بیگار کیمپ کی نوکری

کچھ دن پہلے لاہور جانا ہوا۔
میں کسی بھی شہر جاؤں‘ وہاں پرانی یا نئی کتابوں کی دکان پر ضرور جاتا ہوں۔ اکثر نایاب کتابیں پرانی کتابوں کی دکانوں سے سستے داموں مل جاتی ہیں۔ ہمارے دانشوروں نے اپنے بیانات میں ”سستی نایاب کتابوں‘‘ کا اتنا ذکر کر دیا ہے کہ اب پرانی کتابوں کے دکاندار بھی سمجھدار ہوگئے ہیں۔ اب انہیں بھی پتا ہے کہ کون سی کتاب نایاب ہے اور اس کی وہ منہ مانگی قیمت لے سکتے ہیں‘لہٰذا اب نایاب یا پرانی کتب اتنی سستی نہیں رہیں جتنی کسی دور میں ہوتی تھیں۔
پرانی کتابوں کی دکانوں پر یقینی طور پر شوقین لوگ ہی جاتے ہیں‘ جہاں دکاندار گاہک میں پوری طرح دلچسپی لے کر اسے کئی پرانی کتابیں دکھاتا ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ یہ بندہ دنیا بھر کی دکانیں چھوڑ کر اگر اس کی چھوٹی سی دکان میں گھٹنوں پرانی کتابیں تلاش کرنے میں صرف کر رہا ہے تو یہ خاص بندہ ہے۔ لہٰذا وہ کوشش کرتا ہے کہ نایاب سے نایاب کتب نکالے اور اس پر تبصرہ بھی پیش کرے۔ میں نے اکثر پرانی کتابوں کے دکانداروں کو سمجھدار پایا ہے۔
خیر ڈی ایچ اے لاہور میں کتابوں کی ایک بڑی دکان کھلی ہے۔ میں نے اس کی تعریف دوستوں سے سن رکھی تھی۔ سوچا سب کام چھوڑ کر وہاں کا چکر لگایا جائے۔ بلاشبہ بہت بہترین بک سٹور بنایا گیا ہے اور بڑی شاندار کتب وہاں دستیاب ہیں۔ میں نے درجن بھر کتابیں لیں۔ کاؤنٹر پر ادائیگی کرنے لگا تو میں نے محسوس کیا وہاں جس نوجوان نے بل بنانا تھا وہ انسان سے زیادہ مشین تھا۔ میں نے ایک دو باتیں پوچھیں تو یوں لگا جیسے کسی روبوٹ سے بات کررہا ہوں۔ شکل پر دنیا بھر کی بیزاری اور اکتاہٹ طاری تھی۔ میں اسے چند لمحے دیکھتا رہا۔ مجھے لگا کہ وہ یہ کام اس لیے کررہا ہے کہ اسے وہ نوکری نہیں ملی جو اسے پسند ہوگی لیکن گھر چلانے کے لیے یہ ایک ایسی جاب کررہا ہے جو اسے پسند نہیں۔ اس کے نزدیک ان گاہکوں کی کوئی اہمیت نہیں جو اس سے ہزاروں روپے کی کتب خرید رہے ہیں۔
یاد آیا‘ 2006ء میں لندن پڑھنے گیا تو کالج نے مجھے بھی سٹوڈنٹ کارڈ بنا کر دیا۔ ایک روز میں مشرقی لندن کے علاقے ایلفرڈ مال ایکسچینج گیا جہاں کتابوں کی ایک دکان واٹر سٹون تھی۔ میں دکان کے اندر داخل ہوا اور کافی دیر تک کتابیں دیکھتا رہا۔ کسی بھی دکان میں جاؤں تو میرا پہلا انتخاب فکشن ہوتا ہے پھر میں تاریخ‘ فلاسفی یا سیاست پر کتب ڈھونڈتا ہوں۔ اگر مجھے کہا جائے کہ کسی کتابوں کی دکان سے آپ صرف ایک کتاب خرید سکتے ہیں تو میں اپنے کسی پسندیدہ فکشن رائٹر کا ناول اٹھاؤں گا۔خیر میں نے فرانسیسی ادیب ڈوما کا عظیم ناول The Count of Monte Cristo اٹھایا اور کاؤنٹر کی طرف ادائیگی کے لیے چل پڑا۔ کاؤنٹر پر ایک ادھیڑ عمر گوری کھڑی تھی۔ اس نے مجھے ناول اٹھائے دیکھا تو مسکرا کر ہیلو کہا۔ میرے ہاتھ سے ناول لیا اور پہلا سوال پوچھا: آپ اگر سٹوڈنٹ ہیں تو میں آپ کو دس فیصد ڈسکاؤنٹ دے سکتی ہوں۔ میں نے کہا: جی میں ہوں۔ اس نے مجھ سے میرا کارڈ نہیں مانگا۔ اس کے لیے میرا خود کو سٹوڈنٹ کہنا ہی کافی تھا۔ جب اس کی نظر ناول پر پڑی تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ مزید پھیل گئی۔ مجھے کہنے لگی کہ آپ کو پتا ہے‘ یہ ناول مجھے بہت پسند ہے۔ میں نے بہت پہلے پڑھا تھا۔ اُس وقت کاؤنٹر خالی تھا‘ لہٰذا مجھے بتانے لگی اس ناول میں کون سے کردار اہم تھے اور دو دوستوں کے درمیان دشمنی کے کیا بھیانک نتائج نکلے۔ مجھے کہنے لگی کہ کاش میں آپ کو زیادہ ڈسکاؤنٹ دے سکتی کہ یہ میرا فیورٹ ناول ہے اور ڈوما نے کیا شاندار انداز میں فرانس کی تاریخ اور اس دور کی اشرافیہ کو اس میں سمو دیا ہے۔ اس نے ناول بیگ میں ڈال کر دیا اور پھر مسکرا کر کہا تھینک یو! انجوائے اِٹ۔ کم اگین۔
اب لاہورکی اس دکان میں کھڑے ہوکر برسوں بعد مجھے وہ ادھیڑ عمر گوری یاد آئی۔ اس نوجوان کے چہرے پر دنیا بھر کی اکتاہٹ اکٹھی ہو گئی تھی۔ میں نے ڈسکاؤنٹ کا پوچھا ہی تھا کہ مجھے اندازہ ہوا میں غلط سوال کر بیٹھا ہوں۔ ایک لمحے کے لیے سوچا اس دکان کے مالک نے اتنی خوبصورت دکان بنائی اور اس میں اتنی شاندار کتابوں کا سٹاک جمع کیا ہوا ہے کہ گاہک دکان سے خالی ہاتھ واپس نہیں جا سکتا‘ اس نے جب یہ نوجوان یہاں کام کرنے کے لیے رکھے ہوں گے‘ ان سے کیا انٹرویو کیا ہوگا؟ کیا ان کی کتب بینی بارے سوالات کیے ہوں گے؟ ان سے پوچھا ہوگا کہ انہیں کتابوں سے کتنی رغبت ہے؟ یہ کہ کتابوں کے درمیان رہ کر انہیں کیسا لگتا ہے؟ کیا یہ کام انہیں پسند ہے جو وہ کرنے جا رہے ہیں؟ یا پھر اس نے بس یہی سوچا کہ ٹھیک ہے ہم نے کون سا ان سے کتابیں لکھوانی یا ترجمے کرانے ہیں۔ یہی کافی ہے کہ پندرہ بیس ہزار تنخواہ پر یہ بارہ گھنٹے کام کر لیں گے۔ ان لڑکوں نے بھی یہی سوچ کر نوکری قبول کی ہوگی کہ ہمیں کتابوں سے کیا لینا دینا۔ ہم نے صرف کتابیں گننی ہیں یا ان کا بل وصول کرنا ہے۔ یہ کون سا مشکل کام ہے۔
چلیں‘ لڑکے آپ نے رکھ لیے تو کیا ان کی تربیت نہیں کی جا سکتی تھی کہ جب آپ کتابوں کی دکان پر کام کرتے ہیں تو آپ کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ آپ نے گاہک کو سمائل پاس کرنی ہے‘ اس کے ساتھ کتاب پر دو تین کمنٹس بھی کر سکتے ہیں تاکہ خریدنے والے کو یہ لگے کہ اس کتب خانے کا اثر یہاں کے سٹاف پر بھی ہوا ہے۔ دوسرا‘ مالکان نے کبھی یہ بھی سوچا کہ کاؤنٹر پر کھڑے اس لڑکے کو یہ پاورز دینے میں کیا حرج ہے کہ وہ کسی گاہک کو کچھ ڈسکاؤنٹ بھی دے سکے جس سے اسے یہ احساس ہو کہ وہ بھی اس دکان کا مالک ہے۔ وہ بھی چاہے تو اپنی مرضی سے کسی کو رعایت دے سکتا ہے۔ اگر مالک نے یہ طے کیا ہو کہ صرف وہی ڈسکاؤنٹ دے سکتا ہے تو سٹاف کو ڈسکاؤنٹ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ پھر ایک روبوٹ بن کر سارا دن مشینی انداز میں کام کرتا ہے اور دکان بند ہونے کا انتظار۔
یہ بات صرف کتابوں کی دکانوں پر ہی لاگو نہیں ہوتی‘ دیگر دکانوں پر کام کرنے والوں کی اکثریت کا بھی یہی رویہ ہوتا ہے کیونکہ ان جگہوں پر وہ لوگ کام کررہے ہیں جنہیں بس کوئی نوکری کرنی تھی‘گھر چلانا ہے۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ وہ کام اچھا ہے یا برا ‘یا انہیں کیسا لگتا ہے۔ وہ یہ عیاشی افورڈ ہی نہیں کر سکتے کہ وہ مرضی کا کام تلاش کریں اور پیسے کمانے کے ساتھ ساتھ زندگی بھی انجوائے کریں لیکن کچھ سیلز مین ایسے بھی آپ کو مل جاتے ہیں کہ آپ دکان کے اندر ایک چیز لینے جاتے ہیں اور وہ آپ کو دس چیزیں خریدنے پر قائل کرلیتے ہیں۔ جس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں اس کام سے محبت ہوتی ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں میں‘ جہاں آبادی اور بیروزگاری زیادہ ہو‘ وہاں یہ چوائس کہاں ملتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کے چہروں پر خوشی نظر نہیں آتی۔ سارا دن وہ خود پر جبر کرکے کام کرتے ہیں اور اپنا بلڈ پریشر اور شوگر ہائی کرتے رہتے ہیں نتیجتاً اُن کے چہروں سے خوشی غائب ہوگئی ہے اور اس کی جگہ فرسٹریشن نے لے لی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو عجیب لگے لیکن ان تمام باتوں کا تعلق اس بات سے ہے کہ جو نوکری یا کام آپ آٹھ دس گھنٹے کرتے ہیں وہ آپ کو پسند ہے یا نہیں؟ اگر پسند ہے تو سمجھ لیں آپ نے کائنات پالی۔ پسند کا کام نہیں ملا تو سمجھیں آپ عذاب بھگت رہے ہیں۔کاؤنٹر پر وہ نوجوان ابھی تک مشینی انداز میں کھڑا تھا۔ اس نوجوان پر مجھے ترس آیا اور میں کتابیں لے کر دکان سے باہر نکل گیا۔