قلعوں کی دیواروں اور مرکزی دروازوں کے علاوہ باقی کچھ نہیں بچا۔ دریائے نیلم کے کنارے مظفر آباد شہر کے ایک سرے پر بنا ہوا لال قلعہ اپنی ساری شان و شوکت کھو چکا ہے۔ اسی طرح جی ٹی روڈ کے ساتھ متصل روات قلعے کا صرف بیرونی کالے پتھروں والا دروازہ سلامت تھا اور دیوار کا کچھ ٹوٹا ہوا حصہ‘ باقی قلعہ ختم ہو چکا تھا۔ عرصہ ہوا اس قلعے میں جانا نہیں ہوا۔ موٹروے بننے سے قبل کبھی کبھار ادھر گاڑی روک لیتا تھا اور دکانوں کے بیچ میں سے گزر کر اس قلعے میں چلا جایا کرتا تھا۔ اس کا سیاہ سنگی دروازہ اس قلعے کے ماضی کی کہانی سناتا تھا۔ قلعے کے اندر ایک خستہ حال مسجد تھی اور سلطان سارنگ خان گکھڑ کا مقبرہ۔ میں جب بھی اس قلعے میں گیا سارنگ خان کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ وفاداری میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز اس سردار کی قبر پر فاتحہ پڑھتے ہوئے دل نے ہر بار تصور میں جھک کر اس کو سلام پیش کیا۔
کلر سیداں کے نزدیک سنگنی فورٹ نسبتاً اچھی حالت میں ہے تاہم منگلا جھیل کے قریب دریائے جہلم کے کنارے گکھڑ سردار توغلو خان کا بنایا ہوا قلعہ رامکوٹ اجڑ چکا ہے اور وہاں تک پہنچنا بھی ایک باقاعدہ مہم جوئی کے مترادف ہے۔ اسی طرح دینہ سے چند میل کے فاصلے پر روہتاس قلعہ تمام تر لاپرواہی‘ چشم پوشی اور حتیٰ الامکان حد تک بربادی کی کوششوں کے باوجود اگر ابھی تک موجود ہے تو اس کی واحد وجہ اس کی مضبوطی‘ وسعت اور پتھروں کا کمال ہے۔ شیر شاہ سوری کا تعمیر کردہ یہ قلعہ اس خطے کا سب سے نمایاں‘ شاندار اور ہیبت ناک قلعہ ہے۔ یہ واحد قلعہ ہے جو اپنی سنگی تعمیر کے تناظر میں یورپی قلعوں کی کسی حد تک ہمسری کر سکتا ہے وگرنہ ہمارے ہاں تو اینٹوں کے یا کچھ مٹی سے تعمیر کردہ قلعوں کا رواج تھا اور اپنی اسی تعمیری خرابی کے باعث بہت سے قلعے صفحۂ ہستی سے ہی مٹ گئے یا اب محض ان کی جگہ مٹی کے ٹیلے رہ گئے ہیں۔ قصبہ گجرات (مظفرگڑھ) کے پاس محمود خان کا کچا قلعہ‘ شاہ جمال (مظفر گڑھ) کے پاس موجود کچا قلعہ اور اسی قسم کے دیگر قلعے مٹی کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ تلمبہ کے قلعے کی دیواریں باقی رہ گئی ہیں۔ ملتان کا قدیمی قلعہ اب صرف بزرگانِ دین کے مزارات کے مجموعے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نہ فصیل بچی اور نہ ہی اس کا دمدمہ باقی بچا۔ اب دمدمے کے نام پر جو ایک چوکور سی عمارت کھڑی ہے وہ دمدمے کے نام پر تہمت ہے جسے بنانے والے کو نہ ہی تاریخی عمارات کے طرزِ تعمیر کا شعور تھا اور نہ ہی کوئی جمالیاتی ذوق تھا کہ پہلے سے موجود قدیمی دمدمے کو اس کی اصل حالت میں تعمیرِ نو کر دیتا۔
سندھ میں کوٹ ڈیجی اور رانی کوٹ کا قلعہ جس کی وسعت اتنی ہے کہ اس کی دیوار کو چھوٹی دیوارِ چین سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ دونوں کی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ ایک لے دے کر لاہور کا قلعہ ہے جو شاندار حالت میں ہے تاہم اس قلعے کو اندر سے دیکھتے ہوئے ایک احساس ضرور ہوتا کہ مغلوں کی رہائش کی صورت حال کچھ خاص اچھی نہیں تھی۔ کمروں کا سائز اتنا چھوٹا اور دروازوں کی عدم موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہی رہائش گاہ خاصی بے پردہ ہونے کے ساتھ ساتھ غیر محفوظ بھی تھی کہ حفاظت کے لیے دروازے پر کھڑے ہوئے دربان کے علاوہ بادشاہ سلامت اور کسی حملہ آور کے درمیان کوئی حفاظتی حصار نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں کے قلعوں کے برعکس یورپ کے قلعے زیادہ مضبوط‘ پرشکوہ‘ دبدبے والے اور شاندار ہیں۔
قلعے کے عام تصور کی مانند یورپ اور برطانیہ میں بھی قلعے اونچی جگہ پر کسی پہاڑی پر یا چٹان پر بنے ہوئے ہیں۔ تاہم پتھروں کی باآسانی دستیابی کے باعث بیشتر قلعے پتھروں سے بنے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے موسم کی تمام تر سختیوں کو باآسانی جھیلتے ہوئے یہ قلعے صدیوں سے اسی مضبوطی اور خوبصورتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چار پانچ سو سال پرانے قلعے بھی ایسے لگتے ہیں کہ گویا چند سال قبل ہی تعمیر کیے گئے ہوں گے۔ قلعوں کے اندر شاہی رہائش گاہیں ایسی شاندار اور پرآسائش کہ پتا چلتا ہے کہ کوئی حکمران ادھر رہائش پذیر تھا۔ مضبوط ایسے کہ دیکھ کر دل دھل جائے اور دیواریں ایسی بلند کہ محاورے مطابق اوپر دیکھیں تو ٹوپی گر جائے۔ اکثر قلعوں کے اندر چھوٹے چھوٹے عجائب گھر جن میں بے شمار تاریخی اشیا محفوظ کی گئی ہیں۔ سینکڑوں قلعے ایسے ہیں کہ جو خاندانی طور پر وراثتی جائیداد کے طور پر اگلی نسل کو ملتے آئے ہیں اور آج بھی اسی خاندان کی وراثتی جائیداد کی حیثیت سے ان کی ذاتی ملکیت ہیں۔
چند برس پیشتر میں سپین کے ساحلی شہر مالاگا (مالقہ) سے سوّیلی (اشبیلیہ) کے راستے قرطبہ جا رہا تھا تو راستے میں قرمونہ رکنے کا قصد کیا مگر سوّیلی میں ہی اتنی دیر لگ گئی کہ قرمونہ میں رکنے کے لیے وقت ہی نہ بچا۔ قرمونہ کا قلعہ وہ جگہ تھی جہاں نو عمر عبدالرحمن اول کو گھیرنے اور مارنے کے لیے بغداد کے عباسی خلیفہ نے فوج بھیجی تھی۔ عباسی فوج کی شکست نے عبدالرحمن کے لیے سپین میں فتح کے دروازے کھول دیے۔ دراصل سوّیلی (اشبیلیہ) میں دیکھنے کے لیے اتنا کچھ تھا کہ وقت تنگ پڑ گیا۔ رات جب ہم قرطبہ سے کچھ دور تھے سڑک کی ایک طرف اوپر پہاڑ ی کی چوٹی پر ایک چھوٹا سا قلعہ دکھائی دیا۔ دل کیا کہ اس قلعے کو دیکھوں مگر اس وقت قلعہ بند ہو چکا تھا۔ اگر اس وقت چاند نہ نکلا ہوتا تو شاید ہمیں یہ قلعہ دکھائی بھی نہ دیتا۔ دن سارا تو مسجد قرطبہ کی سیر کرتے اور قرطبہ کی گلیوں میں گھومتے گزر گیا۔ اس سے پہلے بھی دو بار قرطبہ آیا مگر اتنی بھاگ دوڑ میں کہ سوائے مسجد دیکھنے اور شہر کی پرانی گلیوں میں گھومنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکا۔ اس بار قرطبہ سے باہر کئی میل کی دوری پر واقع ”مدینۃ الزہرہ‘‘ کے بدقسمت شہر کے کھنڈر دیکھنے چلا گیا۔ یہ ایسا بدقسمت شہر تھا پوری طرح آباد ہونے سے پہلے ہی برباد کر دیا گیا۔ سہ پہر کو مدینۃ الزہرہ سے فارغ ہو کر شہر واپس آئے اور پھر اسی چھوٹے سے قلعے کی طرف چل نکلے۔
معلوم ہوا کہ یہ مسلمانوں کے دور کا بنا ہوا قدیم قلعہ ہے۔ پہاڑی کی چوٹی پر پتھروں سے بنا ہوا یہ قلعہ بہت ہی اچھی حالت میں تھا اور اب کسی کی ذاتی ملکیت تھا۔ جب وہاں پہنچے تو دو خواتین قلعے کا دروازہ بند کر کے تالا لگا رہی تھیں۔ کہنے لگیں کافی دیر سے کوئی سیاح نہیں آ رہا تھا لہٰذا ہم نے آج قلعہ گھنٹہ پہلے بند کر دیا ہے۔ اس قلعے کو اندر سے دیکھنے کی حسرت ابھی دل میں موجود ہے۔ مسافر کے دل میں لگن اور پاؤں میں چلنے کی ہمت ہو تو دل کی حسرتیں مٹائی جا سکتی ہیں۔ (جاری )