معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
دائرے کا سفر
حکمرانوں کی نالائقیاں اپنی جگہ، لیکن اللہ تعالیٰ جتنا کرم ہم پاکستانیوں پر کرتا ہے اس کی کوئی حد ہی نہیں۔ جب بھی ہمارے حکمران اپنی نالائقیوں، نااہلیوں اور بدنیتوں سے ملک اور غریب عوام کا بیڑہ غرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں غیب سے ایسی مدد آتی ہے کہ اس رحیم کے کرم پر جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے اور یہ کوئی ایک بار نہیں ہوا۔ تازہ مثال لے لیں۔ ملک میں گندم کی فصل کی کاشت کے موقع پر یوریا کی شارٹیج ہو گئی۔ ویسے تو ہر فصل کی کاشت پر کھاد کی شارٹیج کوئی نئی بات نہیں اور ہم وہ قوم ہیں جو مجبوریاں خریدنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں اور تقریباً ہر سال ہر فصل کی کاشت کے دوران استعمال ہونے والی کھادوں کو بلیک کرنے کی عشروں پرانی تاریخ رکھتے ہیں لیکن جو اس سیزن میں ہوا ہے اس کی تو ماضی میں مثال ہی نہیں ملتی۔ گندم کی کاشت شروع ہوئی تو ڈی اے پی کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ ویسے تو یہ ڈی اے پی والا مسئلہ بھی کوئی نیا نہیں؛ تاہم اس بار ڈی اے پی کے ساتھ دو مسئلے پیش آئے۔ ایک یہ کہ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھنے سے اس کی پاکستان میں بھی قیمت میں اضافہ ہوگیا لیکن نسبتاً یہ اضافہ بہت زیادہ تھا۔ اوپر سے اس کی شارٹیج کی وجہ سے یار لوگوں نے اس کی بلیک شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے سے اوپر جاتی ہوئی قیمتوں کو پر لگ گئے اور ڈی اے پی کی ایک بوری کی قیمت دس ہزار تک جا پہنچی۔ ستم یہ تھاکہ اس قیمت پر بھی آسانی سے دستیاب نہ تھی۔
گندم کی بجائی کے بعد یوریا کھاد کے استعمال کا وقت آیا تو پتا چلا کہ یوریا کی شارٹیج پیدا ہوگئی ہے۔ پاکستان میں یوریا کی شارٹیج اور بلیک پہلی بار نہیں ہوئی۔ یہ تقریبا روٹین کا معاملہ ہے لیکن اس بار تو ریکارڈ ہی ٹوٹ گئے۔ قطاروں میں لگ کر گھنٹوں تک انتظار کرکے ایک دو بوریوں کی خاطر ذلیل ہونے کی اس سے پہلے ایسی مثال بہرحال نہیں ملتی۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو وہی پرانی کہ ذخیرہ اندوزوں، ڈیلروں اور بڑے بڑے دکانداروں نے ہوا کا رخ بھانپ کر یوریا سٹاک کرلیا۔ دوسری یہ کہ وسطی ایشیا کی ریاستوں میں یوریا کھاد کی شدید کمی تھی اور وہاں اس کا ریٹ بھی بہت زیادہ تھا۔ یوں سمجھیں کہ پاکستانی نو دس ہزار روپے کی ایک بوری یوریا مل رہی تھی۔ کے پی‘ کے پیسے والے کھاد ڈیلروں کے علاوہ زورآوروں کے فرنٹ مینوں نے کھاد ڈیلروں سے مال ان کے گوداموں میں پہنچنے سے بھی پہلے ایڈوانس کیش پر خریدا اور کھاد ان کے گوداموں کے بجائے براہ راست اپنے ٹرکوں پر لدوائی اور کھاد فیکٹریوں سے براستہ خیرپختونخوا سے سیدھی وسطی ایشیا کی ریاستوں کو بھجوا دی اور لمبے نوٹ کھرے کر لیے۔ ادھر سے تین ساڑھے تین ہزار میں کیش پر یوریا خرید کر ساڑھے نو دس ہزار روپے فی بوری میں سارا مال ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان وغیرہ میں بیچ دیا۔ مال برداری اور بارڈر پر لینے دینے والے معاملات کا خرچہ ہزار روپے فی بوری بھی ڈال دیں تو کہاں چار ساڑھے چار ہزار روپے فی بوری اور کہاں ساڑھے نو دس ہزار روپے بوری۔ آپ اس سارے معاملے میں ہونے والی لوٹ مار کا اندازہ خود لگا لیں۔ حال ہی میں پاکستان کے چاروں وزرائے اعلیٰ میں سب سے بہترین کارکردگی کا تمغہ حاصل کرنے والے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اینڈ کمپنی سوئی رہی۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ فی الوقت مرکزی حکومت میں خیبرپختونخوا لابی کافی سے زیادہ تگڑی ہے اور کم از کم عثمان بزدار صاحب میں اس لابی کو روکنے یا اس کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے کے تپڑ نہیں ہیں۔ بزدار صاحب کی کمزوری، خیبرپختونخوا والوں کی زوآوری اور سسٹم کی لاچاری کے طفیل لاکھوں بوری یوریا بارڈر پار چلی گئی اور پنجاب کے کسان ذلیل و خوار ہوگئے۔ اب اگر کھاد کی بروقت دستیابی نہ ہونے کے باعث گندم کی فی ایکڑ پیداوار کم ہوئی اور گندم کی کل ملکی پیداوار میں کمی ہو گئی تو اس کمی کو پورا کرنے کیلئے پھر گندم درآمد کی جائے گی اور ظاہر ہے بین الاقوامی قیمتوں کے مطابق اس درآمد شدہ گندم پر جہاں ملکی زرمبادلہ خرچ ہوگا وہیں اس قیمت کا براہ راست فائدہ غیرملکی کسانوں کو ہوگا‘ یعنی پاکستان کے کاشتکار کو یوریا کی کمی کے باعث نقصان ہوگا جبکہ یوریا کے استعمال سے وسطی ریاستوں کا کاشتکار اپنی بہتر فصل کو مہنگے داموں پاکستان کو فروخت کرکے مزے کرے گا۔
جیساکہ میں کالم کے آغاز میں کہہ چکا ہوں، ہر بار قدرت کسی نہ کسی طرح ہماری مدد کر دیتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں گندم کے کاشتکار نے ڈی اے پی کی کمی اور قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باعث یا تو فصل کی کاشت کیلئے سفارش کردہ دو بوری فی ایکڑ ڈالنے کے بجائے ایک یا ڈیڑھ بوری ڈالی ہے یا پھر اس نے کسی نہ کسی طرح دو بوری کا انتظام تو کرلیا مگر اس کی لاگت اس کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہوگئی۔ یہی حال یوریا کا تھاکہ وہ کاشتکار کو ضرورت کے مطابق وقت پر نہیں ملی تھی؛ تاہم قدرت نے اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک بار پھر کاشتکار کی مدد کی اور جنوبی پنجاب میں بہت ہی مناسب وقت پر بارش نے گندم کی فصل کو نئی زندگی عطا کر دی۔ گو کہ یہ بروقت بارش یوریا کا مکمل متبادل نہیں، لیکن اس نے گندم کی فصل میں متوقع کمی کو کچھ نہ کچھ کم ضرور کردیا ہے اور یوریا کی کمی کے باعث رنگ بدلتی ہوئی گندم کی فصل کو کسی حد تک دوبارہ سرسبز کردیا ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے ہم پر ہمیشہ کی طرح کی جانے والی مہربانی ہے جو وہ ہماری نالائقیوں کے باوجود ہم پرکرتی رہتی ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ ایک دوست نے بتایا‘ یوریا کی بلیک سے جہاں ڈیلر، دکاندار اور فرٹیلائزر فیکٹریوں نے نوٹ کمائے وہیں حکومتی مداخلت کے طفیل سرکاری افسروں نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ بہاولنگر کی ایک تحصیل سے ایک واقف حال دوست نے بتایاکہ ہزار بوری یوریا کے ٹرک میں سے تین سو بوری تو قطار میں لگے ہوئے کاشتکار کو کنٹرول ریٹ پر دے دی گئی؛ تاہم بقیہ سات سو بوری فی ٹرک بلیک کی گئی اور دکاندار اور حکومت کی جانب سے نگرانی پر مامور اسسٹنٹ کمشنر اس میں برابر کے حصہ دار تھے۔ اس طرح اس لوٹ مار میں ایک اور فریق کا اضافہ ہوگیا۔ ایک دواور دوستوں سے دریافت کیا تو پتا چلاکہ یہ صرف بہاولنگر کی اس ایک تحصیل میں نہیں ہوا تقریباً ہرجگہ یہی حال تھا۔
زرعی مداخل میں اضافے کا یہ عالم ہے کہ اب مکئی کی فصل کی کاشت کا خرچہ تقریبا دوگنا ہوگیا ہے۔ مکئی کی کاشت کیلئے دو بوری ڈی اے پی، ایک بوری ایس او پی اور آدھی بوری یوریا استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ درآمد شدہ بیج جس کی کاشت سے قبل ٹریٹمنٹ کی جاتی ہے اور بھرپور فصل لینے کیلئے Herbicide کا سپرے لازمی ہے تاکہ غیرضروری جڑی بوٹیوں کو تلف کیا جا سکے۔ اس سارے عمل پرگزشتہ سیزن میں پچیس سے تیس ہزار روپے لاگت آتی تھی۔ اب یہ خرچہ بڑھ کر پچاس سے ساٹھ ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ مکئی کی کاشت کم ہوجائے گی۔ پولٹری فیڈ میں مکئی کے بجائے گندم بطور متبادل استعمال ہوگی اور ایک بار پھر گندم کا بحران سراٹھائے گا، پھر گندم درآمد کرنا پڑے گی اورپھر ہمارا زرمبادلہ یوکرائن اور وسط ایشیائی ریاستوں کے کاشتکاروں کی جیب میں جائے گا۔ اللہ جانے ہم کب تک ایک دائرے کا سفر کرتے رہیں گے؟