معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
ایک نامعقول سوال
جھوٹ کا ایسا بازار گرم ہے کہ اب ان باتوں پر حیرانی تو خیر کیا ہونی ہے پریشانی ہونا شروع ہو گئی ہے کہ ہمارے لیڈروں کی اخلاقی حالت کس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اب سچ اور جھوٹ کے درمیان نہ تو فرق محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی غلط بیانی کرتے ہوئے کوئی جھجک یا شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ جھوٹ اور غلط بیانیاں بھی ایسی کہ روز روشن سے بڑھ کر عیاں ہیں‘ لیکن لیڈروں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ان کی باتیں جھوٹ کے اس لیول سے کہیں اوپر جا چکی ہیں جہاں اس پر ملمع چڑھا کر تھوڑی بہت پردہ پوشی کی جا سکتی ہے۔ ایسا ایسا بیان کہ سننے والا حیران و پریشان ہو جائے‘ مگر کمال ہے بیان دینے والوں کا کہ انہیں لمبی لمبی چھوڑنے پر نہ کوئی شرمندگی ہے اور نہ ہی اس بات کا احساس کہ لوگ ان کے بیانات کے تناظر میں ان کے بارے میں کیا سوچیں گے۔
ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ویسے تو کورونا کے باعث پوری دنیا ہی اس مصیبت کا شکار ہوئی ہے اور ہر طرف بیروزگاری پھیلی ہے، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ کہیں مجبوری والی اور کہیں اپنی مرضی والی۔ یہ بات درست کہ یہ عالمی مسئلہ تھا اور پاکستان بھلا کون سا مریخ پر واقع تھا کہ اس کا شکار نہ ہوتا۔ سو یہاں بھی کورونا کے باعث بہت سے سیکٹرز میں رائٹ سائزنگ کے نام پر ڈائون سائزنگ ہوئی۔ کئی جگہوں پر یہ ڈائون سائزنگ مجبوراً کی گئی تاہم بہت سی جگہوں پر ایک اردو محاورے ‘اونگھتے کو ٹھیلتے کا سہارا‘ کے مطابق کورونا کی آڑ میں بندے فارغ کر دیئے گئے۔ ورک فرام ہوم کے نظریے نے افسروں کو دفتر کے بجائے گھر بٹھایا تو دفتروں کا سارا چھوٹا عملہ‘ جو صفائی، چوکیداری اور مہمانداری کے کام کرتا تھا‘ فارغ کر دیا گیا۔ الیکشن میں وعدہ تو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا تھا لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ۔ ناکام معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ کورونا نے اپنے دانت تیز کئے تو ان دونوں چیزوں نے مل کر بیروزگاری کو مزید بڑھاوا دے دیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں پچھلے تین سالوں میں لاکھوں افراد نوکریوں سے مکمل یا جزوی طور پر محروم ہوئے ہیں۔ کہاں ایک کروڑ نوکریاں دینی تھیں اور کہاں لاکھوں لوگ الٹا بیروزگار ہوگئے۔
حکومت نے ملکی معیشت کو اس کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بجائے اپنا سارا زور صرف یہ ثابت کرنے میں لگا دیا کہ گزشتہ حکمران چور اور بے ایمان تھے اور بچے کھچے زور سے لنگر خانے اور پناہ گاہیں بنا کر لوگوں کو باعزت روزگار کی سہولت فراہم کرنے کے بجائے نکھٹو اور مفت بری کے کلچر کو فروغ دینا شروع کردیا۔
معاف کیجیے! میں کسی اور طرف نکل گیا۔ بات جھوٹ اور غلط بیانی کی ہورہی تھی۔ اپنے وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب نے بیان داغ مارا کہ معاملہ کروڑ نوکریوں سے بھی کہیں اوپر جا چکا ہے اور ہم پاکستانیوں کو ایک کروڑ سے بھی زیادہ نوکریاں دے چکے ہیں۔ ثبوت کے طور پر انہوں نے کوئی باقاعدہ ڈیٹا تو فراہم نہ کیا؛ تاہم فرمایا کہ لاکھوں لوگوں کو بیرون ملک بھجوایا ہے اور محکمہ صحت میں چالیس ہزار نوکریاں دی ہیں۔ اگر تو یہ نوکریاں بغیر کسی اشتہار کے اندر خانے اندھوں میں ریوڑیوں کی طرح تقسیم کر دی گئی ہیں تو یہ عاجز کچھ کہنے سے قاصر ہے؛ تاہم ان چالیس ہزار نوکریوں کا اشتہار نہ صرف یہ کہ میں نے نہیں دیکھا بلکہ دو چار لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ ایک دوست بتانے لگے کہ بی وی ہسپتال بہاولپور کے شعبہ امراض دل کا یہ عالم ہے کہ وہاں چالیس میڈیکل آفیسرز کی اسامیوں پر محض دو لوگ کام کر رہے ہیں اور اڑتیس سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ جہاں دل کی بیماریوں سے متعلق شعبے میں مطلوبہ ڈاکٹروں کا محض پانچ فیصد کام کر رہا ہو وہاں چالیس ہزار لوگ بھرتی تو ہونے چاہئیں تھے مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ اگر بائیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں جہاں بیروزگار نوجوانوں کی شرح 2019 میں 7.81 فیصد تھی اگر ایک کروڑ نوکریاں پیدا ہوتیں تو بیروزگاری کی شرح صفر ہو چکی ہوتی مگر حالت یہ ہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2022 میں بیروزگار نوجوانوں کی شرح اکتیس فیصد ہو چکی ہے۔
ادھر عمران خاں صاحب فرماتے ہیں کہ ملک میں نہ صرف یہ کہ مہنگائی نہیں ہے بلکہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ ادھر عالم یہ ہے مہنگائی نے اچھے خاصے نیم خوشحال لوگوں کو کم از کم نیم بدحال تو ضرور کرکے رکھ دیا ہے۔ میں سنی سنائی نہیں بلکہ ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ رہا ہوں کہ گزشتہ تین سال میں میرے گھر کا خرچ کسی بھی اضافی شے کے بغیر دوگنا سے زیادہ ہو چکا ہے۔ اب بجلی کے فی یونٹ کی قیمت کا تو میں نہیں بتا سکتا کیونکہ سات عدد ٹیکسوں اور سابقہ مہینوں میں خرچ ہونے والی بجلی پر کئی ماہ بعد فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا ہتھوڑا مارنے کے بعد یہ قیمت ہر ماہ مختلف ہو جاتی ہے؛ تاہم میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اتنے ہی گھر کے افراد کے‘ اور بجلی سے چلنے والے آلات کے ساتھ میرے گھر میں استعمال شدہ بجلی کے یونٹس کی تعداد کا ماہ بہ ماہ جائزہ لیا جائے تو یہ گزشتہ تین سال میں محض انیس بیس کے فرق سے یکساں ہے‘ مگر میرے بل کی رقم دوگنی سے زائد ہو چکی ہے۔ اب ہر چیز کا ریٹ کیا لکھوں۔ صرف گھی کی مثال دوں تو 2018 میں دس لٹر کا جو کین 1800 روپے میں آتا تھا گزشتہ ہفتے خریدا تو اس کی قیمت 3900 روپے سے تھوڑی زیادہ تھی۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی شرح کیا ہے۔ خان صاحب یہ کہتے ہوئے کہ ملک میں مہنگائی نہیں ہوئی‘ شاید یہ بات بھول جاتے ہیں کہ لوگ زندہ رہنے کیلئے روزانہ بازار جاتے ہیں اور خان صاحب کی تقریر کے بجائے جیب سے نکلے والے پیسوں کی بنیاد پر قیمتوں میں ہونے والے اضافے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
گزشتہ دنوں تو حد ہی ہوگئی۔ خان صاحب نے فرمایا کہ ملک میں کرپشن اور رشوت ستانی کا تو انہوں نے پہلے نوے دن میں ہی خاتمہ کر دیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ ان کے بقول اس ملک میں ان کے اقتدار میں آنے سے قبل جو بارہ ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہوتی تھی وہ بند ہوگئی ہے۔ اس حساب سے باقی چیزوں کو نظر انداز کر کے صرف یہی حساب کرلیں کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں کتنے پیسے حکومت کو بچے ہیں‘ تو اٹھارہ ا گست 2018 کو ان کے حکومت سنبھالنے کے نوے دن بعد یعنی اٹھارہ نومبر 2018 سے لے کر بارہ فروری 2022 تک کل ایک ہزار ایک سو اسی دن گزر چکے ہیں۔ اس دوران خان صاحب کے کرپشن ختم کرنے کے طفیل بارہ ارب روپے روزانہ کے حساب سے بچائی جانے والی چودہ ہزار ایک سو ساٹھ ارب روپے والی رقم کہاں ہے؟ اگر انہوں نے اب تک ساڑھے تین سال میں چودہ ہزار ایک سو ساٹھ ارب روپے یعنی تقریباً اکیاسی ارب ڈالر بچا لئے ہیں تو محض ایک ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے اور ساری حکومتی معاشی ٹیم کو ناک رگڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ ممکن ہے میرا یہ سوال نامعقول ہو، مگر سوال تو سوال ہی ہوتا ہے خواہ نامعقول ہی کیوں نہ ہو!