پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
شیر آیا، شیر آیا!
ہماری اپوزیشن ہومیو پیتھک قسم کی اپوزیشن ہو کر رہ گئی ہے، اس طریقۂ علاج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیمار کو تندرست کرنے میں وقت بہت لیتا ہے اور ایک بات یہ بھی کہ اگر اس کے استعمال سے کسی کو فائدہ نہ پہنچے تو نقصان بھی کوئی نہیں ہوتا۔ پاکستانی اپوزیشن کو کامیابی میں وقت تو واقعی بہت لگتا ہے تاہم ان دنوں یہ فعال سیاست دانوں کے لئے نقصان دہ بہرحال ثابت ہو رہی ہے۔ فعال سیاست دانوں میں سے شاید ہی کوئی بچا ہو جس نے جیلوں کی سیر نہ کی ہو یا مقدمات کا سامنا نہ کیا ہو۔ اگر کوئی بچ گیا ہے تو بھی اور اگر کوئی جیل یاترا کر آیا ہے تو بھی کرپشن کا الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود اسے ڈاکو اور لٹیرا ایسے کہا جاتا ہے جیسے یہ اس کے نام کا حصہ یا اس کا تخلص ہو۔
تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سننے میں آتا ہے کہ اپوزیشن لانگ مارچ کرنےوالی ہے یا یہ کہ ایمپائر نیوٹرل ہوگیا ہے، مگر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ مجھے ایسے مواقع پر میڈم نور جہاں بہت یاد آتی ہے۔ ایک نوجوان سازندہ اس پر عاشق ہوگیا، اظہارِ مدعا کے لئے اس کی خدمت میں حاضر ہوتا مگر دل کی بات زبان پر لانے کی جرأت نہ پاتا۔ ایک دن وہ تہیہ کرکے گیا کہ جو بھی ہو آج وہ دل کی بات کہہ کر ہی آئے گا۔ وہ مادام کی طرف دیکھتا جائے مگر جب کچھ کہنے لگے تو ہکلانا شروع کر دے، مادام سرد و گرم زمانہ چشیدہ تھی، سمجھ گئی کہ ماجرا کیا ہے، اس نے دس بارہ منٹ انتظار کیا کہ وہ دل کی بات کہہ لے لیکن جب وہ صرف ہکلاتا ہی رہا تو مادام نے اسے مخاطب کیا، اور کہا ’’اڑیا جو کہنا ہے، وہ اب کہہ بھی دے، اتنی دیر میں تو میں تین گانے ریکارڈ کروا دیتی ہوں‘‘۔اپوزیشن کا معاملہ بھی یہی ہے، بس فرق یہ ہے کہ بے چاری دل کی بات تو زبان پر لے آتی ہے، اس کا خمیازہ بھی بھگتتی ہے، مگر پھر چپ ہو جاتی ہے۔ البتہ سارے نیوز چینلز رات آٹھ سے گیارہ بجے تک اس کو ہلّاشیری دیتے ہیں یا ان پر آوازے کستے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں اور حکومت کے بہی خواہوں کو ان چینلز پر مدعو کیا جاتا ہے اور پھر روزانہ شکوہ اور جوابِ شکوہ سننے کو ملتا ہے، کچھ اینکرز ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی پوری کوشش ہوتی ہےکہ گفتگو کے دوران ’’امن عامہ‘‘ کو خطرے میں ڈالا جائے۔طرفین کے سخت جملوں سے ان ’’اذیت پسندوں‘‘ کی تسلی کہاں ہوتی ہے،مزا تو تب آتا ہے جب زبان بلکہ دہن بگڑنے کے بعد ہاتھا پائی کی نوبت نہ آئے اور ایک فریق اسپیکر اتار کر پرے نہ پھینکے اور واک آئوٹ نہ کرے۔ ایسے پروگرام سپرہٹ کہلاتے ہیں اور جو تماش بین قسم کے ناظرین ہیں ان کی دعائوں کے طفیل ایسے پروگرام کی ریٹنگ کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے۔
کافی عرصہ سے ایک اور تماشا بھی دیکھنے کو مل رہا ہوتا ہے، کوئی باخبر صحافی اپنے ٹوئٹر پر یا اپنے یوٹیوب پروگرام میں یہ پیش گوئی کر ڈالتا ہے کہ تماشا ختم ہونے کو ہے، ایمپائر نیوٹرل ہوگئے ہیں اور حکومت جو بنی ہی ان کے تعاون سے تھی اور ابھی تک تمام تر ناکامیوں کے باوجود چل بھی انہی کے تعاون سے رہی تھی، انہوں نے ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لئے ہیں، سو اب مہینوں کی نہیں، صرف دو ایک ہفتوں کی بات ہے جب تخت گرائے جائیںگے، جب تاج اچھالے جائیں گے تو اس خوشخبری سے گونگے پہلوان بھی بولنا شروع کردیتے ہیں، مگر ہفتے تو کیا مہینے گزر جاتے ہیں اور وہ مواقع بھی آتے ہیں جب ایمپائروں کے نیوٹرل ہونے کا ثبوت ملنا ہوتا ہے لیکن جب اس بار بھی اپوزیشن کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو اس کا منہ لٹک جاتا ہے۔میں نے ایک دوست سے کہا یار اس طرح کی پیش گوئیوں کی ناکامیوں سے تو حکومت شیر ہو جاتی ہےاور عوام پژمردہ نظر آنے لگتے ہیں تو وہ بولا میرے بھولے دوست تم نے سنا نہیں کہ ایک گائوں میں آئے روز شور اٹھتا تھا کہ شیر آیا، شیر آیا، جس پر گائوں والے اپنے ہتھیاروں سمیت راتوں کو جاگنا شروع کردیتے تھے، مگرشیر نہیں آتا تھا، میں نے جواب دیا ہاں یہ بات میں نے بھی سنی ہوئی ہے، دوست بولا ’’بار بار شیر آنے کی خبر غلط ثابت ہونے پر گائوں والے مطمئن ہوگئے اور چین کی نیند سونے لگے اس دوران ایک رات کو پھر شور اٹھا کہ شیر آیا، شیر آیا، مگر گائوں والے سوئے رہے اور اس رات واقعی شیر آگیا اور اپنی کارروائی کرکے واپس اپنی کچھار میں چلاگیا‘‘۔یہ واقعہ بیان کرنےکے بعد دوست نے پوچھا ’’تمہیں کچھ سمجھ آئی؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’نہیں‘‘ ۔ پھر میں نے اس سے پوچھا ’’خود تمہیں کچھ سمجھ آئی؟‘‘ کہنے لگا ’’ سمجھ تو مجھے بھی نہیں آئی‘‘۔ میں نے کہا ’’پھر تم نے یہ کہانی کیوں سنائی؟‘‘ بولا ’’ہم دونوں بہت دیر سے خاموش بیٹھے تھے، مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے بات شروع کی ، اب تم اس بات کو آگے بڑھائو، چپ رہنے سے بولنا بہتر ہے‘‘۔