آئین اور قانون سے ماورا

ریاستیں آئین و قانون کی بالادستی سے چلتی اور قائم رہتی ہیں۔ یہی آئین و قانون معاشرے کو شتر بے مہار ہونے سے روکتے ہیں اور ایک قاعدے ضابطے کا معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ آئین پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل کرنا فرد سے لے کر جماعت تک اور عام آدمی سے لے کر سربراہِ مملکت تک فرض ہوتا ہے۔ ریاست اور حکومت کو چلانے کیلئے آئین ہوتا ہے اور معاشرے کو قانون کے دائرے کے اندر چلانے کیلئے ملکی قوانین ہوتے ہیں۔ ان قوانین کے نفاذ کیلئے عدالتیں اور عملدرآمد کیلئے انتظامیہ ہوتی ہے۔ ہر ایک کا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے اور آئین اسے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ عدالتوں کے فیصلے کاغذوں پر تحریر ہوتے ہیں‘ ان کے پیچھے نہ ڈنڈا ہوتا ہے اور نہ کوئی بندوق‘ مگر ان پر من و عن اور بے چون و چرا عمل ہوتا ہے۔ عدالتوں کو یہ طاقت بھی آئین ہی فراہم کرتا ہے۔ عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل تو ہو سکتی ہے مگر ان سے روگردانی ممکن نہیں ہوتی۔

جب میں اپنے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں آئین کی بے توقیری‘ قانون کی کسمپرسی اور عوام کی بے یقینی دیکھتا ہوں تو مجھے حیرانی سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے کہ آخر ہم اس قسم کی صورتحال میں ریاست کو کب تک بکھرنے سے بچائیں گے اور کب تک اسے ریاست کی مانند چلا پائیں گے؟

مجھے ملنے والوں میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں‘ انتہائی پڑھے لکھے تعلیم یافتہ افراد سے لے کر معمولی تعلیم رکھنے والے‘ دیہاڑی دار دوستوں سے لے کر سرمایہ دار حضرات اور سرکاری نوکری پیشہ افراد سے لے کر کاروباری اصحاب تک سب سے ملتا ہوں۔ آج کل یہ صورتحال ہے کہ ان ملنے والوں میں سے ننانوے فیصد لوگ صرف ایک سوال کرتے ہیں کہ کیا پنجاب میں الیکشن صدر صاحب کی دی گئی تاریخ پر ہو جائیں گے؟آپ اندازہ کریں کہ سپریم کورٹ اس سلسلے میں فیصلہ دے چکی ہے اور اسی فیصلے کی روشنی میں صدرِ مملکت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کیلئے تیس اپریل کی تاریخ دے دی ہے مگر عالم یہ ہے کہ ہر ملنے والا نہایت ہی بے یقینی اور شک بھرے لہجے میں دریافت کرتا ہے کہ کیا اس مقررہ تاریخ پر الیکشن ہو جائیں گے؟ اس سے آپ اس ریاست کے آئین و قانون پر لوگوں کے اعتبار اور اعتماد کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جس ملک میں لوگ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بھی اس پر عملدرآمد کے بارے میں بے یقینی اور شک و شبہ کا اظہار کریں وہاں آپ کو یہ اندازہ ہو جانا چاہئے کہ ملک میں لوگوں کی نظر میں قانون اور آئین کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔

آئین و قانون پر لوگوں کا اعتماد ایسے ہی رخصت نہیں ہوتا۔ اس کے پس منظر میں بہت سے واقعات اور عوامل ہوتے ہیں جو عوام کو ایسا سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ آپ خود دیکھ لیں کہ خیبر پختونخوا میں کیا ہوا ہے؟ مولانا فضل الرحمن صاحب کے سمدھی جناب حاجی غلام علی صاحب خیبرپختونخوا کے گورنر ہیں اور اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط فرمانے اور اسے فارغ کرنے کے بعد بھی نئے انتخابات کی تاریخ دینے پر کسی طور راضی نہیں ہو رہے تھے۔ چلیں‘ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی حد تک ہم ان کی کٹ حجتی کو اگر تسلیم کر بھی لیں کہ انہوں نے اسمبلی کو توڑنے کی سمری پر دستخط نہیں کیے تو بات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے مگر گورنر کے پی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کیلئے تاریخ دینے میں مسلسل لیت و لعل کی نہ کوئی آئینی اور قانونی وجہ سمجھ آتی تھی اور نہ ہی کوئی اخلاقی جواز دکھائی دیتا تھا۔ سوائے اس کے کہ وہ پی ڈی ایم کی ہدایات اور مولانا فضل الرحمن سے اپنی رشتہ داری نبھا رہے تھے۔ حالات جب اس نہج پر پہنچ چکے ہوں تو عدالتوں کو چاہئے کہ وہ حکم جاری کرتے ہوئے اپنے حکم کو نہ ماننے کی صورت میں نتائج بھی اپنے فیصلے میں ہی لکھ دیا کریں کیونکہ اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار ہی نہیں بچا۔

الیکشن کمیشن کو متعدد بار غچہ دینے کے بعد بصدمشکل گورنر کے پی حاجی غلام علی نے عدالت عظمیٰ کے مورخہ یکم مارچ کے جاری کردہ حکم کے چودہ دن بعد الیکشن کی تاریخ دینے کی زحمت گوارا کی ہے۔ اگر عدالت اپنے فیصلے میں یہ قرار دیتی کہ یہ گورنر کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات نوے دن کے اندر کروانے کی غرض سے بروقت تاریخ دے۔ اگر وہ اپنی اس آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے میں حیل و حجت یا بہانہ بازی کرے تو ایسی صورت میں اتنے روز بعد اپنے عہدے سے فارغ تصور کیا جائے گا۔ جب حالات آئینی ہونے کے بجائے اس حد تک سیاسی ہو جائیں تو عدالتیں حکم جاری کرتے ہوئے معاملات کو اخلاقی ذمہ داری کے سر نہ چھوڑیں بلکہ اس کے ہر پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا جامع اور مکمل حکم جاری کریں کہ کسی کو اس سے روگردانی کی جرا ٔت نہ ہو۔

اب یہ عالم ہے کہ ننانوے فیصد لوگوں کو تو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں ہوں گے بلکہ اگر ان ننانوے فیصد لوگوں سے مزید سوال کریں تو ان میں سے اکثریت صاف کہہ رہی ہے کہ الیکشن نہیں ہوں گے یعنی سپریم کورٹ کا حکم آ چکا ہے‘ الیکشن کیلئے دونوں صوبائی حکومتیں تاریخ دے چکی ہیں اور پنجاب میں تو کاغذات نامزدگی بھی جمع ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی کو بھی الیکشن ہونے کا یقین نہیں ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ باقاعدہ پریشان کن صورتحال ہے کہ لوگوں کا اس سارے عمل پر اعتبار ہی نہیں رہا۔ نہ لوگوں کو آئین پر یقین رہا ہے اور نہ ہی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے پر عملدرآمد کا ہی یقین باقی رہا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے جو آنے والے دنوں میں مزید خرابی کا باعث بنے گی۔

سارے ملک میں قانون مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اب ایسے ایسے مطالبات ہو رہے ہیں کہ بندہ حیران و پریشان ہے۔ دو روز قبل رکشہ ڈرائیوروں نے چھ نمبر چونگی چوک تین گھنٹے بند رکھا‘ کل صبح دفتر جانے لگا تو وہ نو نمبر چونگی چوک کو بند کیے بیٹھے تھے۔ معاملہ یہ ہے کہ رکشہ ڈرائیور حضرات ڈرائیونگ لائسنس چیک کرنے پر احتجاج کر رہے ہیں یعنی اب رکشہ ڈرائیور اس بات پر ناراض ہیں کہ پولیس ان کے ڈرائیونگ لائسنس کیوں چیک کرتی ہے۔ تاہم میں نے جب ان رکشہ ڈرائیوروں کے مطالبے پر ٹھنڈے دل سے غور کیا تو مجھے ان کے مطالبے پر اپنی حیرانی پر حیرت ہوئی کہ بھلا ان رکشہ ڈرائیوروں کا مطالبہ کون سا غلط ہے؟ اگر اسمبلی میں بیٹھے پڑھے لکھے لوگ جو قانون سازی جیسے اعلیٰ و ارفع کام کیلئے منتخب ہو کر اس معزز ایوان میں آتے ہیں‘ ان کی ایک کمیٹی یہ فیصلہ کرے کے پی آئی سے جعلی ڈگری کی بنیاد پر فارغ ہونے والے تمام ملازمین کو نہ صرف یہ کہ بحال کیا جائے بلکہ ان کو فراغت والے عرصے کے بقایا جات بھی ادا کیے جائیں تو مجھے رکشہ ڈرائیوروں کے مطالبے پر رتی برابر حیرانی نہیں ہوتی۔جن لوگوں نے قانون بنانے ہیں وہی قانون کا مذاق اڑانے پر آ جائیں اور جعلی ڈگری پر بھرتی ہو کر حقداروں کا حق مارتے ہوئے نوکری حاصل کرنے اور تنخواہیں ڈکارنے والوں سے جعلسازی کے ذریعے لی گئی تنخواہیں واپس وصول کرنے کے بجائے قانون ساز ادارے کی کمیٹی ان فراڈیوں کو بحال کرنے کے ساتھ ان کو نکالے جانے کے بعد کے عرصے کے بقایا جات ادا کرنے کا حکم دے‘وہاں میرٹ‘ قانون اور قاعدے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے ؟ جب ملک میں حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو ایسے میں لوگوں کا آئین اور قانون پر اعتبار اور اعتماد رخصت ہو جائے تو حیرانی کی کیا بات ہے؟