سردار بلدیو سنگھ کے طفیل لکھا گیا کالم

سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو کے طفیل بعض اوقات بڑی سہولت ہو جاتی ہے ‘ بھارتی پنجاب میں رہنے والے سردار بلدیو سنگھ کو بھی تقریباً تقریباً انہی مسائل کا سامنا ہے جن سے اس خطے کے دیگر لوگوں کو واسطہ پڑتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے بہت سے مسائل اور ان کے ذمہ داران کے بارے میں بوجوہ کچھ لکھ نہیں سکتے۔ ایسا معاملہ آن پڑتا ہے تو پھر اپنے سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو کو پیش آنے والے معاملات کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا لیتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ بھارتی پنجاب میں پیش آنے والے حالات و واقعات پر لکھنے کی ہمارے ہاں نہ تو بندش ہے اور نہ ہی اس پر کسی پوچھ تاچھ کا ڈر یا خوف ہے اس لئے ہم بے خوف ہو کر سردار بلدیو سنگھ کے حوالے سے جو چاہیں لکھ سکتے ہیں۔
سردار بلدیو سنگھ کا قصبہ تلونڈی سابو پنجاب کے ضلع بھٹنڈہ میں واقع ہے اور سکھوں کے پانچ مقدس ترین مقامات میں سے ایک سری دمدمہ صاحب تلونڈی سابو میں ہی واقع ہے۔ سردار بلدیو سنگھ پٹیالہ کی شہرہ آفاق پنجابی یونیورسٹی کے تلونڈی سابو میں قائم پنجابی یونیورسٹی گرو کاشی کیمپس کی سنڈیکیٹ کے ممبر تھے۔ یونیورسٹی کے اس کیمپس میں واقع یونیورسٹی سکول آف بزنس سٹڈیز میں نچلے درجے کے سٹاف کی بھرتیوں کا سارا عمل طے شدہ طریقہ کار اورضابطے کے مطابق ہونے کے بعد بغرض منظوری سنڈیکیٹ کے پاس آیا۔ سنڈیکیٹ والوں نے ان بھرتیوں کے سارے عمل کا بنظرِعمیق جائزہ لینے اور اس پر بحث و تمحیص کے بعد اس کی منظوری دے دی‘ سارا مسئلہ دراصل اس منظوری کے بعد کھڑا ہوا۔
کسی بدخواہ نے ان بھرتیوں کے عمل کے دوران دیے جانے والے اشتہار کی کسی ایک شق کو میرٹ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے یونیورسٹی انتظامیہ کی بدنیتی اور بے ایمانی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سی بی آئی(سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) کو درخواست دے دی اور سی بی آئی نے اس درخواست کی بنیاد پر بھرتیوں کے سارے عمل کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے یونیورسٹی کے رجسٹرار اور سنڈیکیٹ کے خلاف بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کی دفعات کے تحت پرچہ درج کر کے ان کی گرفتاری کیلئے سرکار سے رجوع کر لیا۔ سنڈیکیٹ کے ارکان نے ضمانت قبل از گرفتاری اور پرچے کے اخراج کیلئے عدالت سے رجوع کر لیا۔ سماعت شروع ہوئی تو سردار بلدیو سنگھ نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اجازت دیں تو وکیل کرنے کے بجائے وہ خود دلائل دینا چاہتے ہیں‘ عدالت نے سردار بلدیو سنگھ کی درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
جج صاحب نے بلدیو سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے دریافت کیا کہ سنڈیکیٹ نے خلافِ ضابطہ بھرتیاں کس اختیار کے تحت کیں؟ سردار بلدیو سنگھ نے عدالت کو بتایا کہ اخبارات میں دیے جانے والا اشتہار یونیورسٹی کے کیلنڈر میں مذکورہ اسامیوں کیلئے درکار شرائط کے عین مطابق ہے اور اس سلسلے میں نہ صرف یہ کہ میرٹ کی خلاف ورزی نہیں ہوئی بلکہ سرکار کو اس سارے عمل کے دوران کسی قسم کا مالی نقصان بھی نہیں ہوا اور میرٹ کو بھی کسی صورت میں پامال نہیں کیا گیا؛تاہم جج صاحب نے فرمایا کہ اشتہار میں درج ایک شق پر اعتراض ہے اور اس سے بھرتیوں کا سارا عمل مشکوک ہو گیا ہے اور اس سے بددیانتی اور کرپشن کے امکانات سامنے آئے ہیں۔ آپ نے ان اسامیوں پر درخواست دینے والوں کیلئے پنجاب اور ہریانہ کے رہائشی افراد کی شرط عائد کی ہے‘ دوسرے صوبوں کیلئے اجازت نہیں دی‘ اس سے یہ سارا عمل غیر شفاف ہو گیا ہے۔ سردار بلدیو سنگھ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دور دراز کے صوبوں سے ان معمولی ملازمتوں کیلئے آنے والوں کو جونہی ان کے گھر کے قریب نوکری ملتی ہے وہ یہ ملازمت چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جس سے یونیورسٹی کیلئے انتظامی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یونیورسٹی خود مختار ادارہ ہے اور اپنے ضوابط خود طے کر سکتی ہے۔ جج صاحب نے سردار بلدیو سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ پھر آپ نے پنجاب میں واقع یونیورسٹی کیلئے ہریانہ صوبے کے رہائشیوں کو ان ملازمتوں کیلئے کس لیے اہل قرار دیا ہے۔ سردار بلدیو سنگھ نے کہا کہ یہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کا سب کیمپس ہے اور یہ یونیورسٹی پٹیالہ میں چارٹر ہوئی ہے جو صوبہ ہریانہ میں ہے اور یونیورسٹی کیلنڈر ہی کے مطابق ہریانہ کے رہائشی نچلی ملازمتوں میں ترجیحی سلوک کے حقدار ہیں۔ جج کہنے لگا: آپ نے اشتہار کی منظوری دیتے ہوئے اس اس شق کا ذکر کیوں نہیں کیا؟سردار بلدیو سنگھ کہنے لگا: جناب اگر ایسا ہوا ہے تو یہ محض انسانی خطا اور بھول چوک ہے، بدنیتی‘ بددیانتی یا بے ایمانی کا اس سارے عمل میں کوئی دخل نہیں ہے۔ جج صاحب کہنے لگے: آپ درست فیصلہ کرنے کے پابند ہیں‘ اس میں بھول چوک یا کوتاہی بھی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ قانون کی نظر میں کسی قسم کا غلط فیصلہ کرنے والا خواہ اس کی نیت درست ہی کیوں نہ ہو‘ مستوجب سزا ٹھہرایا جائے گا۔
سردار بلدیو سنگھ نے نہایت ہی مسمسی سی آواز نکالتے ہوئے جج صاحب کو مخاطب کیا اور کہنے لگا کہ اگر عدالت کو گستاخی تصور نہ کرے تو وہ ایک ذاتی واقعہ سنانا چاہتا ہے۔ جج نے اسے اجازت دے دی۔ سردار بلدیو سنگھ کہنے لگا کہ اس کا اپنے چچا زاد بھائی سے جائیداد کی تقسیم کا ایک جھگڑا بصورتِ مقدمہ عدالتوں میں پندرہ سال تک چلنے کے بعد گزشتہ سے پیوستہ ماہ اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔ پندرہ سال تک چلنے والا یہ مقدمہ اس دوران چار عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔ یہ کیس تین سال تک سول کورٹ میں چلا اور اس کا فیصلہ میرے چچا کے بیٹے کے حق میں ہوا۔ میں نے اس فیصلے کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل کر دی۔ سیشن کورٹ میں یہ اپیل پانچ سال تک چلتی رہی اور آخرکار اس کا فیصلہ میرے حق میں ہو گیا‘ میرے چچا زاد بھائی نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ اس کیس کی تاریخ لگنے میں تین سال لگ گئے؛ تاہم کیس شروع ہونے کے بعد زیادہ وقت نہ لگا اور ایک سال کے اندراندر اس اپیل کا فیصلہ میرے چچا کے بیٹے کے حق میں ہو گیا۔ اب میری باری تھی کہ میں اپیل کرتا ‘لہٰذا میں نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ یہاں اپیل دوسال کے بعد بحث کیلئے زیر سماعت آئی اور ایک سال کے ا ندر اندر اس کافیصلہ میرے حق میں ہو گیا یعنی ان پندرہ سال میں پہلا فیصلہ میرے خلاف ‘ دوسرا میرے حق میں ‘ تیسرا پھر میرے خلاف اور چوتھا ایک بار پھر میرے حق میں آیا۔سر! اگر آپ اسے توہین عدالت نہ سمجھیں اور میری گستاخی سے درگزر فرمائیں تو میرا ایک سوال ہے کہ آخر ایک ہی مقدمے میں انہی کاغذات اور گواہوں کے ہوتے ہوئے ہر بار فیصلہ پہلے سے الٹ ہوتا رہا ہے‘ تو کون سا فیصلہ درست تھا اور کون سا غلط تھا؟ کس جج نے قانون کے مطابق فیصلہ دیا اور کس نے قانون سے ہٹ کر؟ اگر کوئی فیصلہ غلط تھا تو اس فیصلہ کرنے والے سے کسی نے پوچھا ‘کوئی سوال کیا؟ کوئی سزا دی ؟ جج صاحب نے زچ ہو کر سردار بلدیو سنگھ سے کہا کہ انہیں اس کی باتیں سمجھ نہیں آ رہیں‘ وہ کوئی وکیل کرے۔ سردار بلدیو سنگھ کہنے لگا: سرجی سمجھ آپ کو نہیں آ رہی اور وکیل میں کروں؟ عدالت میں زور دار قہقہہ لگا‘ جج صاحب نے فوری طور پر اگلی تاریخ ڈالی اور عدالت برخاست کر دی۔