ایون فیلڈ ریفرنس: ریفرنس تو بس تین 4 صفحوں کا ہی ہے: چیف جسٹس عامر فاروق

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت جاری ہے۔

سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف، اعظم نذیر تارڑ، مریم اورنگزیب، اسحاق ڈار اور احسن اقبال کمرۂ عدالت میں موجود ہیں۔

نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے شریک ملزمان مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو اپیل منظور کر کے بری کیا گیا، شریک ملزمان پر اعانت جرم کا الزام تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ سے شریک ملزمان کی بریت کا فیصلہ حتمی صورت اختیار کر چکا ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے نیب آرڈیننس کے مختلف سیکشنز پڑھ کر بتایا کہ نیب آرڈیننس میں بے نامی دار کی تعریف کی گئی ہے۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میرے خیال میں سزا معطلی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی، سزا معطلی کے فیصلے میں ہم نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا سہارا لیا تھا، سزا معطلی کے فیصلے سے تاثر ملتا تھا کہ جیسے اپیل منظور کر لی گئی، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں مزید وضاحت کی ہے اس پر ہماری معاونت کریں۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ظاہر کردہ آمدن کے ساتھ یہ بتانا تھا کہ اثاثے بناتے وقت اس کی قیمت کیا تھی؟ نیب کو آمدن اور اثاثوں کی مالیت سے متعلق تقابل پیش کرنا تھا، اس کے بعد یہ بات سامنے آنی تھی کہ اثاثوں کی مالیت آمدن سے زائد ہے یا نہیں، اس تقابلی جائزے کے بغیر تو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جرم ہی نہیں بنتا، ایسے کیسز تھے جن میں اثاثوں کی مالیت کا علم تھا مگر آمدن کا نہیں، ایسے کیسز میں عدالت نے قرار دیا کہ آمدن معلوم نہ ہونے کے باعث کیس نہیں بنتا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ یہ پراپرٹیز مختلف اوقات میں ایکوائر کی گئیں۔

وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ میں ان کی ڈیٹس آپ کو بتا دیتا ہوں، 1993ء سے 1996ء کے دوران یہ پراپرٹیز بنائی گئیں، ان پراپرٹیز سے متعلق اپیل کنندہ کا کوئی تعلق نہیں، پراسیکیوشن نے ریفرنس میں نہیں بتایا کہ ان پراپرٹیز سے کیا تعلق ہے۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ پراسیکیوشن نے سب سے پہلے کیا ثابت کرنا ہوتا ہے؟

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ پراسیکیوشن نے سب سے پہلے ملزم کو پبلک آفس ہولڈر ثابت کرنا ہوتا ہے، اُس کے بعد پراسیکیوشن نے زیرِ کفالت اور بےنامی داروں کو ثابت کرنا ہوتا ہے، نیب میاں نواز شریف پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک بھی ثابت نہیں کر سکا، پاناما فیصلہ، جے آئی ٹی اور نیب تحقیقاتی رپورٹ سے نواز شریف کا پراپرٹی سے تعلق ثابت نہیں ہوا، ریفرنس میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت ہو، واجد ضیاء نے خود تسلیم کیا کہ نواز شریف کا پراپرٹیز سے تعلق ثابت کرنے کے شواہد نہیں، فردِ جرم میں یہ بات بتائی جاتی ہے کہ آپ کے اثاثے ظاہر کردہ آمدن کے مطابق نہیں، نیب انویسٹی گیشن، جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ کے فیصلے میں پراپرٹیز کی مالیت کا تعین نہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس تو بس تین 4 صفحوں کا ہی ہے۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ نواز شریف کی ان پراپرٹیز سے تعلق جوڑنے کے لیے کوئی شہادت موجود نہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر وکیل امجد پرویز نے پانامہ ریفرنسز سے متعلق ترتیب وار مراحل کی فہرست عدالت میں جمع کرائی تھی اور دلائل دیے تھے۔

نواز شریف کی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، کمرۂ عدالت میں داخلہ رجسٹرار آفس کی جانب سے جاری خصوصی پاسز سے مشروط کیا گیا ہے۔