مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
اسٹیبلشمنٹ سے بہتر رابطہ کاری کیلئے بیرسٹر گوہر کو آگے لایا گیا
عمران خان کی جانب سے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے دھیمے مزاج کے حامل بیرسٹر گوہر خان کا پی ٹی آئی چیئرمین کا انتخاب پاکستان کی سیاسی دنیا اور میڈیا کیلئے چونکا دینے والا واقعہ ہے۔
سیاسی منظر نامے میں تیزی سے بدلتے واقعات کے ایک غیر متوقع موڑ پر عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا اور بیرسٹر علی گوہر خان کو چیئرمین کے عہدے کیلئے اپنا امیدوار نامزد کر دیا۔
یہ وہ کردار ہے جس پر عمران خان 26 سال سے تاحیات چیئرمین کا ٹائیٹل سینے پر سجائے قابض ہیں، اس اعلان سے سیاسی منظر نامے میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا پارٹی کے اندر سیاسی اختلافات اور الجھنوں کے بڑھتے دباؤ کا مقابلہ کرنے اور قیادت میں مبینہ غیر معمولی تقسیم روکنے کیلئے بادل ناخواستہ کیئر ٹیکر چیئرمین لانا پڑا، کیونکہ 9 مئی کے واقعات نے پی ٹی آئی کو پے در پے مشکلات اور الجھنوں کا شکار کر دیا تھا۔
عمران خان جو اس وقت جیل میں ہیں اپنا بیشتر وقت قانونی تنازعات سے خوش اسلوبی سے نمٹنے کی سوچ میں گزارتے ہیں، چیئرمین کے عہدے سے دستبرداری ایک مشکل اور بڑا فیصلہ تھا، سیاسی پنڈت اس امر پر حیران ہیں کہ عمران خان نے ایک ایسے شخص کو کیونکر پارٹی میں آگے بڑھایا جس نے 2022 میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی حالانکہ پارٹی میں عمران خان کے وکلا سمیت بہت سے قابل اعتماد لوگ موجود تھے۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کو بند گلی سے نکالنے اور اسٹیبلشمنٹ سے بہتر رابطہ کاری کیلئے راستہ بنانے کی غرض سے بیرسٹر گوہر کو آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا وہ ماضی میں پیپلز پارٹی کی طرف سے 2008 کے الیکشن میں امیدوار تھے اور الیکشن ہار گئے تھے۔
پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن نے کہا ہے کہ ہم ایسا نہیں سوچتے پارٹی میں ہاٹ کور اور سوفٹ فیس کا کوئی نظریہ نہیں ہے، سیاسی ماہرین سوال کررہے ہیں کیا عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے سامنے ہار مان لی ہے اور کیا بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے؟
پی ٹی آئی کے دستور ( ترمیم شدہ 2022) کے مطابق جس کی کاپی الیکشن کمیشن کے پولٹیکل فنانس ونگ کو بھی بھیجی گئی تھی ، پارٹی چیئرمین کو سیاسی اور انتظامی طور پر سب اختیارات دیئے گئے ،جس میں پارٹی کے دیگر عہدیداروں پر نامزدگی پارٹی کیلئے سیاسی اور نظریاتی گائیڈ لائن، ہدایات اور احکامات جاری کر سکتا ہے۔
اسکے ساتھ چیئرمین پی ٹی آئی کو ایک اہم دستوری اختیار حاصل ہے کہ وہ مشکل حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی بھی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں، پی ٹی آئی کے قانونی ذرائع کا ماننا ہے کہ بیرسٹر گوہر کی نگران چیئرمین کی حیثیت سے تقرری محولہ دستوری اختیار کے تحت کی گئی۔
پی ٹی آئی کے بڑے قانونی مشیر سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کہتے ہیں کہ پارٹی دستور میں کیئر ٹیکر چیئرمین کا کوئی ذکر نہیں تاہم پارٹی دستور میں چیئرمین کو اختیار دیا گیا کہ وہ مشکل حالات میں مناسب فیصلے کر سکتے ہیں، اسلئے حالات کے مطابق فیصلہ ہوا۔
ایک دلچسپ اور اہم پہلو پیش نظر رہنا چاہیے کہ پی ٹی آئی تشکیل 25 اپریل 1996 میں ہوئی تھی، اور عمران خان گزشتہ 26 سال سے پارٹی چیئرمین ہیں اور تاحیات چیئرمین رہیں گے، ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ عمران خان کے آنے تک بیرسٹر گوہر کیئر ٹیکر چیئرمین کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالیں گے۔
عمران خان کو جب الیکشن کمیشن کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے قانونی رائے مانگی کہ آیا وہ انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں اور اگر وہ حصہ لیتے ہیں تو مستقبل میں کیا رکاوٹیں درپیش ہو سکتی ہیں، عمران خان نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن کو کوئی بہانہ نہیں دینا چاہتا کہ وہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی سے بلے کا نشان لے لیں، یا پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ نہ لینے دیں۔
سینیٹر علی ظفر نے اعلان کیا تھا کہ عمران خان نے پارٹی چئرمین کے عہدے کے لیے بیرسٹر گوہر کا نام دیا، بیرسٹر گوہر علی خان عارضی طور پر عہدہ سنبھالیں گے۔ نگران چئیرمین کا مقصد مائنس ون نہیں۔
پی ٹی آئی کے قانونی مشیر سمجھتے ہیں کہ کیئر ٹیکر چیئرمین کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جو پارٹی دستور نے چیئرمین کو تفویض کئے ، تاہم یہ بات طے ہے کہ پارٹی دستور میں کیئر ٹیکر چیئرمین لانے کی گنجائش نہیں پارٹی آئین میں نگران عہدیدارکا کوئی ذکر نہیں، اس فیصلے سے پی ٹی آئی کے اندر عمران مخالف حلقے کو مایوسی ہوئی۔
تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کیئر ٹیکر چیئرمین لانے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہیں اور وہ اسے عدالتی فورم پر چیلنج کر سکتے ہیں، عمران مخالف گروپ کا نظریہ ہے کہ خان صاحب کو پارٹی قیادت سے دستبرداری کا فیصلہ بہت پہلے کر دینا چاہیے تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن نے نمائندہ جنگ سے بات چیت میں کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے آرڈر پر عمل کر رہے ہیں اور انٹرا پارٹی الیکشن کر ا رہے ہیں، انٹرا پارٹی الیکشن میں بیرسٹر علی گوہر چیئرمین کے امید وار ہوں گے۔
اس وقت تک کیلئے ایک عبوری انتظام کے تحت علی گوہر کو کیئر ٹیکر چیئرمین بنایا گیا، چیئرمین کے ساتھ دیگر عہدیدار بھی منتخب ہوں گے، الیکشن کمیشن کے حکم کو پی ٹی آئی غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے رہی ہے لیکن ایک بڑا تضاد یہ ہے کہ وہ خود اس غیر آئینی اور غیر قانونی حکم پر عمل کر رہی ہے۔
رؤف حسن نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کر لیا کہ پی ٹی آئی الیکشن ضرور لڑے گی اور ہم بلے کے نشان پر حصہ لیں گے ۔ عمران مخالف حلقے کیئر ٹیکر چیئرمین کی نامزدگی کو خان صاحب کا ایک نیا شفٹ قرار دیتے ہیں۔
ان حلقوں کا تاثر ہے کہ خان صاحب کے سخت گیر موقف کے منفی اثرات کو ختم کرنے کیلئے پارٹی کے اندر ایک سافٹ تبدیلی لائی گئی تاکہ اسٹیبلشمنٹ سے بہتر رابطہ کاری ہو سکے، پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نے اس پہلو پر گفتگو میں کہا کہ ہم ایسا نہیں سوچتے ، پارٹی میں ہارڈ کور اور سافٹ فیس ( Face) کا کوئی نظریہ نہیں، عمران خان پارٹی چیئرمین تھے اور تاحیات چیئرمین رہیں گے ، لیکن ہمیں الیکشن میں جانا ہے، جس کیلئے قانونی تقاضے پورے کر رہے ہیں۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو 5 اگست کو ماتحت عدالت سے 3 سال قید کی سزا ہوئی اس سزا پر انہیں گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا ، ہائی کورٹ نے یہ سزا معطل کر دی تھی تاہم الیکشن کمیشن انہیں پہلے ہی نا اہل قرار دے چکا ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
بیرسٹر علی ظفر کے مطابق توشہ خانہ کیس میں سزا نا اہلی نہیں کیونکہ آئین میں اخلاقی جرائم کی سزا پر نا اہلی ہے اور اثاثوں کے گوشواروں میں تفصیلات ظاہر نہ کرنے پر نا اہلی نہیں، بہر حال یہ معاملہ عدالت طے کر ے گی۔
الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ عمران خان سزا یافتہ ملزم ہیں اور الیکشن نہیں لڑ سکتے اور جب تک اپیل کا فیصلہ نہیں ہوتا سزا برقرار رہے گی۔ اسلام آباد میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی تبدیلی ایک سمارٹ موو ہے جس کا تعلق الیکشن سے ہے اور الیکشن میں پی ٹی آئی کیلئے راستہ بنانا مقصود ہے۔
پی ٹی آئی میں پھیلی مایوسی اور شکست خوردگی کا مظہر بھی ہے اور اسے پی ٹی آئی کی جانب سے بند گلی سے باہر آنے کی کوشش سمجھنا چاہیے، اس میں دو آرا نہیں کہ بیرسٹر علی گوہر ،پارٹی کے ہارڈ لائنز شعیب شاہین اور شیر افضل مروت کے مقابلے میں سافٹ چہرہ رکھتے ہیں ۔